سبزیوں کا ایک بڑا بیوپاری بچوں پر رعب جما کر گدھا اپنے گھر لے آیا۔ کئی لڑکے گدھے کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے۔ گھر کے قریب پہنچ کر رمضان خاں نے لڑکوں کو ڈانٹ پلائی، ’’جاؤ بھاگو یہاں سے، کبھی گدھا نہیں دیکھا تم نے؟‘‘
رمضان بڑا رعب و داب والا آدمی تھا۔ لڑکے جانا تو نہیں چاہتے تھے، مگر رمضان خاں سے ڈر کر چلے گئے۔
لڑکوں کے جانے کے بعد رمضان خاں گدھے کی رسی پکڑ کر یوں کھڑا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ اس کی بیوی خدیجہ نے اپنے شوہر کو اس حال میں دیکھا تو پوچھا، ’’انور کے ابّا کیا بات ہے؟ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’سوچ رہا ہوں کہ اسے رکھا کہاں جائے؟‘‘
خدیجہ ہنس پڑی، ’’کیا گدھے کے لیے کوئی خاص مکان بنوانا پڑے گا؟‘‘
رمضان خاں بیوی کی بات سن کر مسکرایا اور بولا، ’’خدیجہ یہ عام گدھا نہیں ہے۔ عام گدھا ہوتا تو میں اسے کیوں خریدتا؟‘‘
’’کیا خوبی ہے اس میں؟‘‘
’’میں نے دیکھا تھا کہ منڈی میں جہاں اسے کھڑا کر دیا جاتا تھا، کیا مجال جو وہاں سے ذرا ادھر ادھر ہو جائے۔ بوجھ سے بھی نہیں گھبراتا تھا۔ ریڑھی پر جتنا بوجھ لاد دیا، خوشی خوشی چل پڑا۔ بڑا اصیل گدھا ہے۔‘‘
’’اصیل تو مرغ ہوتا ہے۔‘‘ خدیجہ پھر ہنس پڑی۔
’’یہ بھی اصیل ہے۔‘‘
’’تو اب اسے یہیں پکڑے کھڑے رہیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے اسے اب وہاں رکھا جائے گا۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
رمضان نے بیوی کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ زور سے بیٹے کو انور کہہ کر پکارا۔ چودہ پندرہ برس کا لڑکا دروازے پر آ گیا۔
’’انور! اسے اسٹور کے ساتھ جو کمرہ ہے نا اس کے اندر چھوڑ آ۔‘‘
انور گدھے کی رسی پکڑنے کے لئے آگے بڑھا۔
’’گدھے پوری بات تو سن لے۔‘‘
’’ہائے میرے بیٹے کو گدھا کہہ رہے ہو۔‘‘ خدیجہ کو شوہر پر غصّہ آ گیا تھا۔
انور جو گدھے کے پاس رک گیا تھا باپ کو سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا۔
’’کمرے کا دروازہ بند کر دینا۔‘‘
’’اور کھڑکیاں روشندان؟‘‘ انور نے سوال کیا۔
’’دیکھا خدیجہ! گدھوں والا سوال کیا ہے یا نہیں۔ او پگلے! جانور دروازے سے تو نکل سکتا ہے کھڑکیوں اور روشن دانوں سے کیسے نکلے گا؟‘‘
’’ابّا جی! آپ ہی نے تو کہا تھا کہ یہ گدھا عام گدھا نہیں ہے۔ کیا پتا کھڑکی میں سے نکل جائے۔‘‘
’’بس اب بکواس نہ کر۔ اسے چارہ پانی ڈالنا تمہارا کام ہو گا۔‘‘ رمضان خاں نے انور کے ہاتھ میں رسی دے دی۔
انور نے گدھے کو اسٹور کے قریب فالتو کمرے میں دھکیل دیا اور باہر آ کر کھیلنے کے لئے دوستوں کے پاس چلا گیا۔
شام ابھی نہیں ہوئی تھی۔ انور کھیل کود کر گھر واپس آیا تو ماں نے کہا، ’’انور! گھر میں ایک مہمان آیا ہوا ہے۔ بھوک لگی ہو گی اسے۔‘‘
’’یاد آ گیا امی، کرتا ہوں انتظام۔‘‘
’’تمہارا ابّا تاکید کر کے گیا تھا کہ اسے شام سے پہلے پہلے چارا ڈال دیا جائے۔‘‘
’’اچھا امی!‘‘
خدیجہ باورچی خانے میں آ گئی اور کھانا تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔‘‘
