فخرو نے اپنے گھر کی راہ لی تو رمضان خاں بہت خوش خوش گدھے کی رسی پکڑے اپنے مکان کی طرف جانے لگا۔ وہ چلتے ہوئے بڑے سُہانے خواب دیکھ رہا تھا۔ خزانہ پانے کی امید میں اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا تھا۔
اپنے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ گھر کے بیرونی دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا ہے۔
’’یہ کم بخت کہاں چلی گئی؟‘‘ اس کی بیوی کبھی کبھی دروازے پر تالا لگا کر اپنے میکے چلی جاتی تھی اور چابی ساتھ والے گھر میں دے جاتی تھی۔ رمضان خاں سوچ ہی رہا تھا کہ ساتھ والے گھر کا ایک بچہ چابی لے کر آ گیا۔
’’یہ چابی دے گئی ہیں چاچی!‘‘ بچے نے کہا۔
’’اچھا! کب آئیں گی۔ کچھ کہہ کر گئی ہیں؟‘‘ رمضان خاں نے بچے سے پوچھا۔
’’کہہ رہی تھیں جلد ہی آ جاؤں گی۔‘‘
رمضان خاں نے گھر کا دروازہ کھولا اور گدھے کو سب سے آخری کمرے میں بند کر دیا اور باورچی خانے میں جا کر حلوے کی پلیٹ لے آیا۔ یہ حلوا رات کو اس بیوی نے بنایا تھا اور اس کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ رمضان خاں چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہو گدھے کو لے کر خزانے کی تلاش میں روانہ ہو جائے، مگر فخرو نے اسے بتایا تھا کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکلا تھا تو اسے بھی صبح سویرے ہی نکلنا چاہیے۔ اس نے یہ ارادہ کر لیا، مگر اس کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی اور دل میں ڈرتا بھی تھا کہ جب وہ گدھے کے ساتھ باہر جائے گا تو محلے والے اور دوسرے لوگ ضرور اُسے دیکھیں گے اور پوچھیں گے بھئی کہاں جا رہے ہو۔ وہ کسی کو کیا بتائے گا؟ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ شام کے اندھیرے میں نکلے تاکہ کوئی شخص اس سے کوئی سوال نہ کرے۔
وقت گزارنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھر کو تالا لگا کر چابی ہمسائے کے ہاں دے کر منڈی کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ وقت گزر جائے اور وہ شام کے اندھیرے میں روانہ ہو سکے۔
ایک گھنٹے کے بعد اس کی بیوی آ گئی۔ بچے نے اسے بتایا کہ چاچا آئے تھے اور گدھے کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
’’یہ مصیبت پھر آ گئی!‘‘ رمضان کی بیوی خدیجہ نے چابی لی، تالا کھولا اور اندر چلی گئی۔ آخری کمرے کی باہر کی کُنڈی لگی ہوئی تھی۔ اس نے کنڈی کھولی، ذرا آگے بڑھی تھی کہ گدھے نے دولتی جھاڑی جو اُس کے پیٹ پر لگی۔ خدیجہ ہائے کر کے بیٹھ گئی۔ غصے سے اس کا بُرا حال تھا۔ ذرا سنبھلی تو گدھے کی پشت پر زور سے دو ہتڑ مارا۔ گدھے نے پھر دولتی ماری۔ دوسری مرتبہ دولتی کھا کر اس کا پارا کافی چڑھ گیا۔
