’’آج کیا پکائیں فخرو پُتر؟‘‘ دیگچی مانجھتے ہوئے فخرو کی ماں نے فخرو سے پوچھا۔
’’اماں جو پکانا چاہیں پکا لیں۔‘‘ فخرو نے جواب دیا۔
’’پُتر! ہر روز پلاؤ، زردہ، قورمہ، چکن، بھُنا ہوا گوشت، تیتر اور بٹیرے کھا کھا کر میں تو تنگ آ گئی ہوں۔‘‘ ماں نے کہا۔
’’تو اماں کوئی نئی چیز پکا لو آج۔‘‘
ماں نے ذرا سوچ کر کہا، ’’پُتر میرا تو جی چاہتا ہے کہ آج وہی کچھ کھائیں جو پہلے کھایا کرتے تھے۔ دال، چاول، کیوں؟‘‘
’’بالکل ٹھیک اماں۔‘‘ فخرو نے ناشتے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’دکان سے لے آؤ۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ایک سیر چاول۔‘‘
فخرو نلکے کے نیچے ہاتھ دھونے لگا۔
’’ایک سیر چاول! نہ اماں۔‘‘
’’تو کیا ایک من پکاؤں۔ آدھا سیر چاول کافی نہیں ہم تینوں کے لیے؟‘‘
’’اماں! مجھے اپنی دکان سے بھی ایک سیر چاول لاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ منڈی جا کر ایک بوری خرید کر لاؤں گا۔ اس سے کم نہیں۔‘‘
’’اکھٹی ایک بوری! پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘
’’ہاں اماں! اس سے کم کیا لاؤں۔ اب ہم امیر ہو گئے ہیں۔ امیر آدمی ڈھیر ساری چیزیں خریدا کرتے ہیں۔‘‘
ماں ہنس پڑی، ’’اچھا چنے کی دال بھی لے آنا۔ آج ہی تو پکانی ہے۔ آدھا سیر نہیں سیر لے آنا۔ پھر کبھی جی چاہا تو پکا لیں گے۔‘‘
فخرو نے دالان والے کمرے کے دروازے میں سے اندر جھانکا۔ ’’بادشاہ سلامت آئیے ذرا منڈی چلیں۔‘‘ فخرو اپنے گدھے کی رسی تھام کر اسے باہر لانے لگا۔
’’اماں شرم آتی ہے۔‘‘
’’فخرو! آج تمہیں بار بار شرم کیوں آ رہی ہے؟ ایک سیر چاول لاتے ہوئے شرم آتی ہے، اب گدھے کو باہر لے جاتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔‘‘
’’باہر جاتے ہوئے شرم نہیں اماں۔۔ ۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’اماں! یہ ہیں بادشاہ سلامت، بوجھ اٹھائیں گے؟‘‘
ماں بے اختیار ہنس پڑی، ’’باؤلے تو نہیں ہو گئے فخرو، تم اسے بادشاہ سلامت سمجھتے ہو تو سمجھا کرو، ہے تو گدھا نا!‘‘
فخرو نے جلدی سے اپنے دائیں ہاتھ کی اُنگلی ہونٹوں پر رکھ کر ماں کو چپ ہو جانے کا اشارہ کیا، ’’اماں! یہ تو۔۔ ۔۔‘‘
فخرو کو ایسے الفاظ نہیں ملے جن سے وہ گدھے کے متعلق کوئی تعریفی کلمہ کہتا۔
’’خیر اب جاؤ باتیں نہ بناؤ۔‘‘
فخرو گدھے کی رسی پکڑ کر چلنے لگا۔ وہ منڈی میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگ اناج کی بوریاں ریڑھوں پر رکھ رہے ہیں۔ اس نے ایک ریڑھے والے سے چاول کی بوری لے جانے کی بات کی۔ ریڑھے والے نے پیسے بتا دیئے۔ اس ریڑھے والے نے ایک قریبی بیوپاری سے چاول کی بوری اٹھا کر اپنے ریڑھے پر رکھ دی اور دال کا لفافہ بھی رکھ دیا۔
’’پیسے؟‘‘ فخرو نے بیوپاری سے پوچھا۔
’’کوئی پیسہ ویسہ نہیں جناب!‘‘
فخرو یہ فقرہ سُن کر حیران ہو گیا، ’’جی میں نے چاول کی بوری اور دال کی جو قیمت ہے وہ پوچھی ہے۔‘‘
’’اور میں نے بھی اسی کا جواب دیا ہے۔‘‘ بیوپاری مسکرا رہا تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ فخرو نے گھبرا کر پوچھا۔