وہ ایک ہانڈی میں سے تھوڑا سا سالن ڈوئی میں ڈال کر یہ اندازہ کر رہی تھی کہ نمک مرچ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ باورچی خانے میں کوئی آیا ہے۔ اس نے سامنے دیکھا۔ انور دیوار کے پاس کھڑا تھا۔
’’کیا کر رہا ہے یہاں؟‘‘
’’امی! وہ کہانی سنی ہے نا آپ نے جس میں ایک جادوگرنی شہزادی کو بکری بنا دیتی ہے۔‘‘
’’ہاں سنی ہے۔ پھر؟‘‘
’’امی! یہ جو گدھا ہے نا گدھا نہیں ہے۔‘‘
’’تو کہنا کیا چاہتا ہے؟‘‘
’’امی! میں سچ کہتا ہوں۔ یہ گدھے کے روپ میں۔۔۔۔ اماں! کیا کہوں یہ گدھے کے روپ میں کوئی اور ہے۔‘‘
خدیجہ جھنجھلا گئی، ’’میں پوچھتی ہوں تو کہنا کیا چاہتا ہے؟‘‘
’’کمرے کے اندر سے۔‘‘ انور نے اپنا دایاں ہاتھ لہرایا۔
’’نہیں ہے کمرے میں؟‘‘
’’کہہ تو رہا ہوں یہ گدھا نہیں ہے کوئی اور ہے۔‘‘
خدیجہ نے ڈوئی وہیں ہانڈی کے اوپر رکھی اور تیزی سے نکل کر اس کمرے میں گئی جہاں گدھے کو رکھا گیا تھا۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
انور مسکرا کر کہنے لگا، ’’امی! وہ یہاں ہوتا تو گھبرانے کی بات ہی کیا تھی۔ پتا نہیں کس طرح نکل گیا۔ جیسے اسے پر لگ گئے ہوں۔‘‘
’’اور وہ روشندان سے نکل گیا۔‘‘
’’اور کیا۔‘‘
’’اب باپ کو کیا جواب دے گا؟‘‘
’’ابّا پوچھیں گے تو کہہ دوں گا کہ یہ گدھا نہیں ہے کوئی بڑی خطر ناک چیز ہے۔‘‘
ماں بیٹا ابھی کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ رمضان خاں آ گیا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ کچھ ہو گیا ہے۔ بولا، ’’معاملہ کیا ہے؟‘‘
خدیجہ اور انور دونوں خاموش کھڑے رہے۔
’’میں کہتا ہوں کیا ہوا؟‘‘
انور تو چپ رہا۔ خدیجہ کہنے لگی، ’’کیا مصیبت لے آئے تھے گھر میں۔۔ ۔۔ غائب ہو گیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ رمضان خان نے سمجھ لیا تھا کہ اس کی بیوی نے کیا کہا ہے۔ پھر بھی اس نے سوال پوچھ لیا۔
’’وہ جسے دو سو روپے میں خرید کر لائے تھے پتا نہیں کیسے چلا گیا۔‘‘ خدیجہ نے جواب دیا۔
’’ابّا! آپ مانیں گے نہیں۔‘‘
خدیجہ نے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’یہ کہتا ہے اس گدھے میں کوئی اور ہے۔‘‘
’’ہاں کوئی اور ہے اور میں جانتا ہوں وہ کون ہے؟‘‘
’’کون ہے ابّا؟‘‘
’’اس کے اندر تم خود ہو۔‘‘
’’میں ابّا۔۔ ۔۔ توبہ۔ میں تو انسان ہوں اور یہ گدھا ہے۔‘‘
’’تم اس کے اندر ہو یا باہر۔ ہو گدھے۔ دونوں دروازے بند کر دیے تھے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’دونوں اندر سے بند کیے تھے؟‘‘
’’بالکل۔ اندر سے بند کیے تھے۔‘‘
’’میں نے کہا تھا نا تم گدھے ہو۔ ارے تم نے دونوں دروازے اندر سے بند کر دیے تھے تو تمہیں بھی گدھے کے ساتھ کمرے کے اندر ہونا چاہیے تھا۔‘‘
انور حیران ہو کر باپ کو دیکھنے لگا۔
’’انور! تمہارا ابّا بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تم نے ایک دروازہ اندر سے بند کیا اور دوسرے سے باہر گئے، مگر اسے بند کرنا بھول گئے۔ کیوں ہے نہ یہی بات؟‘‘
انور شرمندہ ہو کر خاموش رہا۔
’’یہ پھر وہاں چلا گیا ہے۔‘‘ رمضان خان نے بڑے اعتماد سے کہا۔
