فخرو کے خاندان کو وہ غیبی خزانہ کیا ملا اس کی تو تقدیر بدل گئی۔ چچا کالو خان ہر روز گھر کے لیے کوئی نہ کوئی نئی چیز خرید لاتا۔ ایک روز وہ ایک لمبی چوڑی دری خرید لایا۔ دوسرے روز چائے کا بڑھیا سیٹ لے آیا۔ آپا کے لیے شان دار لباس تیار کروایا گیا۔ فخرو کے لیے ایسے کپڑے گھر میں آ گئے جن کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
یہ ساری بڑی خوش گوار تبدیلی گدھے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اس لیے تینوں ہی اسے بڑا پیار کرنے لگے تھے۔ گھر کے چھوٹے سے لان میں وہ آزادی سے رہتا تھا۔ صاف سُتھری گھاس پر ہر وقت بیٹھا رہتا تھا۔ پانی اسے ایک بڑے سے شیشے کے ٹب میں دیا گیا تھا۔
گدھا بظاہر بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا اسے پیار ملا تھا اور پیار کے علاوہ اس کی خوب خاطر تواضع بھی ہو رہی تھی۔
اس روز چچا یہ دیکھنے کے لیے کہ گدھے کے لیے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے، دالان میں گیا، گھاس بھی موجود تھی، پانی بھی۔ اس کی نظر دیوار پر پڑی تو وہاں موٹے لفظوں میں لکھا ہوا تھا:
’’یہاں بادشاہ سلامت رہتے ہیں۔‘‘
یہ لفظ فخرو نے لکھے تھے۔ فخرو باقاعدگی سے اسکول کبھی نہیں گیا تھا مگر جتنا وقت اس نے وہاں صرف کیا تھا اس میں تھوڑا سا لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چچا یہ فقرہ پڑھ کر ہنس پڑا۔
وہ باہر آیا تو دیکھا کہ فخرو شان دار لباس پہنے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگائے کرسی پر بیٹھا ہے۔
’’میرے پیارے بھتیجے!‘‘ کالو خاں نے پیار سے کہا۔
’’پیارے چچا جان!‘‘ فخرو نے ادب اور احترام کے ساتھ ذرا جھُک کر جواب دیا۔
’’آج ارادہ کیا ہے پیارے بھتیجے؟‘‘
’’پیارے چچا جان! آج بادشاہ سلامت کو باہر سیر کرانے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’نہ بابا ایسا نہ کرنا۔‘‘
’’کیوں چچا جان؟ دیکھیے نا بادشاہ سلامت ہر وقت ایک جگہ پر رہتے ہوئے گھبرا گئے ہوں گے۔ باہر ٹھنڈی ہوا میں گھومیں پھریں گے تو ان کو خوشی ہو گی۔‘‘
’’خوشی تو ضرور ہو گی، مگر پیارے بھتیجے وہ رمضان خاں بیوپاری!‘‘ ’’کیسی باتیں کرتے ہیں چچا جان! اب وہ ہمارے بادشاہ سلامت کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اسی دوران ماں بھی آ گئی۔
’’کیا بحث ہو رہی ہے چچا بھتیجے میں؟‘‘ ماں نے آتے ہی پوچھا۔ ’’اماں! بات یہ ہے میں ذرا بادشاہ سلامت کو سیر کے لیے باہر لے جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بادشاہ سلامت! یہ کون ہے؟‘‘ ماں نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ ہیں ہمارے بادشاہ سلامت۔‘‘ فخرو نے گدھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ماں بے اختیار ہنس پڑی اور بولی، ’’سبحان اللہ! یہ بادشاہ سلامت بن گیا۔‘‘ ’’ہمارے لیے تو بادشاہ سلامت ہے نا اماں!‘‘
’’ضرور ہے، مگر کالو خاں تم کیا کہتے ہو!‘‘ ماں نے چچا سے پوچھا۔
’’آپا! وہ جو ہے ناں رمضان خاں بیوپاری، کوئی شرارت نہ کر دے۔‘‘