’’مطلب وطلب کچھ نہیں۔ پیسہ دھیلا کچھ نہیں۔‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ فخرو جیب سے نوٹ نکال کر انہیں ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا۔
’’آپ لے جائیں بسم اللہ۔‘‘
’’مگر میں کیسے لے جاؤں قیمت ادا کیے بغیر!‘‘
’’میں نے اس کی قیمت لے لی ہے۔‘‘ بیوپاری برابر مسکرائے جا رہا تھا۔
’’نہیں لی۔ میں نے ادا نہیں کی۔‘‘ فخرو نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے ادا نہیں کی۔ کسی اور نے ادا کر دی ہے برخوردار!‘‘
’’کس نے؟‘‘
’’ملنا چاہتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’تو آؤ۔‘‘
بیوپاری اسے ایک دُکان کے اندر لے گیا۔ آخری دیوار میں ایک دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔ بیوپاری اس میں سے گزرنے لگا۔
’’آ جاؤ بھئی!‘‘ اس نے دروازے میں سے نکلتے ہوئے کہا۔
فخرو اپنے گدھے کی رسی پکڑے دروازے میں سے گزرنے لگا۔
دروازے سے کچھ دور ایک چارپائی کے اوپر ایک شخص بیٹھا حقا پی رہا تھا۔ فخرو کی طرف اس کی پیٹھ تھی، اس لیے فخرو اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ بیوپاری چُپکے سے کھسک گیا۔ فخرو آگے بڑھا۔ چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص نے منھ اس کی طرف پھیرا۔ یہ رمضان تھا جو اس کو دیکھ کر بولو، ’’آؤ میرے پیارے بھتیجے!‘‘
’’خان صاحب! یہ کیا؟‘‘ فخرو اور کچھ نہ کہہ سکا۔
’’ارے بیٹھ تو جاؤ۔‘‘ رمضان خاں نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔
’’چاول اور دال کے پیسے آپ نے کیوں دیئے؟‘‘
’’تو کیا ہوا۔ ہمارا حساب چلتا رہتا ہے۔‘‘
رمضان خاں گدھے کو دیکھنے لگا۔ ’’بادشاہ سلامت بھی خیریت سے ہیں نا!‘‘
فخرو نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ ’’آپ نے پیسے کیوں دیئے‘‘
’’پاگلوں کی سی بات کیوں کرتے ہو؟ میاں! تم ٹھہرے ہمارے بھتیجے اور میں تمہارا چچا! میں نے پیسے دے دیئے تو کیا ہوا۔‘‘
’’شکریہ بہت بہت مگر۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’ارے پیارے بھتیجے! اس میں شکریے کی کیا بات ہے۔ اللہ جانتا ہے مجھے تم سے کتنی محبت ہے، پیار ہے۔ اب میں تم سے کبھی دو سو روپے نہیں مانگوں گا۔ گدھا نہیں مانگوں گا۔ مجھے بتاؤ میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
فخرو شرمندہ ہو گیا۔ ’’چچا جان! ایسا مت کہیں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’تم پیارے بھتیجے ہو۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔ کچھ نہیں مانگوں گا۔‘‘
ایک شخص شربت کے دو گلاس لے آیا۔ ’’پیو بیٹا!‘‘ رمضان خاں نے ایک گلاس فخرو کی طرف بڑھایا۔
’’مجھے بڑا شرمندہ کر رہے ہیں۔‘‘ فخرو نے شربت کا گلاس خالی کر دیا۔ رمضان خاں نے دوسرا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
’’توبہ توبہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’پی لو بیٹا!‘‘
’’نہیں جی یہ آپ پیئیں۔‘‘ رمضان نے گلاس ہاتھ میں لے لیا اور گھونٹ گھونٹ پی لیا۔
’’تو خاں صاحب!‘‘
’’پھر خاں صاحب۔ چچا جان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘ رمضان خاں اسے ڈانٹنے لگا۔
