ہاسٹل میںرہنے والوں کے لیے یونیورسٹی لائف چوبیس گھنٹے پرمحیط ہوتی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کے بعد ایک نئی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ڈے اسکالرز اس سے محروم رہتے ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ میںہونے والی باتیں اورواقعات دہرائے جاتے ہیں، چھوٹی چھوٹی سازشیں بنی جاتی ہیں، عشق کے راز کھولے جاتے ہیں، اسکینڈل بنائے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے سپر سینئیرز کی اکثریت 18نمبر ہاسٹل میں رہتی تھی۔ ان لوگوں نے تفریح طبع کاایک اچھا سامان ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے اپنے ہاسٹل میس میں کررکھاتھا۔ میس میں مختلف ویٹرز تھے جن کے نام انہوں نے ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچرزکے نام پررکھ چھوڑے تھے۔ ایک ویٹرکانام چاچا شریف کے نام پر تھا۔یہ ویٹر کبھی کھانا وقت پر نہیں لاتا تھا۔
کئی چھوٹے چھوٹے واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک کاتعلق میرے ہاسٹل کے میس سے تھا۔کچھ لڑکے میس منشی کی شکایت لے کر ہاسٹل وارڈن کے پاس چلے گئے۔ شکایت یہ تھی کہ جب مرغ پکتا ہے تولیگ پیس نہیں ملتا۔ وارڈن صاحب نے کہا کہ بھئی سیدھی سی بات ہے ہاسٹل میں ڈھائی سورہائشی کھانا کھاتے ہیں اور ایک مرغ کی صرف دوٹانگیں ہوتی ہیں ،سب کو تو لیگ پیس نہیں مل سکتا۔ ایک حاضر دماغ نے برحبستہ کہا: ٹانگیں دوہوتی ہیں ایک بھی نہیں ملتی۔ گردن ایک ہوتی ہے مگر تین تین ملتی ہیں۔
اسی طرح ایک واقعہ 9نمبرہاسٹل میں ہوا جس کے راوی بابا عظمت رسول ہیں۔یہاں ہمارے ٹیچر مجاہد منصوری وارڈن تھے۔یہ واقعہ پوری طرح قلمبندنہیں کیاجاسکتا لہٰذا کچھ ردوبدل سے پیش کیاجارہا ہے۔
9نومبر والے جلوس لے کر منصوری صاحب کے گھر پہنچ گئے۔شکایت یہ تھی کہ میس منشی گدھے کاگوشت پکاتا ہے۔ منصوری صاحب نے لڑکوں کومطمئن کرنے کی کوشش کی مگر لڑکے بضد تھے کہ میس منشی کے خلاف شکایت درست ہے اور اسے تبدیل کیاجائے۔ منصوری صاحب نے تنگ آکر پوچھا کہ بھئی آپ کے پاس کیاثبوت ہے میس منشی کے خلاف؟ ایک سادہ لوح نے برحبستہ جواب دیا،’’سرجی جدوں دے ہاسٹل آئے آں عقل گھٹدی جاندی اے تے کن لمبے ہوندے جاندے نیں‘‘۔(حقیقت میں بروزن’ کن‘ کسی اور چیز کا ذکر تھا)
ان دلچسپیوں کے ساتھ ساتھ مستقل بدمزگی بھی ہاسٹل لائف کاحصہ تھی۔ ٹیلی فون پرکون کتنی دیربات کرتاہے،ساری رپورٹ ہاسٹل ناظم کے پاس جاتی تھی۔ ہرطرف جمعیت کے پوسٹر اور زبردستی کے چندے۔ ہرطرف جماعتی چہرے آپ کوگھورتے اورمانیٹر کرتے ہوئے سخت برے لگتے۔ آپ اونچی آواز میں میوزک نہیں سن سکتے۔ شارٹس پہن کر نہیں پھر سکتے۔کوئی بھی مسئلہ ہے آپ ہاسٹل ناظم کے ہاں حاضر ہوں۔ ہاسٹل ناظم جسے نہ کسی نے منتخب کیا نہ اس کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہاسٹل کے واڈن بلکہ مالک کاکردار اداکرتا۔ معلوم نہیں اب کیاصورت حال ہے۔