’’ہٹاؤ اُس منحوس کو۔ کچھ کرے تو سہی، اسے اندر کرا دیں گے ہم۔‘‘ ماں نے ہاتھ کو لہراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تمہاری مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر چچا اور ماں دونوں چلے گئے۔ اس کے بعد فخرو نے گدھے کے گلے میں بندھی ہوئی ریشمی رسی ہاتھ میں پکڑی اور بڑے ٹھاٹ سے باہر نکلا۔ وہ بازار میں چند قدم ہی چلا ہو گا کہ آنے جانے والے لوگ انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ بالخصوص اسکولوں کو جو بچے جا رہے تھے وہ ان کے پاس آ کر رُک گئے۔ فخرو اکڑ اکٹر کر چل رہا تھا۔ اسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ایک لڑکا جو کافی شریر تھا دوڑ کر فخرو کے پاس آیا۔ اس نے پہلے تو جھک کر سلام کیا، پھر بولا:
’’جناب فخرو جی!‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘ فخرو نے اکڑی ہوئی گردن اس کی طرف موڑی۔
’’یہ خوب صورت ہرن کہاں سے آیا ہے؟‘‘ جو بچے وہاں جمع ہو گئے تھے یہ فقرہ سُن کر ہنس پڑے۔ اس سے پہلے کہ فخرو جواب دینے کی کوشش کرے ایک اور لڑکا بولا:
’’یہ ہرن نہیں ہے۔‘‘
’’تو کیا ہے؟‘‘ پہلے لڑکے نے پوچھا۔ ’’یہ ایک ایسا نایاب جانور ہے جس کی نسل ختم ہو گئی ہے۔‘‘ تیسرے لڑکے نے مجمع میں سے سر نکال کر تائید کی۔ ’’میرا خیال ہے یورپ کے کسی چڑیا گھر سے تحفے میں بھیجا گیا ہے۔‘‘
’’بالکل درست۔‘‘ کئی لڑکوں نے تائید کی۔
’’ہائے کتنا پیارا ہے۔‘‘ پہلے لڑکے نے گدھے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اور یہ دُم۔‘‘ دوسرے لڑکے نے اس کی دُم کھینچی۔ گدھے نے دولتی جھاڑی۔
لڑکا جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ دولتی ایک اور لڑکے کے سینے میں جا لگی۔ وہ چیخا:
’’ہائے مر گیا!‘‘
ایک لڑکے نے گدھے پر دو ہتڑ مارا۔ گدھے نے ایک مرتبہ اور دولتی جھاڑی اور بھاگ نکلا۔ لڑکے شور مچاتے ہوئے اس کے پیچھے جانے لگے۔ فخرو پریشان ہو گیا۔ اس نے پورے زور سے دوڑنے کی کوشش کی اور گدھے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے گدھے کی رسی پکڑی ہی تھی کہ لڑکے آ گئے۔
’’مت چھوڑو اِسے۔‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں۔ فخرو دھکا کھا کر گر پڑا۔ لڑکوں نے گدھے کا گھیراؤ کر لیا۔
’’چھوڑو بادشاہ سلامت کو!‘‘ فخرو نے چیخ کر کہا۔
یہ سن کر قہقہوں کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ فخرو اٹھنے کو تو اٹھ بیٹھا۔ مگر کچھ نہ کر سکا۔ لڑکے گدھے کو گھیر کر لے جا رہے تھے۔ فخرو ان کی طرف بھاگا لیکن کئی لڑکوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔
’’چھوڑو، چھوڑو مجھے۔‘‘ لڑکے اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لڑکے گدھے کو لیے چلے جا رہے تھے۔ وہ اسے کبھی کبھی پیٹ بھی دیتے تھے۔
اچانک قریب سے ایک گرجتی ہوئی آواز آئی:
’’چھوڑو بدتمیزو!‘‘
فخرو نے اُدھر دیکھا۔ کچھ دور رمضان خاں بیوپاری کھڑا تھا۔
’’چھوڑو دو ورنہ ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘‘ لڑکوں نے ایک لحیم شحیم آدمی کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو رفو چکر ہو گئے۔
’’واہ وا فخرو میاں! کیا شان ہے! سبحان اللہ!‘‘ رمضان خاں نے فخرو کے دائیں شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’بڑی مہربانی خاں صاحب!‘‘
’’ارے مہربانی کیسی ہم تو تمہارے خادم ہیں، خادم!‘‘ ’’شرمندہ نہ کریں۔ آج آپ نے میری بڑی مدد کی ہے۔‘‘ فخرو نے بڑے خلوص سے کہا۔ ’’میں نے کہا نا ہم تو تیرے خادم ہیں۔ کوئی ہمارے فخرو کو تنگ کر کے تو دیکھے، ہڈیاں مروڑ دیں گے اس کی۔‘‘
رمضان خاں کو یوں للکارتے ہوئے دیکھ کر کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے۔
’’ارے تم کیا تماشا دیکھنے آئے ہو!‘‘ رمضان خاں گرجا۔ وہ لوگ تتر بتر ہو گئے۔