’’ٹھہر تو ذرا! کرتی ہوں تیرا قیمہ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکلی اور ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا لائی۔ خود ذرا دور رہ کر اس نے گدھے پر ڈنڈا برسانا شروع کر دیا۔
’’تیرا قیمہ نہ بنا دوں تو میرا نام خدیجہ نہیں۔‘‘ وہ اسے ڈنڈے مارتی گئی، مارتی گئی، مگر گدھا پُر سکون کھڑا رہا۔
’’کوئی بلا ہے یہ!‘‘ وہ دل میں ڈر گئی اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ باہر نکل کر بھاگتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔ چند منٹ بعد اپنے لیے چائے بنانے لگی۔ کیتلی کے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس نے چائے کی پتی نکالنے کے لیے الماری کھول کر ڈبا نکالا تو یکایک اس کی نگاہ دروازے پر پڑ گئی۔ گدھا باہر کھڑا تھا اور اس کا سر باورچی خانے کے اندر تھا۔ وہ ڈر کر بولی، ’’چل دفع دور ہو۔‘‘ اس نے چائے کا ڈبہ گدھے کے سر پر دے مارا۔ سر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ تیزی سے نکلی اور ڈرائنگ روم میں چلی گئی اور ابھی صوفے پر بیٹھنا ہی چاہ رہی تھی کہ گدھے نے اپنی تھوتھنی دروازے کے اندر ڈال کر اسے خوف زدہ کر دیا۔
’’یہاں بھی آ گئی بلا!‘‘
وہ اُٹھی اور دوسرا دروازہ کھول کر نکل بھاگی۔ بے خیالی میں وہ آخری کمرے تک چلی گئی۔ باہر ہی سے اس نے دیکھا کہ گدھا اندر تھا۔ ’’ہیں یہ تو اندر ہے! کیسے میرے پیچھے آ گیا۔‘‘ ڈر کے مارے اس کا بُرا حال تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور دوبارہ ڈرائنگ روم میں آ گئی۔
سامنے ایک دروازے کا پردہ ہل رہا تھا۔ اس نے جو اُدھر دیکھا تو یہ دیکھ کر سخت حیران اور خوف زدہ ہو گئی کہ پردے کے پیچھے گدھے کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔ وہاں سے نکل کر وہ سونے کے کمرے میں چلی گئی اور جلدی سے لحاف اپنے اوپر ڈال لیا۔ دو تین منٹ کے بعد اس نے لحاف سے منھ ذرا باہر نکال کر دیکھا۔ گدھا اندر آ رہا تھا۔ اس نے تکیہ گدھے کی طر پھینکا۔ تکیہ اس کے جسم سے لگ کر فرش پر گر پڑا۔ اس نے دوبارہ چہرہ لحاف کے اندر کر لیا۔ وہ لحاف کے اندر چھُپی رہی کہ ہمسائے کا لڑکا آ کر بولا، ’’چاچی! باہر وہ آئے ہیں۔‘‘
خدیجہ نے یہ آواز سنی تو چہرے سے لحاف ہٹا کر کہا ’’اصغر!‘‘
’’جی چاچی!‘‘
’’وہ بلا!‘‘ اصغر اس کی بات سمجھ نہ سکا۔ ’’وہ گدھا دیکھا ہے اصغر!‘‘
’’نہیں‘‘
’’جاؤ اپنے ابا کو بلا لاؤ، جلدی کرو۔‘‘
اصغر بھاگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اصغر کا ابا آ گیا اور بولو، ’’کیا ہوا بھابھی؟‘‘
’’یہ گدھا۔۔ ۔ بڑی بلا ہے۔۔ ۔ مار ڈالے گا مجھے۔ ’’اصغر کا باپ ہنس پڑا۔
گدھا مار ڈالے گا۔ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟‘‘
