(میری ڈائری کا ایک صفحہ)
صبح سات بجے اٹھا۔ آج میں نے اپنی مشہور ومعروف جینز کی بجائے ایک اور پتلون پہن رکھی تھی جس پر سب دوست چوٹ کرتے رہے۔ ڈیپارٹمنٹ کے گیٹ پر ہی زینب مل گئی جودیکھتے ہی کہنے لگی آج تم کم گندے لگ رہے ہو۔ میںجواب میں کچھ بھی نہ کہہ پایا۔ پہلا پیریڈ حسبِ معمول اشرف کی کینٹین پرچائے اورناشتے کی نذر ہوگیا۔
دوسرا پیریڈ بھی کینٹین پربیٹھے بیٹھے گزرگیا۔ سائیکالوجی والے دوست بھی آن کربیٹھے رہے۔ صفدر اورجواد سے سائیکالوجی کی لڑکیوں بارے معلومات اکٹھی کرتے رہے۔تیسرے پیریڈ میں لائبریری جاکر ڈیرا ڈال لیا۔ وہاں بڑی بی، صوفیہ، معصومہ، عینی، شعاع اورکامران سے گپ شپ ہوتی رہی ۔کامران کوئی لکھی ہوئی غزل پڑھ کر سنانا چاہتا تھا۔معصومہ نے غزل اس سے چھینتے ہوئے کہا:لائودو میں خود پڑھ لوں گی۔ تم سنائو گے تو تمہاری شکل بھی دیکھنی پڑے گی۔
بڑی بی سے ہم لوگ مغیث بھائی سے متعلق چھیڑچھاڑکرتے رہے۔( بڑی بی کی بچپن میں اپنے کزن مغیث سے منگنی ہوچکی تھی۔ میںاکثر سوال کے انداز میں بڑی بی سے پوچھتا: بڑی بی آپ کے مینگتر آپ کے تایازاد بھائی ہیں نا؟۔وہ جواباً تلملا کریاحسب معمول مسکرا کررہ جاتی)۔
چوتھاپیریڈ شروع ہونے والا تھا کہ کلاس روم میں پہنچا تو ملیحہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ میں نے کتاب کانام پوچھا تو ساتھ بیٹھی سعدیہ نے جواب دیا:
’’تمہی ملتے تواچھا تھا‘‘
’’اب پچھتانے سے فائدہ سعدیہ! میں کسی اورکاچکاہوں‘‘ میں نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔
چوتھے پیریڈ کے بعد مہدی حسن کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے تین بج گئے۔مہدی حسن آج پھر شفیق جالندھری کے درپہ تھے۔ بتانے لگے کہ ایک دفعہ سب لوگ سٹاف روم میں بیٹھے تھے۔ کسی موضوع پربحث چل رہی تھی کہ زمین کے گول ہونے کاذکرآگیا۔ بحث غالباً یہ تھی کہ نماز کسی بھی طرف منہ کرکے پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ زمین گول ہے۔ شفیق جالندھری یہ تسلیم کرنے پرتیار نہ تھے کہ زمین گول ہے: ’’ایہہ گول اے تے اسی تھلے کیوں نئیں ڈگ پیندے‘‘ (اگرزمین گول ہے تو ہم نیچے کیوں نہیں گرجاتے۔)
اسی طرح کاایک واقعہ انہوں نے سنایا کہ ایک دفعہ شفیق جالندھری تصویر اتارنا چاہتے تھے میرے پاس آئے کیمرہ لیا اورپوچھنے لگے کہ یہ کیمرہ رنگین ہے یا بلیک اینڈوائٹ میں رنگین فوٹو اتارنا چاہتا ہوں اس لیے مجھے رنگین کیمرہ ہے تو دیںورنہ رہنے دیں۔
پیپلز پارٹی اورسوشلزم پربھی دیر تک بحث ہوتی رہی۔ ڈیپارٹمنٹ کے بعد لکشمی چوک پہنچا۔ کشمیری دال چاول کی پلیٹ کھانے کے بعد جدوجہد سنٹر چلاگیا۔دیر تک کامریڈز کے ساتھ جدوجہدکی تاریخ اور پرسپیکٹو پر بحث ہوتی رہی۔ شام ڈھلے جناح گارڈن جاکربیٹھا رہا۔ فاروق طارق اورظفر اعوان بھی ساتھ تھے۔فاروق طارق نے انقلابِ روس کی تاریخ اورروس میں ’’کمیونزم کے خاتمے‘‘پرتفصیل سے بات کی۔ سٹالنزم اورٹراٹسکی کے بارے میں بتایا۔کیمپس پہنچاتو ایس ٹی سی سے کھانا کھایا۔کھانا کھانے کے بعد مسعود کشمیری کے کمرے میں پہنچا۔باباعظمت بھی وہاں موجود تھا۔تینوں دیرتک فروٹ شاپ پرجاکر بیٹھے رہے۔ مذہب، سیاست،ڈیپارٹمنٹ سب کا ذکر چلا۔ رات دوبجے کمرے میں واپس پہنچا تو نیند سے برا حال تھا۔بستر پر لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