’’اچھا خاں صاحب!‘‘ فخرو نے اپنے بادشاہ سلامت کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’چل بادشاہ سلامت!‘‘
’’کیا کہا؟‘‘ رمضان خاں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’یہ بادشاہ سلامت ہیں۔‘‘ ’’یہ جناب گدھا صاحب؟‘‘
’’جی بادشاہ سلامت کہیے خاں صاحب!‘‘ رمضان نے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھ دیئے۔
’’غلطی ہو گئی، معاف کرنا۔ یہ گدھا صاحب نہیں بادشاہ سلامت ہیں۔ معاف کر دیا نا؟‘‘
’’کوئی بات نہیں،‘‘ فخرو نے کہا۔ ’’فخرو دوست!‘‘ رمضان خاں نے فخرو کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ’’جی خاں صاحب!‘‘
’’ایک بات ہے۔ ذرا میرے ساتھ ایک شان دار ہوٹل میں چل کر چائے پی لو۔ اللہ قسم مزہ آ جائے گا۔‘‘
’’نہ خاں صاحب! کیوں تکلیف کرتے ہیں۔‘‘ ’’میری خوشی اسی میں ہے۔‘‘
’’تو میری خوشی بھی اسی میں ہے۔‘‘ دونوں ایک قریبی ریستوران کے گئے۔ اب معاملہ گدھے کا تھا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔
’’اسے تو اندر نہیں لے جا سکتے۔‘‘ رمضان خاں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ بادشاہ سلامت باہر رہیں گے۔‘‘
رمضان خاں فکر مند ہو گیا کہ کوئی اسے لے نہ جائے۔ فخرو نے اس کی فکر مندی بھانپ لی اور بولا:
’’خاں صاحب! یہ بادشاہ سلامت بڑے ہی بادشاہ سلامت ہیں۔ کوئی ان کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ دو لتیاں جھاڑنے میں ان کا جواب نہیں ہے۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے۔‘‘ رمضان خاں کو اطمینان ہو گیا۔
فخرو نے گدھا ریستوراں کے باہر کھڑا کر دیا اور دونوں اندر چلے گئے۔ فخرو کو ایک بڑی اور شان دار ریستوراں کے اندر جانے کا زندگی میں پہلا موقع ملا تھا۔ وہ رونق، شان و شوکت دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا۔ رمضان خاں نے اسے ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھا دیا۔ فضا میں ہلکی ہلکی موسیقی کی لہریں سی تیر رہی تھی۔ با وردی بیرے ٹرے اٹھائے ادھر سے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔
ایک بیرا ادب سے فخرو کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’کیا کھاؤ گے فخرو میاں؟‘‘ رمضان خاں نے فخرو سے پوچھا۔ فخرو بھلا کیا جواب دیتا۔ بولا، ’’خاں صاحب! جو آپ پسند کریں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ اور رمضان خاں نے بیرے کو آرڈر دیا:
’’لے آؤ پیسٹری، کیک، کباب اور جو کچھ ہے۔‘‘
بیرا مسکرا کر چلا گیا۔ چند منٹ بعد ان کی میز پر ڈھیروں چیزیں رکھی تھیں۔ گلاب جامن، پیسٹری، کیک، کباب وغیرہ۔ ’’کھاؤ یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے۔‘‘
’’آپ کھائیں۔‘‘ ’’تو بسم اللہ۔‘‘ رمضان خاں نے گلاب جامن اٹھا کر منھ میں ڈال لی۔ یہی کام فخرو نے کیا۔ رمضان خاں نے پیسٹری کا ایک ٹکڑا اٹھایا۔ اس کے گرد جو کاغذ لپٹا ہوا تھا اسے اتارا اور اسے بھی منھ میں رکھ لیا۔
فخرو نے اُسے کاغذ اتارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس نے اُسی طرح پیسٹری دانتوں کے درمیان رکھ لی۔
سامنے میز کے گرد جو دو آدمی بیٹھے تھے وہ بڑی دل چسپی سے فخرو کو دیکھ رہے تھے۔ ایک تو فخرو کے منھ کے اندر کاغذ تھا اور پھر ان دو آدمیوں کی طنزیہ نظریں۔ فخرو کو پیسٹری حلق سے اُتارنا مشکل ہو گیا۔ عجیب حالت ہو گئی اس کے چہرے کی۔ ایک بیرے نے جلدی سے پانی کا گلاس اسے دیا۔ پانی کے دو گھونٹ پی کر اس کی مشکل دور ہو گئی۔