’’یہ بلا ہے۔ اس کے اندر کوئی بہت بڑی بلا چھپی ہوئی ہے۔‘‘ وہ پھر ہنس پڑا۔
’’کیا ہو گیا ہے بھابی آپ کو!‘‘
’’تم نہیں جانتے۔ میں جانتی ہوں۔ اللہ کے لیے اسے یہاں سے نکال دو۔‘‘
’’بھابی وہی لوگ آئے ہیں۔ فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں۔‘‘
’’اللہ کے لیے جلدی سے اس بلا کو ان کے حوالے کر دو۔ جلدی۔‘‘
’’بھابی آپ تو باہر آئیں۔‘‘ ’’نہ نہ مجھے اس منحوس سے ڈر لگتا ہے۔ جلدی اسے ان کو دے دو۔‘‘
’’مگر وہ ہے کہاں؟‘‘
’’یہیں تھا۔‘‘
’’یہاں تو کوئی نہیں۔‘‘
’’کہیں ہو گا، جلدی کرو۔ دالان کے ساتھ والے کمرے میں دیکھو۔‘‘
اصغر کا ابا وہاں چلا گیا۔ خدیجہ بھی آہستہ آہستہ باہر آئی۔ اصغر کا ابا مسکراتا ہوا آ رہا تھا۔ ’’بھابی! وہ تو بڑے آرام سے وہاں ہے۔ دالان کے ساتھ والے کمرے میں۔‘‘
’’فوراً دے دو۔‘‘
اصغر کا ابا جانے ہی لگا تھا کہ اس کا بیٹا انور آ گیا۔
’’تو کہاں مر گیا تھا؟ وہ بلا مجھے مار ڈالتی تو!‘‘
’’اماں میں دریا پر گیا تھا۔ اور اماں! وہ فخرو۔۔ ۔‘‘
انور نے اپنا فقرہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی ماں چیخ کر بولی، ’’حوالے کر دو ان کے۔‘‘
’’اماں! ابا جان۔‘‘
خدیجہ نے پھر اس کی بات کاٹ کر کہا، ’’میں جو کہتی ہوں۔ حوالے کرو ان کے، نکالو اسے میرے گھر سے۔ فوراً دھکا دو۔‘‘
انور خاموش کھڑا رہا۔ اصغر کا باپ آ گیا اور بولا:
’’حوالے کر دیا ہے ان کے!‘‘
’’شکر ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے وہ ایک بلا ہے۔ بلا بھی چھوٹی نہیں۔ بہت بڑی بلا۔‘‘
اصغر کا باپ ہنس پڑا۔ ’’بھابی! آپ تو خواہ مخواہ ڈر رہی ہیں۔‘‘ ’’ایک گدھے سے!‘‘ انور بولا۔
’’خاموش رہ۔ تو گھر کے باہر تھا۔ کیا پتا تجھے اس بلا نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔‘‘
’’ایک گدھا کیا کر سکتا ہے، اماں!‘‘
خدیجہ نے غصے میں اپنے بیٹے کے گال پر زور سے تھپڑ مارا۔
’’میں بکواس کر رہی ہوں۔ مخول سمجھتا ہے میری بات کو۔ دُور ہو جا میری آنکھوں سے۔‘‘ انور گال پر ہاتھ رکھے چلا گیا۔
’’بھابی! آج تم کو ہو کیا گیا ہے؟‘‘
’’پاگل ہو گئی ہوں۔ دماغ پھر گیا ہے میرا۔ بس، چھوڑ دو مجھے۔‘‘ اس لمحے رمضان خاں آ گیا۔ ’’یہ گھر کے دروازے پر کیا میلا لگا ہے؟ ہوا کیا ہے؟‘‘ رمضان خاں نے بیوی سے پوچھا۔ بیوی کے بجائے اصغر کے باپ نے جواب دیا، ’’بھابی ڈر گئی ہیں۔‘‘
’’کس سے؟‘‘
’’وہ جو گدھا ہے نا؟‘‘
’’ہاں جسے میں نے دو سو روپے میں خریدا تھا۔ اس کمرے میں ہے۔‘‘
’’اب نہیں ہے۔‘‘
’’کیا کہا اب نہیں ہے!‘‘ ’’اُسے فخرو وغیرہ لے گئے ہیں۔‘‘
’’لے گئے ہیں۔ کیسے لے گئے ہیں۔ کس نے دیا ہے انہیں؟‘‘
’’میں نے دیا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ غصے سے رمضان خاں کا چہرہ تمتمانے لگا۔
’’بھابی اس سے بُری طرح ڈر گئی تھیں۔‘‘