’’فخرو کے گھر میں؟‘‘ خدیجہ میں پوچھا۔
’’اور کہاں؟‘‘
’’میں دیکھ آؤں وہاں جا کر۔‘‘ انور بولا۔
’’میں کہتا ہوں وہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد باپ بیٹا فخرو کے گھر کے آگے فخرو کی ماں سے باتیں کر رہے تھے۔ رمضان خاں ذرا نرمی سے کہہ رہا تھا، ’’دیکھو بہن! یہ گدھا میرا ہے۔ میں اسے دو سو روپے دے کر خرید چکا ہوں، بزرگ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میں ہی اس گدھے کا مالک ہوں۔‘‘
’’تو آپ اپنی رقم واپس لے لیں۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ میں گدھا ہی لوں گا جسے میں نے اتنی بڑی رقم دے کر خریدا ہے۔‘‘ رمضان خاں نے جواب دیا۔
تکرار بڑھ جاتی کہ چچا دکان بند کر کے آ گیا۔ اس نے جھگڑا ختم کرنے کی خاطر دکان کی دیوار سے بندھے ہوئے گدھے کو کھولا اور اس کی رسی رمضان خاں کی طرف بڑھا دی، ’’خاں صاحب! لے جائیے، مگر یہ آپ کے ہاں رہے گا نہیں۔‘‘
رمضان خاں غصّے سے کہنے لگا، ’’یہ کیا اس کا باپ بھی رہے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے خاں صاحب! اس کا باپ ہی رہے گا۔ یہ نہیں رہے گا۔‘‘
رمضان خاں بڑبڑاتا ہوا گدھے کی رسی تھامے چلا گیا۔
رمضان خاں گدھے کو لے کر واپس آیا تو اس کی بیوی اور بیٹے دونوں کی رائے تھی کہ اسے وہاں چھوڑ کر دو سو روپے لے آتے تو اچھا تھا، مگر رمضان خاں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی، گرج کر بولا، ’’نہیں، میں ہار نہیں مانوں گا۔ دیکھوں گا اب کیسے جاتا ہے۔‘‘
’’تو کیا کر لو گے؟‘‘ خدیجہ کا سوال تھا۔
’’میں اسے وہاں رکھوں گا کہ کہیں جا آ ہی نہیں سکے گا۔ انور آؤ اسے کوٹھے پر لے جائیں۔‘‘
ماں بیٹے کو یہ کام برا لگا، مگر رمضان خاں تو ایک ضدّی آدمی تھا۔ وہ مجبور ہو گئے۔ کسی نہ کسی طرح گدھے کو اوپر کوٹھے پر پہنچا دیا۔
’’اب رہے گا یہیں۔‘‘
’’لیکن انور کے ابّا! ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ آخر دو سو روپے۔‘‘
’’تم چپ رہو۔ میں جانتا ہوں اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔‘‘
’’کیا ہو گا انور کے ابّا؟‘‘
’’اس سزا سے بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’اب اس کے اندر۔‘‘
’’بکو مت۔ کچھ نہیں ہے اس کے اندر۔ چالاک ہے اور بہت چالاک ہے۔ میں اس کی چالاکی ختم کر کے چھوڑوں گا۔‘‘
رمضان خاں نے خود کوٹھے پر گدھے کو چارا دیا اور اطمینان کے ساتھ نیچے آ گیا۔
رات کا پچھلا پہر تھا۔ رمضان خاں گہری نیند سو رہا تھا کہ خدیجہ نے اس کا شانہ ہلا کر سرگوشی سے کہا، ’’انور کے ابّا!‘‘
رمضان خاں سویا رہا۔ خدیجہ نے دوبارہ کہا، ’’انور کے ابّا! اٹھو۔‘‘ اب کے خدیجہ نے اس کا شانہ زور زور سے ہلایا۔
رمضان خاں نے آنکھ کھول دی۔
’’میں نے کہا انور کے ابّا! باہر کوئی ہے۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’میں کیا جانوں۔ سایہ سا دیکھا ہے۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’ابھی ابھی۔ دیکھو چور ہو گا یا۔۔ ۔۔‘‘
رمضان خاں جان گیا اس کی بیوی کیا کہنا چاہتی تھی۔