اس کے بعد فخرو نے کوئی پیسٹری نہ کھائی۔ دوسری چیزیں کھاتا رہا۔ جب سیر شکم ہو گیا تو رمضان خاں نے کہا، ’’فخرو بیٹا٬‘‘ ’’جی خاں صاحب!‘‘
’’اللہ نے بڑا احسان کیا ہے تم پر۔ تمہارے چچا کی دکان خوب چل رہی ہے۔ بڑا مال آ رہا ہے۔ یہ قیمتی کپڑے۔ سبحان اللہ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے رمضان نے فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’خاک دُکان چلتی ہے خاں صاحب!‘‘ فخرو کی بات سن کر رمضان مسکرانے لگا۔ ’’تو میاں! یہ مال آیا کہاں سے؟‘‘ فخرو نے بے دھڑک کہہ دیا، ’’یہ بادشاہ سلامت کی مہربانی ہے۔‘‘
رمضان خاں نے بیرے کو اور چیزیں لانے کے لیے کہا، مگر فخرو نے کہا:
’’بس خاں صاحب! پیٹ بھر گیا ہے۔‘‘
’’آج تو میرا دل چاہتا ہے ساری دنیا کی نعمتیں تمہارے آگے ڈھیر کر دوں۔‘‘
رمضان خاں ذرا رُکا اور پھر بولا، ’’میرے پیارے بھتیجے یہ تو بتاؤ بادشاہ سلامت نے مہربانی کی کیسے؟‘‘
فخرو نے وہ سارا واقعہ سنا دیا جس میں خزانہ ملا تھا۔
رمضان خاں ساری روداد چپ چاپ بڑی توجہ سے سنتا رہا۔ جب فخرو سب کچھ سنا کر خاموش ہو گیا تو رمضان خاں کہنے لگا:
’’فخرو بیٹا! یہ اللہ کی دین ہے۔ وہ نیلی چھتری والا جس کو چاہے دے جس کو چاہے نہ دے۔ تم بڑے خوش قسمت ہو۔ اللہ تمہیں اور خزانہ دے۔‘‘
دونوں اٹھے اور باہر آئے۔ گدھا وہیں کھڑا تھا۔
’’معاف کرنا بادشاہ سلامت! تمہیں تکلیف دی۔‘‘ فخرو نے گدھے کے سامنے جھُک کر کہا۔ ’’فکر نہ کرو بیٹا! بادشاہ سلامت بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ معاف کر دیا ہے تمہیں۔‘‘ یہ کہہ کر رمضان خاں گدھے کی پُشت پر ذرا ہاتھ پھیرتے ہوئے تڑپ کر بولا:
’’اُف میرے اللہ!‘‘ خاں صاحب نے جلدی سے ہاتھ اپنے کُرتے پر ملتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہوا خاں صاحب؟‘‘
’’میرے اختیار میں ہو تو ان شریر لڑکوں کو مار مار کر گنجا کر دوں۔ ان کی ہڈیاں توڑ ڈالوں۔‘‘
’’ہوا کیا ہے آخر؟‘‘ رمضان خاں نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا:
’’تم دیکھ نہیں رہے۔ ان ظالموں نے بادشاہ سلامت کو مارا ہے۔ کان بُری طرح مروڑے ہیں۔ پتا نہیں میں نے کس طرح ہاتھ پھیرا ہے۔ میرے ہاتھوں پر خون لگ گیا ہے۔ توبہ توبہ اللہ کی بے زبان مخلوق پر یہ ظلم!‘‘
’’اچھا!‘‘ فخرو نے رمضان خاں کی بات پر یقین کر لیا۔
’’اس پر ایک خاص مرہم لگایا جائے تو آرام آئے گا۔‘‘
’’خاص مرہم کہاں سے ملے گا؟‘‘
فخرو نے پوچھا۔
’’بازار میں نہیں ملتا۔ اس پورے شہر میں نہیں ہے۔ میرے دادا جان نہ جانے کہاں سے لائے۔ زخموں کے لیے تریاق ہے۔ صرف ہمارے گھر میں ہے۔‘‘
’’تو مجھے دے دیں مہربانی ہو گی۔‘‘
رمضان خاں نے انکار میں سر ہلایا، ’’اس کے لگانے کا خاص طریقہ ہے۔ صرف میں لگا سکتا ہوں یا میری بوڑھی ماں۔‘‘
’’تو کیا کیا جائے؟‘‘
’’بیٹا! اسے صرف ایک رات کے لیے چھوڑ جاؤ۔ کل سویرے تمہارے گھر میں ہو گا۔‘‘
فخرو کے چہرے کے اثرات بتا رہے تھے کہ اسے یہ بات منظور نہیں ہے۔ رمضان نے پھر کہا، ’’پیارے بھتیجے! اپنے چاچے کی بات پر شک کرتے ہو۔ لعنت ہے ایسے چاچے پر۔‘‘
’’نہیں خاں صاحب! میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں۔ مگر میری ماں اور میرا چچا!‘‘
’’انہیں راضی کرنا میرا کام ہے۔‘‘ رمضان خاں نے گدھے کی رسی پکڑ لی اور دونوں چلنے لگے۔ گدھا بھی ساتھ چل رہا تھا۔
٭٭٭