’’میری سمجھ میں خاک بھی نہیں آیا۔ خدیجہ یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘
خدیجہ بھری بیٹھی تھی، بول اٹھی:
’’اگر وہ بلا یہاں رہے گی تو میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہوں گا۔ کہہ دیا ہے میں نے۔ اب اسے بالکل نہیں لانا۔‘‘
’’خدیجہ!‘‘ رمضان خاں نے نرمی سے کہا، ’’میں نے اسے دو سو کی رقم دے کر خریدا ہے۔‘‘
’’بھاڑ میں جائے دو سو کی رقم۔ میرا آخری فیصلہ ہے۔ اسے لاؤ گے تو میں یہاں نہیں رہوں گی۔ بالکل نہیں رہوں گی۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ اب کے اصغر کے ابا نے جواب دیا، ’’رمضان خاں بھابی کہتی ہے اس گدھے کے اندر کوئی بلا چھُپی ہوئی ہے۔‘‘
’’چھوٹی نہیں، بہت بڑی بلا۔‘‘ خدیجہ نے کہا۔ ’’پاگل ہو گئی ہو۔ وہ گدھا ہے۔‘‘
’’گدھا نہیں ہے۔‘‘
’’تو کیا انسان ہے۔‘‘
’’بلا ہے۔ بس میں نے کہہ جو دیا ہے کہ وہ یہاں آیا تو میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہوں گی۔‘‘
میاں بیوی میں جھگڑا بڑھتا جا رہا تھا۔ اصغر کے ابا نے صلح صفائی کرانی چاہی:
’’رمضان خاں لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت چُپ ہو جاؤ۔ بھابی، تم بھی چُپ ہو جاؤ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اصغر کا ابا رمضان خاں کو اپنے ساتھ لے گیا۔
رات کو خدیجہ پلنگ پر لیٹنے کو تو لیٹ گئی، مگر نیند کہاں اس کی آنکھوں میں۔ بار بار کروٹ بدلتی تھی اور دروازے کی طرف دیکھتی تھی۔
رمضان خاں قریبی پلنگ پر بیٹھا لیجر میں حساب کتاب لکھ رہا تھا اور کن انکھیوں سے بیوی کو دیکھتا بھی جاتا تھا۔
خدیجہ اٹھ بیٹھی اور پلنگ سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ ’’خدیجہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ وہ گدھا ہے، لیکن عام گدھا نہیں ہے۔ اس کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتیں۔‘‘
’’اور جو کچھ میں جان گئی ہوں اس سے تم بے خبر ہو۔‘‘ خدیجہ بولی۔
’’مثلاً کیا جان گئی ہو؟‘‘
’’اس کے اندر بلا چھُپی ہوئی ہے۔‘‘
’’خدیجہ! سنو ذرا صبر سے سنو۔ اس کے اندر بلا چھُپی ہوئی نہیں ہے بلکہ۔۔۔‘‘
’’بلکہ کیا؟‘‘ خدیجہ نے پوچھا۔
’’میں بتا نہیں سکتا کہ اس کے اندر ہے کیا۔ اور جو کچھ ہے اس کے ذریعہ سے ہم ایک دن کے اندر اندر لکھ پتی بن سکتے ہیں۔ میں بتاتا ہوں تمہیں کیسے۔‘‘
رمضان نے جو کچھ فخرو سے سُنا تھا، بیوی کو سُنا دیا۔
’’اب تم ہی بتاؤ اس کے اندر کیا چھُپا ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں صرف ایک دن کے لیے مجھے یہ گدھا مل جائے تو میں اپنے گھر میں خزانہ لا سکتا ہوں۔‘‘
’’خزانہ؟‘‘
’’خزانہ نہیں تو اور کیا۔ فخرو خزانہ ہی تو لایا تھا۔‘‘
خدیجہ سوچ میں ڈوب گئی۔
٭٭٭