’’نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’تم نے سیڑھیوں کا دروازہ بند بھی کیا تھا۔ انور کو بیوقوف کہتے تھے اور اب۔۔ ۔۔‘‘
رمضان خاں نے جلدی سے بتی جلائی اور دروازے کے پاس آ گیا۔ خدیجہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آ گئی۔
دونوں بڑے دروازے کی طرف بھاگے۔
دروازہ بند تھا۔
’’چھت پر تو دیکھا ہوتا۔‘‘ خدیجہ نے کہا۔
’’ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں دیکھتا ہوں چھت پر جا کر۔‘‘
رمضان خاں جلد ہی واپس آ گیا۔
’’وہاں نہیں ہے۔‘‘ اس نے اپنی بیوی کو اطلاع دی۔
’’نہیں ہے۔ تو نکل گیا۔‘‘
اور یہ کہتے ہوئے پریشانی اور گھبراہٹ میں خدیجہ نے دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ یکایک گدھا جو اندھیرے میں کہیں کھڑا تھا تیر کی سی تیزی سے نکل گیا۔
’’دروازہ کیوں کھول دیا تھا تم نے؟‘‘ رمضان خان بیوی پر گرجا۔
’’مجھے کیا پتا تھا وہ نامراد یہیں کہیں چھپا کھڑا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھنا چاہا تھا کہ باہر تو نہیں چلا گیا۔‘‘ خدیجہ نے اپنی طرف سے دلیل دی۔
’’دروازہ بند تھا۔ باہر کیسے جا سکتا تھا۔ اس گھر کے سب لوگ بیوقوف ہیں۔ اول درجے کے احمق ہیں۔ گدھے کے گدھے ہیں۔‘‘
’’میں کہتی ہوں اب اس منحوس کو بالکل نہیں لانا۔‘‘ یہ کہہ کر خدیجہ نے دروازہ بند کر دیا۔
’’کیا کیا ہے؟‘‘ رمضان خان نے بیوی سے پوچھا۔
’’کچھ بھی تو نہیں کیا۔‘‘
خدیجہ ٹکٹی باندھ کر دروازے کو دیکھ رہی تھی۔
’’میں پوچھتا ہوں دروازہ کھولا کیوں تھا؟‘‘
خدیجہ گم سم کھڑی رہی۔
’’دروازہ بند رہتا تو وہ منحوس گھر سے نکل سکتا تھا؟‘‘ رمضان خاں کا لہجہ غضب ناک ہو گیا۔
خدیجہ کی حالت اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔
’’اب میں نہیں جاؤں گا خود جانا۔ میری دو سو کی رقم ڈوب گئی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رمضان خاں واپس جانے لگا۔ خدیجہ وہیں کھڑی رہی۔ پھر وہ بھی جانے لگی۔
رمضان خاں منڈی جانے کے لئے صبح سویرے جاگا کرتا تھا۔ اس دن دیر ہو گئی۔ وہ جاگا تو سورج نکل چکا تھا۔ وہ پلنگ سے نیچے اترا تو دیکھا کہ خدیجہ اپنے پلنگ کی پائنتی پر بیٹھی ہے اور چھت کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہے۔
’’خدیجہ؟‘‘
’’ہاں انور کے ابّا۔‘‘
’’کیا ہے۔ سوئی نہیں تھی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں سوچتی رہی ہوں کہ میں نے دروازہ کیوں کھول دیا تھا۔‘‘
’’اب یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’انور کے ابّا! میں نے دروازہ کھول دیا تھا۔ کیوں کھول دیا تھا؟‘‘
’’میں کیا بتاؤں تم نے کیوں کھول دیا تھا۔‘‘
’’بتاؤ نا۔‘‘
’’پاگل ہو گئی ہو۔ دروازہ تم نے کھولا تھا اور پوچھ مجھ سے رہی ہو کہ میں نے دروازہ کیوں کھولا تھا۔‘‘
’’انور کے ابّا! لگتا ہے یہ کوئی بلا ہے۔ یہ گدھا بلا ہے، کوئی بلا ہے انور کے ابّا۔‘‘
خدیجہ رونے لگی۔
’’اچھا بلا ہے تو اب اسے ہرگز ہرگز یہاں نہیں لاؤں گا۔ دو سو روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ خیر اب ناشتہ تیار کرو مجھے منڈی جانا ہے۔‘‘
خدیجہ آہستہ آہستہ اٹھ کر باہر جانے لگی۔
٭٭٭