’’اوہ معاف کر دیجیے۔ تو چچا جان! بتائیے نا میں کیا کروں۔‘‘
رمضان خاں کسی سوچ میں پڑ گیا۔ کئی لمحے بیت گئے۔ گلاس آدھا ہو چکا تھا۔ رمضان خاں نے اسے نیچے رکھ دیا۔ ’’تم میرے بھتیجے! کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ بڑی معمولی بات ہے۔‘‘
’’بتائیے نا۔‘‘
’’بتانے کو تو بتا دیتا ہوں، پر دیکھنا مجھے شرمندہ نہ کر دینا۔‘‘ رمضان خاں نے حُقے کے دو لمبے لمبے کش لگائے۔ فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ’’چاہتا تھا ذرا قسمت آزمائی کر لوں، بس۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ قسمت مجھ پر بھی مہربان ہو جائے اور مجھے بھی کچھ مل جائے۔ عزیز بھتیجے! تمہارا بادشاہ سلامت مجھے بھی وہاں لے جائے جہاں کوئی خزانہ دبا ہوا ہو۔‘‘
فخرو سناٹے میں آ گیا۔ رمضان خاں نے اس کی کیفیت بھانپ لی۔ ’’پیارے بھتیجے! میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم یوں کرو اپنے گھر چلے جاؤ۔ چاول کی بوری اور دال تھوڑی دیر بعد تمہارے گھر پہنچ جائے گی۔‘‘
فخرو نے محسوس کیا کہ اس کی آواز بھرا گئی ہے۔ اس کا دل نرم پڑ گیا۔ ’’چچا جان!‘‘
’’کہو بیٹے‘‘
’’ایسا ہو گا نہیں، یہ بادشاہ سلامت۔۔ ۔۔‘‘
’’میرا کام نہیں کریں گے۔ یہ کہنا چاہتے ہو؟‘‘ فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
’’یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔ قسمت سے تو لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ اچھا بھتیجے! میری ضرورت ہو تو مجھے یاد کر لینا۔‘‘
رمضان خاں خاموشی سے حُقے کے کش لگانے لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ ’’فخرو! جاؤ بیٹا تمہاری ماں تمہاری راہ دیکھ رہی ہو گی۔‘‘ رمضان خاں نے دائیں ہاتھ سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
فخرو نے رمضان خاں کے مایوس چہرے کو دیکھا۔ اس کو رحم آ گیا، ’’چچا جان!‘‘
’’کہو بھتیجے۔‘‘
’’یہ بھلا ہو گا کیسے؟‘‘
رمضان خاں نے حُقے کی نے منھ سے نکال کر فخرو کو غور سے دیکھا اور بولا، ’’بڑی آسان ترکیب ہے۔ تم اس کے اوپر لیٹ کر گئے تھے، ہم اسے آزاد چھوڑ دیں گے۔ جدھر جانا چاہے چلا جائے۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ پھر جو کچھ ہونا ہو گا ہو جائے گا۔‘‘ فخرو نے حیرت اور دل چسپی سے اس کی ترکیب سُنی۔
’’کیوں میرے پیارے بھتیجے! کیسی ترکیب ہے؟‘‘ فخرو خاموش رہا۔
’’میں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ تم مانو گے نہیں۔‘‘
’’میں مان گیا ہوں۔‘‘
’’واہ وا، میرے عزیز ترین بھتیجے!‘‘ رمضان خاں نے فخرو کو خود سے لپٹا لیا۔
’’پھر کب؟‘‘ رمضان خاں نے چند لمحوں کے بعد پوچھا۔
’’جب آپ مناسب سمجھیں۔‘‘
’’آج کیسا رہے گا؟‘‘ رمضان خاں کی آواز سے اس کے دل کی بے تابی ظاہر ہو رہی تھی۔
’’ابھی تو دن کا اُجالا ہے۔‘‘
’’تو شام کو!‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں آ جاؤں گا۔ آپ کے گھر شام کو۔‘‘
فخرو کے جانے کے بعد رمضان خاں وہیں بیٹھا رہا۔ بار بار خوشی سے اس کا چہرہ دمک اُٹھتا تھا۔ ریڑھا چاول اور دال چھوڑ کر واپس آ گیا تو رمضان خاں نے اپنے گھر کی راہ لی۔
