’’واہ وا! کیا ہیرے اور جواہرات لائے ہو۔ اب تو ہم لکھ پتی اور کروڑ پتی ہو جائیں گے۔‘‘ خدیجہ نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا۔
ادھر رمضان خاں کی یہ حالت تھی کہ بھونچکا سے ہو کر رہ گیا تھا۔
’’چُپ کیوں ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟‘‘ خدیجہ نے چیخ کر پوچھا۔
’’بڑا دھوکہ ہوا۔‘‘
رمضان خاں کے منھ سے ایک باریک سے آواز نکلی۔
’’بڑی شان سے گئے تھے۔ وہ لڑکا فخرو ایک پاجی دھوکے باز ہے۔‘‘
’’نہیں، اس نے دھوکہ نہیں دیا۔‘‘
’’تو پھر کس نے دیا ہے؟‘‘
’’اس نے، گدھے نے۔‘‘
یہ لفظ سُنتے ہی خدیجہ برس پڑی، ’’نام نہ لو اس بلا کا۔ میں کہتی ہوں وہ بہت بڑا شیطان ہے۔ گدھا نہیں ہے۔ سمجھتے ہی نہیں ہو۔ اب مزہ آ گیا نا۔ کیا کرو گے اس خزانے کا۔ کسی سے کیا کہو گے۔ خزانہ لینے گیا اور پتھر لے آیا۔ میں جانتی تھی یہی کچھ ہو گا۔ مانتے ہی نہیں تھے۔ خزانہ لاؤں گا۔ کیا خزانہ لے آئے ہو۔‘‘
رمضان خاں سخت بے زار ہو گیا تھا، ’’اب چُپ بھی ہوتی ہو یا نہیں؟‘‘
’’میرے چپ ہونے سے کیا ہو گا؟ سنبھالو اپنا خزانہ۔ چھُپا کر رکھو کہیں۔ کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد رمضان خاں کی یہ حالت تھی کہ کبھی افسوس سے اپنے ہاتھ ملتا تھا اور کبھی پتھر کے ٹکڑے اٹھا کر انہیں آنکھوں کے قریب لا کر غور سے دیکھنے لگتا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔ خود سے کہتا تھا، ’’گدھے نے میرے سامنے اپنے پاؤں سے مٹی ہٹائی تھی اور مجھے چمک دکھائی دی تھی۔ ہیرے لگتے تھے۔ پھر، پھر!‘‘ اس نے لالٹین بجھا دی اور اندھیرے میں وہیں لیٹ گیا۔
صبح کے دھُندلکے فضا میں پھیل رہے تھے۔ ماسی رکھی کے مرغ نے بانگ دینی شروع کر دی تھی۔ وہ ساری رات گھنٹہ بھر سو سکا تھا اور یہ نیند بھی بُرے بُرے خواب لے کر آئی تھی۔ سارا واقعہ اس کے ذہن میں بار بار اُبھر آتا تھا اور وہ محسوس کرنے لگتا تھا جیسے فخرو کے ساتھ چلا جا رہا ہے۔ ویران مقام پر گدھا مٹی پاؤں سے ہٹانے لگتا ہے اور وہ سخت چیزیں اپنے تھیلے میں ڈال رہا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پتھر کے ٹکڑوں کے پاس بیٹھا رہا۔
اس کی بیوی صبح ہوتے ہی سب سے پہلے اس کے لیے لسی کا بڑا سا گلاس اور حقہ تازہ کر کے لے آتی تھی، مگر اس صبح وہ نہ آئی۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ اُٹھا اور دروازے پر آیا، ’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں فخرو۔‘‘
اس نے دروازہ کھول دیا۔ فخرو نے مسرت انگیز لہجے میں کہا، ’’مبارک ہو خاں صاحب، نہ نہ، چچا جان۔‘‘
’’مبارک۔ ہاں ٹھیک ہے۔ اندر آؤ۔‘‘ فخرو اس کے بدلے ہوئے لہجے پر پریشان ہو گیا۔
’’بھتیجے!‘‘
’’جی چچا جان! معاف کرنا رات جلدی چلا گیا۔ وہ بادشاہ سلامت بھاگنے لگے تھے۔ کیا کرتا۔ مجھے بھی پیچھے پیچھے بھاگنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں اللہ کا بڑا شکر ہے اور تمہارا بھی بڑا شکریہ۔ بھتیجے! یہ ہیرے تمہارے بادشاہ سلامت نے دیئے ہیں۔ جتنے چاہو لے لو۔ بلکہ سارے کے سارے لے لو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رمضان خاں حیران و پریشان فخرو کو کمرے کے اندر لے گیا۔
