ڈیپارٹمنٹ ٹور کسی زمانے میں شمالی علاقہ جات جایا کرتے تھے۔ ڈیپارٹمنٹ میںموجود تمام لڑکیاں لڑکے ایک ساتھ سفرکرتے ۔پھرجماعتی اسلام نافذ ہوگیا اورٹورز ایک دن تک محدود ہوکررہ گئے۔پارٹ ون میں جوٹور ہوا اس کے لیے چھانگا مانگا کاانتخاب کیاگیا۔ ہم لوگ دس بجے ڈیپارٹمنٹ سے روانہ ہوئے۔ موسم خاصا خوش گوار تھا۔ سارا سفر ہم گانے گاتے اورلطیفہ بازی کرتے چھانگامانگا پہنچے۔ ابھی بس سے اترے ہی تھے کہ زین بھائی المعروف نادمِ جمعیت نے اعلان فرمایا کہ ظہر کی نماز کاوقت ہوچکاہے پہلے نماز ادا کی جائے گی اس کے بعدکھانا ہوگا۔وضو کرتے نماز پڑھتے اورکھانا کھاتے کھاتے چاربج چکے تھے۔ ابھی ہم لوگ سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کیاجائے کہ زین بھائی نے نماز عصر کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ نماز عصرکے بعد مختصردرس قرآن بھی ہوگا ،چونکہ خواتین اس قید سے آزاد تھیں لہٰذا وہ ادھر ادھر گھومتی پھریں،ہم بلھے شاہ کے مرید ٹہرے لہٰذا رب کو راضی کرنے کی بجائے جگ کوراضی کرتے رہے۔ تمام اہل جمعیت جب خدا کے حضور سجدہ ریز تھے ہم نے سوچا موقع اچھا ہے خواتین کے ساتھ چل کر تھوڑی کشتی رانی کی جائے لیکن مجاہدین کبھی غافل نہیںرہتے۔عظیم بھائی کونماز سے استثناء حاصل تھی تاکہ وہ میرے ایسے شیاطین پرنظر رکھ سکیں۔
عظیم بھائی ہمارے ڈیپارٹمنٹ میںجمعیت کے سب سے اہم جاسوس تھے اور ہم ہمیشہ ان کی ہنسی اڑاتے کہ بھائی آپ کیسے جاسوس ہو جس کے بارے پورے شہرکومعلوم ہے۔ میں مذاق سے عظیم بھائی کو جان جاسوس بھی کہتا۔
جان ( Jhon)جاسوس کا لطیفہ یہ ہے کہ ایک سی آئی ایجنٹ کو فن لینڈ کے ایک دوردراز قصبے میں کے جی بی کے ایک جاسوس کی تلاش میںبھیجا جاتاہے جسے سی آئی اے بہت خطرناک تصور کرتی ہے۔کے جی بی کے جاسوس کانام تھا جان۔ سی آئے اے ایجنٹ اس قصبے میں پہنچتا ہے اورایک ریستوران کے مالک سے پوچھتا ہے:تم جان کوجانتے ہو؟
ریستوران کامالک جواب دیتاہے:’’ایک جان تو میں خود ہوں، دوسرا جان ہے جان لوہار اورتیسرا جان ہے کے جی بی کاسیکرٹ ایجنٹ جسے سب جان جاسوس کہتے ہیں۔تم کس جان سے ملنا چاہتے ہو‘‘۔
عظیم بھائی نہ صرف ڈیلی رپورٹ ایک نمبرہاسٹل پہنچاتے بلکہ ان کے ذمہ یہ بھی شامل تھا کہ کلاس کی لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رہنے کی تبلیغ کریں۔لڑکوں کے لیے تبلیغ کی بجائے جہادی طریقہ کار پرعمل کیاجاتاتھا اس لیے عظیم بھائی اپنی تبلیغ خواتین تک محدود رکھتے۔ کلاس کی تمام خواتین کوبہن کہتے اورتمام خواتین بھی انہیںعظیم بھائی کہہ کر پکارتیں گواس میں طنز کاعنصر زیادہ ہوتا۔خواتین کے ساتھ اس برادرانہ تعلق کی بنیاد پریہ نعرہ ہماری کلاس کامقبول ترین نعرہ تھا:
سب بہنوں کاایک بھائی
عظیم بھائی! عظیم بھائی!
ہم کشتی رانی سے فارغ ہوئے تودرسِ قرآن شروع تھا۔ درسِ قرآن کے بعد گروپ فوٹو کاشورمچا۔ سب لوگوں کو اکٹھے ہوتے آدھ پون گھنٹا لگا۔ اس ٹورپر سعدیہ کی ایک دوست عائشہ بھی ہمارے ساتھ تھی۔ ہم نے اسے بھی گروپ فوٹو میں شامل کرناچاہا لیکن عظیم بھائی نے اعتراض کیا۔
’’کیوں ایہہ وی تیری بھین اے‘‘ کامران نے پھبتی کسی جس پر زوردار قہقہہ پڑا۔ گروپ فوٹو ہوا تو سورج ڈھل چکاتھا۔ زین بھائی نے نمازِمغرب کااعلان کرتے ہوئے حکم صادر فرمایا کے نماز کے بعد واپسی ہوگی کیونکہ رات ہو رہی ہے اوربہنوں کوبروقت گھر پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے۔
یہ تھا ہمارا ایک روزہ تفریحی ٹور!!!!!!!!
یعنی ہم نے (میرے اور خواتین کے سوا)ظہر،عصر اورمغرب کی نماز چھانگامانگامیں ادا کرنے کے علاوہ درس قرآن سنا اورواپس چلے آئے۔
بندئہ خدا! کیایہ ’’تفریح‘‘کیمپس کی جامع مسجد میں ممکن نہیں تھی؟