ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ تعلیم پراپیگنڈہ ہوتی ہے۔
ٹراٹسکی کے کہنے کامطلب یہ تھا کہ ریاست کی ساخت چاہے کچھ بھی ہو، وہ سرمایہ دارانہ ریاست ہویا مزدور ریاست، تعلیم کا مقصد indoctrination ہوتا ہے۔
آج جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میںپڑھائے گئے نصاب بارے سوچتاہوں توٹراٹسکی کاتجزیہ باربار یاد آتاہے۔
ارے ہاں!میں نے کتاب کے شروع میں وعدہ کیاتھا کہ ٹراٹسکی بارے کچھ کہوں گا۔اس سے پہلے کہ نصاب کارونارویا جائے،لگے ہاتھوں یہاں ٹراٹسکی بارے کچھ کہتا چلوں۔
ٹراٹسکی انقلابِ روس میں لینن کے ہمراہ انقلاب کاایک اہم ترین لیڈر تھا۔ ٹراٹسکی کو اس انقلاب کا معماربھی کہاجاتا ہے۔عالمی مارکسی تحریک کے عظیم ناموں میں ٹراٹسکی کاایک اہم مقام ہے۔یہاں یہ تو ممکن نہیں کہ ٹراٹسکی کے حالاتِ زندگی بیان کئے جائیں البتہ اس کی جدوجہد اورنظریات کامختصر ذکر آپ کے لیے ضرور دلچسپی کاباعث ہوگا۔1917ء میںروس اندر دوانقلاب برپاہوئے۔ پہلا انقلاب جو فروری 1917ء میں آیا جس کے نتیجے میںزارِ روس کی بادشاہت کاخاتمہ ہوا۔دوسرا انقلاب اکتوبر میں لینن اورٹراٹسکی کی قیادت میںروسی مزدوروں نے برپا کیا۔ اس انقلاب کواکتوبر انقلاب اوربالشویک انقلاب بھی کہاجاتاہے۔ انقلاب نے دنیا بھرکو ہلا کر رکھ دیا بالخصوص یورپ کی سامراجی طاقتیں خوفزدہ ہو کررہ گئیں۔ اس انقلاب سے متاثر ہوکرپورے یورپ کے مزدوروں نے انقلاب برپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں لہٰذا سامراجی قوتوں نے مل کر روس پر حملہ کردیا۔ دوسری طرف روس کے سرمایہ دار جاگیردار طبقے نے وائٹ آرمی تشکیل دیکر مزدور حکومت کے خلاف سول جنگ شروع کردی۔ بیرونی حملے اوراندرونی خانہ جنگی کاقلع قمع کرنے کے لیے مزدور حکومت نے سرخ فوج تشکیل دی اورٹراٹسکی کواس کا سپہ سالار مقررکیا۔ سرخ فوج نے نہ صرف بیرونی فوجوںکو شکست دی بلکہ سفید آرمی کی بھی سرکوبی کی لیکن خانہ جنگی اور بیرونی حملوں نے روسی معیشت کادیوالیہ نکال دیا۔ دوسری جانب روس کے علاوہ کسی بھی ملک میں مزدور انقلاب کامیاب نہ ہوسکا۔روسی انقلاب تنہا ہو کررہ گیا۔ مخصوص حالات کی وجہ سے روس میں اقتدار اوربالشویک پارٹی پربیوروکریسی کاقبضہ ہونے لگا۔1924ء میں لینن کی وفات کے بعد یہ قبضہ بہت مضبوط ہوگیا۔ ٹراٹسکی نے نوکر شاہی کے قبضے کے خلاف اورملک کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر جمہوریت کے لیے جدوجہد شروع کی۔ ٹراٹسکی کی اس جدوجہد سے خوفزدہ ہوکر بیوروکریسی نے نہ صرف ٹراٹسکی کوجلاوطن کردیابلکہ پارٹی کے اندر ہرمخالف آواز کوجسمانی طورپر ختم کرنا شروع کر دیا۔ 1930ء کی دہائی میں لاکھوں لوگ جلاوطن اور قتل کئے گئے۔ٹراٹسکی ناروے اور ترکی سے ہوتاہوا آخر کار میکسیکو میں پناہ گزین ہواجہاں 1938ء میں اسے سٹالن کے ایک ایجنٹ نے قتل کردیا۔ٹراٹسکی کی جدوجہد محض سوویت روس تک محدود نہ تھی بلکہ اس کی لڑائی نظریاتی اورعالمی نوعیت کی حامل تھی۔ سٹالن کی قیادت میںروسی بیوروکریسی اس نظرئیے کی قائل تھی کہ سوشلزم ایک ملک میں زندہ رہ سکتاہے اورتیسری دنیا کے ممالک میں مزدوروںکوسرمایہ داروں کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ وہاں سرمایہ داری ترقی کرسکے اوربعدازاں سوشلزم آسکے۔اس کے برعکس ٹراٹسکی کاخیال تھا سوشلزم ایک ملک میںزندہ نہیںرہ سکتا، جب تک سوشلسٹ انقلاب دوسرے ملکوںمیںکامیاب نہیںہوتاتب تک روس اندر بھی اس کازندہ رہنامحال ہے(اوریہی ہوا)۔ اسی طرح ٹراٹسکی کاکہنا تھا کہ تیسری دنیا میں سرمایہ داروں کاساتھ دینا غلط ہے بلکہ وہاں بھی سوشلسٹ انقلاب ہی مسائل کاحل ہے۔
1985-6ء تک ٹراٹسکی کے نظریات سوویت روس میں بیان نہیں کئے جاسکتے تھے البتہ یورپ اورلاطینی امریکہ میں 1960ء کی دہائی میں نوجوانوں نے ان نظریات کااثر قبول کیا۔اسی اور نوے کی دہائی میں ٹراٹسکی کے نظریات عالمی سطح پر زیادہ تیزی سے ابھرے۔
آج پاکستان میں بھی بایاں بازو ٹراٹسکی سے خوب واقف ہے اورمزدوروں، نوجوانوں اورٹریڈ یونین تحریک کے کارکنوں کی ایک خاص تعداد نے ان نظریات کااثر قبول کیا ہے۔خیریہ تو تھا ٹراٹسکی کاذکر!بات ہورہی تھی جونلزم ڈیپارٹمنٹ کے نصاب کی۔
یہ شکایات توخیر ہر طالب علم اورہر معلم کرتانظرآتا کہ نصاب فرسودہ ہے، بورنگ ہے، بلا مقصد ہے وغیرہ وغیرہ لیکن میری تنقید اس کے سوا تھی۔یہ تنقیدی نقطہ نظر میں نے عملی صحافت کے باقاعدہ دھکے کھانے کے بعد اختیار کیا۔میری تنقید یہ ہے کہ صحافت کے طالب علموں کو سول اینڈ ملٹری گزٹ سے لے کر روز نامہ خبریں اورمولاناجوھر سے لے کر میرخلیل الرحمن تک سے تومتعارف کرایاجاتا ہے لیکن پی ایف یوجے، پی یوجے یا پریس کلب کا علم نہیں دیا جاتا۔ انہیں اے پی این ایس اور پی ایف یوجے کافرق معلوم نہیں ہوتا۔مولانا ظفر علی خان کی صحافتی حریت پسندی کے ذریعے indoctrination توکی جاتی ہے البتہ یہ ذکر کبھی نہیں کیا جاتا کہ آیا’ زمیندار‘ میںکام کرنے والے اخباری کارکنوں کو ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ بھی ملتی تھی یا نہیں؟1
میر خلیل الرحمن اورحمید نظامی کی ’’صحافتی خدمات‘‘ کا ذکر تو ملتا ہے۔ لیکن ان کے اداروں میں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کا جو استحصال ہوتا چلا آ رہا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
ویج بورڈ کیا ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟اس کے لیے کیا جدوجہد ہوئی؟ ضیاء مارشل لاء میں چلنے والی صحافیو ں کی عظیم تحریک جس کے نتیجے میں چار صحافیوں کوکوڑے مارے گئے (ان میں سے ایک، ناصر زیدی میرے دوست اور گرو ہیں)یہ عظیم کارنامے صحافت کی اس تاریخ کا حصہ نہیں جو جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں پڑھائی جاتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم عارف نظامی اورضیاء شاہد کو توصحافی سمجھتے ہیں لیکن صحافی کی تعریف کیا ہوتی ہے، انہیں معلوم نہیں ہوتی!1
لیکن گلہ کیسا؟ تعلیم تو پراپیگنڈہ ہوتی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کا مقصد سرکار اور اخبار کے لیے کارکن تیار کرنا ہے انقلاب برپا کرنا نہیں۔