فخرو نے داخل ہوتے ہی پتھر دیکھے اور اس کی حیرت اور پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا۔
’’وہ دیکھو!‘‘ رمضان خاں نے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ ہیں وہ ہیرے اور جواہرات جو تمہارے بادشاہ سلامت نے دیے ہیں۔‘‘ فخرو ان ٹکڑوں کو دیکھتا رہ گیا۔
’’تمہیں ملیں ہیرے اور مجھے پتھر کے ٹکڑے۔ دھوکا دیا ہے مجھے!‘‘ رمضان خاں نے گرج کر کہا۔
فخرو ڈر گیا۔ اور تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بولا، ’’چچا جان! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ میں نے آپ کو بالکل بالکل دھوکا نہیں دیا۔‘‘
’’تو پھر دھوکا کس نے دیا ہے؟‘‘ فخرو خاموش رہا۔
’’میں پوچھتا ہوں پھر دھوکا کس نے دیا ہے؟‘‘ رمضان خاں دوبارہ گرجا۔
خدیجہ بھی آ گئی تھی۔ ’’کیا کہہ رہے ہو؟ دھوکا کس نے دیا ہے۔ اس نے دیا ہے اور کس نے دیا ہے۔ اس نے۔‘‘ خدیجہ نے زور سے فخرو کی پیٹھ پر دو ہتڑ مارا۔
’’ہائے بے بے!‘‘ فخرو درد سے تڑپ اُٹھا۔
’’اب یہاں سے جائے تو کہیں۔ میں اس کی جان لے کر رہوں گی۔‘‘ خدیجہ پھر دو ہتڑ مارنے کے لیے آگے بڑھی۔ فخرو جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ ’’اتنا بڑا دھوکا ہمارے ساتھ۔‘‘ خدیجہ نے غصے سے کہا۔
فخرو رونے لگا تھا۔ ’’چچی جی! اللہ کی قسم! میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔‘‘
’’تو یہ کیا پڑا ہے تمہارے آگے؟ اندھے ہو گئے ہو۔ نظر نہیں آتا کچھ؟ یہ ہیرے جواہرات ہیں؟ بولو بولتے کیوں نہیں؟‘‘ خدیجہ نے چند ٹکڑے اٹھا کر فخرو پر دے مارے۔
’’خدیجہ! تم چُپ رہو۔ مجھے پوچھنے دو۔‘‘
’’میں کیوں چُپ رہوں گی۔ سارے شہر کو بتاؤں گی کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔‘‘
’’میں کہتا ہوں مجھے بات کرنے دو۔ تم چلی جاؤ۔‘‘
’’کیوں جاؤں۔ اس کی بوٹیاں نہ نوچوں گی۔‘‘
خدیجہ کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئی تھیں۔ رمضان خاں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کمرے سے باہر لے جانے لگا۔
رمضان خاں واپس آیا تو فخرو زار و قطار رہ رہا تھا۔ ’’فخرو!‘‘ رمضان خاں کا لہجہ ذرا نرم تھا، ’’تم کہتے ہو تم نے دھوکہ نہیں دیا۔‘‘
’’اللہ قسم میں سچ کہتا ہوں۔ وہ آپ کو لے گیا تھا۔ بادشاہ۔۔ ۔۔‘‘
’’تاکہ مجھے پتھر ملیں اور تم کو لے گیا تھا تو ہیرے دینے کے لیے۔ ہیں؟‘‘
فخرو نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو پونچھے۔
’’جواب دو مجھے، ایسا کیوں ہوا؟‘‘
فخرو دو تین لمحے سسکیاں بھرتا رہا۔ پھر بولا، ’’چچا جان! پتا نہیں کیا بات ہے۔؟‘‘
’’بات تو کوئی ہو گی۔ سچ سچ کہو، بولو، صاف صاف کہو۔‘‘
’’میں کیا کہوں۔ میں اس سے بھائیوں سے بڑھ کر پیار۔۔ ۔۔‘‘