’’خدیجہ!‘‘ اس نے اپنی بیوی کو اپنے کمرے میں بُلا کر کہا، ’’آج بہت کچھ ہونے والا ہے۔‘‘
’’کیا ہونے والا ہے؟‘‘ بیوی کی آواز خاصی بلند بھی۔
’’آہستہ بولو۔ دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں۔ سنو! خزانہ۔۔ ۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’خزانہ ملنے والا ہے۔‘‘
خدیجہ ہنس پڑی، ’’اللہ تیری شان!‘‘
’’شام کو جائیں گے۔ کسی سے کچھ نہیں کہنا!‘‘
’’تم نے کچھ بتایا ہی نہیں تو بتاؤں گی کسی کو کیا۔‘‘
’’بس دیکھنا ہوتا کیا ہے۔ تمہارے گھر میں ہیروں کا انبار لگ جائے گا۔ چُپ ہو جاؤ۔‘‘ خدیجہ نے بار بار پوچھا کہ ہو گا کیا، مگر رمضان نے ہر بار اسے خاموش رہنے کی تلقین کر دی۔
شام ہونے ہی والی تھی کہ رمضان خاں ایک بڑا سا تھیلا لے کر اس جگہ جا کھڑا ہوا جہاں سے اس کے گھر کو راستہ جاتا تھا۔ وہ کھڑا رہا۔ شام ذرا ڈھلی تو فخرو گدھے کے ساتھ آ گیا۔ دونوں میں سے کسی نے بھی کچھ نہ کہا اور چل پڑے۔ گدھا آگے آگے اور وہ دونوں پیچھے پیچھے۔ گدھا ایک ویرانے میں پہنچ گیا۔ ایک طرف پہاڑ کھڑے تھے۔ ادھر اُدھر اونچے اونچے پیڑ پھیلے ہوئے تھے۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ گدھا ایک جگہ رک گیا۔
’’چچا‘‘ فخرو نے سرگوشی کی۔
’’کیا؟‘‘
’’جاؤ، وہاں وہ ٹھہر گیا ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
رمضان خاں گدھے کے ایک طرف جھُک کر کھڑا ہو گیا۔ گدھے نے ایک جگہ اپنے پیر سے مٹی ہٹائی اور پیچھے ہٹ گیا۔ رمضان خاں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گیا۔ مٹی کے اندر ہاتھ ڈالا تو اس کی انگلیاں سخت چیزوں سے مَس کرنے لگیں۔ اس نے یہ سخت چیزیں تھیلے میں بھرنی شروع کر دیں، یہاں تک کہ اس کی اُنگلیاں پھر مٹی کو چھونے لگیں۔ وہ بھرے ہوئے تھیلے کو اٹھائے واپس جانے لگا۔ مگر گدھا وہاں نہیں تھا، فخرو بھی نہیں تھا۔
وہ تھیلے کا بوجھ اٹھائے ویران راستے پر چلنے لگا۔ ذرا پتا کھڑکتا یا زور سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آتی تو وہ ڈر کر تھیلا چھاتی سے لگا لیتا۔ کافی رات گزر چکی تھی۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا۔ اس نے دروازے پر آہستہ سے دستک دی۔ خدیجہ جاگ کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ لالٹین پکڑے آ گئی اور دروازہ کھول دیا۔
’’خدیجہ! دروازہ بند کر دو۔‘‘ خدیجہ نے تھیلا دیکھ لیا تھا۔ اس نے اسے پکڑنے کے ہاتھ بڑھایا۔
’’صبر کرو۔‘‘
دونوں ایک کمرے میں آ گئے۔ خدیجہ نے لالٹین ایک طرف رکھ لی۔ رمضان خاں کا چہرہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاہم اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ یہی حال خدیجہ کا تھا۔
’’سب دروازے بند ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
رمضان خاں نے چارپائی کے اوپر تھیلا رکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا اور مُٹھی بھر کر باہر نکالی۔ مُٹھی کو سفید چادر پر خالی کیا تو ادھر اُدھر پتھر کے ٹکڑے بکھر گئے۔ دونوں حیرت زدہ ہو گئے۔
٭٭٭