مجھے جوکمرہ ہاسٹل میں الاٹ ہوا وہ ہاسٹل ناظم کوپسندتھا جس کانام مجھے یاد نہیں البتہ اس کا تعلق میانوالی سے تھا۔ اس نے میرے کمرے پر قبضہ کرلیا۔ میں نے کمرہ ڈبل لاک کردیا۔ اس نے نہ صرف تالا توڑ ڈالابلکہ میری ہاسٹل کی الاٹمنٹ ہی منسوخ ہوگئی۔ میرے ہاسٹل وارڈن قاری مغیث تھے۔ میں نے ان کے ذریعے اپنی الاٹمنٹ بحال کروائی اوراپنا وہی کمرہ واپس لے لیا لیکن ابھی کمرے تک پہنچ بھی نہ پایا تھا کہ ہاسٹل ناظم نے اپنے حواریوں سمیت مجھے ہاسٹل میس میں آن گھیرا۔بات چیت کے ذریعے مجھے سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر میں نے کمرہ چھوڑنے سے انکارکردیا۔ ایک مرتبہ پھر الاٹمنٹ منسوخ ہوگئی اورباوجود کوشش کے میں وہ کمرہ نہ لے سکایہ جمعیت سے میرا پہلا ذاتی پھڈا تھا۔ اگلا واقعہ میری برتھ ڈے پارٹی پرہوا۔
نہ جانے کیسے کلاس میںیہ روایت سی بن گئی تھی کہ کسی کلاس فیلو کی سالگرہ ہوتی تو ہم اسے کلاس میں مناتے۔غالباً ہمارے سینئیرز بھی ایسا کرتے تھے۔ میری برتھ ڈے آئی توکلاس میں پارٹی کرنے کا فیصلہ ہوا مگر یہ کام بغیر جمعیت کی اجازت کے کیسے ممکن تھا؟ اورمیں جمعیت کے پاس جانے کو ہرگز تیارنہ تھا۔ میں نے سیاست سے کام لیتے ہوئے چیئرمین سے اجازت لی اورمزید عقل مندی یہ کی کہ چیئرمین کوپارٹی میں بلابھی لیا۔ ہماری پارٹی جاری تھی کہ زین صاحب غصے سے لال پیلے ہماری پارٹی میں پہنچے، مجھے باہر بلاکرپوچھنے لگے کہ یہ پارٹی آپ کس سے پوچھ کرکر رہے ہیں؟ ’’چیئر مین سے پوچھ کر،‘‘میں نے تحمل سے جواب دیا۔زین لاجواب سے ہوگیا۔’’اوہ آپ کامطلب ہے سینرز کوبھی بلانا چاہیے تھا‘‘ میں ہنسی ضبط کرتے ہوئے اورزین کوچڑانے کے لیے کہا ’’بات یہ ہے کہ میرے کلاس فیلوصرف کلاس پارٹی چاہتے تھے میں تو آپ لوگوں کوبھی بلانا چاہتا تھا‘‘
’’آپ ٹھیک نہیں کررہے‘‘ زین یہ کہتا ہواچلاگیا۔ اس نے میری پارٹی کے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔میرا موڈ خاصاخراب ہوالیکن مجھے اس کی توقع تھی البتہ کلاس فیلوز نے جوکارڈز دیئے وہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ کے بعد ایک سالگرہ کیک میں نے جدوجہد سنٹر جاکر کاٹا اوراسی شام ایک کیک ہاسٹل میںکاٹا۔ ہاسٹل والی ’تقریب‘ میں عدنان ملک،معین اظہر، یاسر ملک، تنویر نقوی،کامران اورمیرے پرانے کلاس فیلوز توقیر اورعاصم شریک ہوئے۔یہ ایک خوب صورت دن تھا جس روز میں دن بھر ہنستا اورخوش ہوتا رہا۔