’’وہ گدھا تمہارا بھائی ہے؟‘‘
’’مجھے اس سے بڑا ہی پیار ہے۔ وہ بھی مجھ سے بڑا پیار کرتا ہے۔‘‘ فخرو نے سر جھُکا لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ رمضان خاں کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے۔
خدیجہ دروازے پر آ گئی۔ غصے سے اس کی مُٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ رمضان خاں نے اسے دیکھا تو غصے سے بولا، ’’میں نے کہا ہے اُدھر رہو۔ پھر آ گئی ہو۔ جاؤ۔ چلی جاؤ، جاتی ہو کہ نہیں۔‘‘ خدیجہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔
رمضان خاں کمرے میں ٹہلنے لگا تھا اور فخرو دیوار سے لگ کر کھڑا تھا۔
’’فخرو!‘‘ رمضان خاں کے لہجے میں بڑی نرمی تھی۔
’’جی چچا جان!‘‘
’’ایک بات غور سے سن لو۔ تم نے بار بار اللہ کی قسم کھائی ہے۔ کھائی ہے کہ نہیں؟‘‘
’’کھائی ہے۔‘‘
’’تو قسم کھا کر یہ بھی کہو کہ یہ گدھا تم لوگوں کا نہیں میرا ہے۔ میں نے دو سو کی رقم دے کر اسے خریدا تھا۔ کھاؤ قسم!‘‘ فخرو ہاں میں سر ہلانے لگا۔
’’کھاؤ قسم!‘‘
’’اللہ قسم۔‘‘
’’کیا اللہ قسم؟‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘
’’قسم کھا کر کہو۔ یہ گدھا آپ خرید چکے ہیں۔‘‘
فخرو نے یہ الفاظ کہے، ’’بادشاہ سلامت آپ خرید چکے ہیں۔‘‘
’’بادشاہ سلامت تمہارے لیے ہو گا۔ میرے لیے گدھا ہے، گدھا کہو۔‘‘
’’جی، گدھا آپ خرید چکے ہیں۔‘‘
’’اور جب خرید چکا ہوں تو یہ میرا ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’تو میری چیز مجھے ملنی چاہیے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ فخرو رمضان کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گیا۔
’’تو میں تمہیں چھوڑے دیتا ہوں۔ گھر جاؤ اور اپنی ماں اور چاچے سے کہہ دو کہ میری امانت میرے حوالے کر دیں، ورنہ حشر نشر کر دوں گا۔‘‘
’’اچھا جی۔‘‘
’’کہہ دو گے ناں۔‘‘
’’جی، جی۔‘‘
’’تو جاؤ۔‘‘
فخرو کمرے سے نکلا۔ اسے خدشہ تھا کہ خدیجہ اسے کہیں دیکھ نہ لے۔ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ تیزی سے گھر کے بڑے دروازے سے نکل کر جلدی جلدی قدم اٹھانے لگا۔
خدیجہ آ گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھا اور بولی، ’’وہ کہاں ہے؟‘‘
رمضان خاں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ چلا گیا ہے۔
’’کیوں؟‘‘
’’خدیجہ!‘‘ رمضان خاں نے اسے کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا، ’’سنو! میں نے اسے بھیج دیا ہے۔‘‘
’’کیوں؟ ویسے ہی۔ اس دھوکے باز کو!‘‘
’’خدیجہ! اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں نے راز کی بات معلوم کر لی ہے۔‘‘
’’راز کی بات‘‘
’’ہاں مجھے اپنی ناکامی کا علم ہو گیا ہے۔ یہ ایک راز ہے۔ ابھی نہیں۔ تم کو بتاؤں گا مگر تم اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ بس یہ سمجھ لو۔ ہیرے ملیں، خزانہ ملے گا۔‘‘
خدیجہ اپنے شوہر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
٭٭٭