فخرو کو اپنے بادشاہ سلامت سے بڑی محبت تھی۔ وہ اسے شاہ صاحب کے ہاں چھوڑ کر کالو خاں کے ساتھ گھر واپس آیا تو بڑا اُداس معلوم ہوتا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد جب فخرو اور اس کی ماں اور کالو خاں سونے کی تیاری کر رہے تھے تو کالو خاں نے فخرو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’فخرو پُتر، مجھے علم ہے تمہیں اس کے چلے جانے پر دُکھ ہوا ہے، مگر یہ بھی تو سوچو کہ اگر وہ دو تین دن اور یہاں رہتا تو بھوک سے مر نہ جاتا کیا۔ یہ اچھا نہیں ہوا کہ وہ شاہ صاحب کے ہاں خوش ہے؟ تم نے اسے دیکھا تھا، وہ تانگے سے کود کر اندر چلا گیا تھا۔ وہ دیکھا تھا نا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تم اپنے بادشاہ سلامت کو صحت مند اور خوش دیکھنا چاہتے ہو نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ فخرو نے آہستہ سے کہا۔
’’تو وہ بہت خوش ہے۔ پیٹ بھر کر کھائے گا۔ ساری کم زوری دور ہو جائے گی۔‘‘
فخرو کی ماں جو کالو خاں اور اپنے بیٹے کی باتیں دل چسپی سے سُن رہی تھی، بولی، ’’فخرو تم جب چاہو وہاں چلے جانا۔ کون روکے گا تمہیں؟‘‘
فخرو کے چہرے پر تر و تازگی سی آ گئی۔ یہ اس کے لیے ایک ایسی خوش خبری تھی جس کا اس نے پہلے خیال نہیں کیا تھا۔ کالو خاں نے اب کے فخرو کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا، ’’فخرو، میں تم سے ایک بہت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔ بے کاری آدمی کے لیے ایک مصیبت ہوتی ہے۔ بے کار گھر میں پڑے رہو گے تو زندگی تم پر ایک بوجھ بن جائے گی۔‘‘
’’کالو خاں، تم نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ یہ بات میرے دل میں بھی تھی۔‘‘ فخرو کی ماں بولی۔
’’اب پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جو چاہو کام کر سکتے ہو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ایک بڑا اچھا اور شان دار مکان خرید لیں گے۔ اس مکان کے نیچے دکانیں ہوں گی۔ ایک میں تم بیٹھ جانا۔‘‘ ’’اسے اچھے اچھے کپڑے پہننے کا بڑا شوق ہے۔‘‘ ماں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے تم دکان میں کپڑے رکھ لینا۔ خود بھی پہننا دوسروں کو بھی پہنانا۔ ٹھیک ہے فخرو۔‘‘
’’ٹھیک ہے چچا جان۔‘‘ فخرو کالو خاں کو چچا کہا کرتا تھا۔ آج اس نے چچا جان کہا تھا۔ کالو خاں خوش ہو گیا۔
کچھ دیر تک ایسی ہی باتیں ہوتی رہیں۔ مستقبل کے منصوبے بنائے گئے۔ نئے نئے کام سوچے گئے۔ سیر و تفریح کے پروگراموں پر غور کیا گیا۔ رات کے دس بج گئے۔ ’’اب سو جانا چاہیے۔ کل مکان ڈھونڈنے جانا ہے۔‘‘ کالو خاں نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ان کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ بہت خوب صورت خواب ان کے ذہنوں میں روشنی پھیلا رہے تھے۔ بستر پر لیٹے تو دیر تک وہ سو نہ سکے۔ جاگتے میں خواب دیکھتے رہے۔ بارہ بجے کے بعد سوئے۔
انہیں گہری نیند سوئے ہوئے دو تین گھنٹے گزرے ہوں گے کہ تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ سب سے پہلے کالو خاں نے آنکھیں کھولیں۔ دو نقاب پوش ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں ٹارچ پکڑے کھڑے تھے۔
’’خبردار، جو آواز نکالی۔ بتاؤ وہ جواہرات کہاں ہیں؟‘‘
ٹارچوں کی تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چُندھیا گئی تھیں۔ اس اچانک واقعے سے وہ سخت گھبرا گئے تھے۔ ’’بولو۔‘‘ ایک نقاب پوش آگے بڑھ کر گرجا۔ تینوں میں سے خوف کے مارے کوئی بھی نہ بول سکا۔ ’’بتاؤ ایک منٹ کے اندر اندر ورنہ گولیوں سے بھون دیں گے۔‘‘
’’تینوں کو بھون دیں گے۔‘‘ کسی کے گلے سے آواز نہ نکلی۔
’’بولتے کیوں نہیں، مرنا چاہتے ہو؟‘‘ ایک نقاب پوش نے پستول کا رُخ کالو خاں کی طرف پھیرتے ہوئے کہا اور ایک ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔
’’بولو۔‘‘ دوسرا نقاب پوش گرجا۔ ’’اوئے تو بول اوئے۔‘‘ پہلے نقاب پوش نے فخرو کی طرف دیکھتے ہوئے پستول والا ہاتھ لہرایا۔ ’’بتا دو نہیں تو ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔‘‘ دوسرا بولا۔
تینوں کے چہرے ڈر سے زرد پڑ چکے تھے۔ فخرو کانپ رہا تھا۔
’’نہیں بتاتے؟‘‘ پہلے نے پستول فخرو کی کنپٹی سے لگا دی۔
’’اللہ کے واسطے اسے نہ مارو۔‘‘ ماں چیخی۔ ’’تو فوراً بتا دو۔ ہیرے کہاں ہیں۔‘‘ ماں نے کوٹھری کی طرف اشارہ کر دیا۔ ’’کہاں؟‘‘ ’’زمین میں۔‘‘
اس پر پہلے نقاب پوش نے دوسرے سے کہا:
’’پستول تانے رکھو۔‘‘ اور وہ کوٹھری کے اندر چلا گیا۔ دوسرے نے پستول ان پر تانے رکھا۔ کالو خاں ذرا ہلا تو وہ گرجا:
’’خبردار کالو خاں۔ پہلی گولی تمہارے سینے سے پار ہو گی۔‘‘ نقاب پوش نے ٹارچ کی روشنی کالو خاں کے چہرے پر ڈالی۔ ’’کسی نے ذرا بھی حرکت کی تو اُس کی خیر نہیں۔‘‘ نقاب پوش نے ذرا آگے بڑھ کر کوٹھری کے اندر جھانکا۔ ’’کون سی جگہ ہے۔ بتاؤ۔‘‘ نقاب پوش نے اسے مخاطب ہو کر پوچھا۔
’’دی۔۔ ۔ وار۔۔ ۔‘‘
’’کون سی دیوار؟‘‘
’’س۔۔ ۔ ا۔۔ ۔۔ م۔۔ ۔۔ نے۔‘‘
نقاب پوش نے دوبارہ کوٹھری میں جھانک کر کہا، ’’سامنے والی دیوار۔‘‘ وہ واپس اپنی جگہ پر آ گیا۔
تینوں نقاب پوش کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو لہو ہی نہیں بدن میں۔ یکایک ایک گرج سنائی دی:
’’ہینڈز اپ۔‘‘
اور دوسرے ہی لمحے میں نقاب پوش کی طرف دو ہاتھ بڑھے اور پستول چھن گیا۔
’’واہ رے دلیر ڈاکو، کہاں ہے دوسرا؟‘‘
یہ آواز تھانے دار کی تھی جو تین سپاہیوں کے ساتھ اندر آ چکا تھا۔ ان سب کے ہاتھوں میں پستول تھے۔
’’کہاں ہے دوسرا؟‘‘ تھانے دار نے نقاب پوش کے گال پر زور سے تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا۔ نقاب پوش جو سخت گھبرا گیا تھا کوٹھری کی طرف اشارہ کرنے لگا۔
’’جاؤ۔‘‘ تھانے دار نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ فوراً دو سپاہی اندر گئے اور دوسرے نقاب پوش کو دھکے دیتے ہوئے باہر لے آئے۔
’’لگاؤ انہیں ہتھکڑیاں۔‘‘ تھانے دار نے حکم دیا۔
تھانے دار نے دائیں ہاتھ سے پہلے نقاب پوش کا نقاب کھینچ لیا۔ یہ اکبر تھا جو ایک بار گدھے کو سیر کرانے لے گیا تھا۔ تھانے دار نے دوسرے نقاب پوش کا نقاب بھی ہٹا لیا۔ یہ بھی اکبر کا ایک ہم عمر دوست تھا۔
’’ماں جی۔‘‘ تھانے دار نے ماں سے کہا۔ ’’اب آپ لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم شام ہی سے ان بہادر ڈاکوؤں کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ پکڑے گئے ہیں۔‘‘
ماں دعائیں دینے لگی:
’’اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم پر ایسا احسان کیا ہے کہ ساری عمر نہیں بھولیں گے۔‘‘
’’یہ آپ کا بہت ہی بڑا احسان ہے۔‘‘ کالو خاں بولا۔
تھانے دار بولا:
’’یہ کوئی احسان نہیں ہے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ امن پسند شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہمارا کام ہے۔ پولیس کا اور کیا کام ہوتا ہے؟‘‘
’’اللہ تم لوگوں کو کبھی تتی ہوا نہ لگے۔ ہمیشہ سُکھی رہو۔‘‘ ماں نے بے اختیار دعائیں دیں۔
’’اب سونا چاہو تو سو جاؤ۔ ہم مجرموں کو لے جا رہے ہیں۔ انہیں سزا قانون دے گا۔ اللہ حافظ۔‘‘ تھانے دار اور سپاہی جانے لگے اور ان کے ساتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے دونوں مجرم بھی قدم اٹھانے لگے۔
’’اللہ حافظ‘‘ ماں اور کالو خاں نے ایک ساتھ کہا۔
تھانے دار اور سپاہیوں کے جانے کے بعد ماں اور کالو کی حالت کافی حد تک سنبھل گئی۔ فخرو ابھی تک ٹکٹکی باندھے سامنے دیکھ رہا تھا۔
’’اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘ ماں نے کہا اور ہاتھ بڑھا کر فخرو کو اپنے قریب کر لیا۔
’’اب کیوں ایسی حالت ہے تیری؟ اللہ نے بڑا فضل کیا ہے۔ پُتر فخرو۔ خود کو سنبھال بیٹا۔‘‘
’’اماں۔۔ ۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’اماں، وہ دیکھا اکبر تھا اور دوسرا حامد تھا۔ میرے دوست تھے مدرسے میں۔‘‘
’’دیکھا تھا نا انہیں؟‘‘
’’ہاں دیکھا تھا۔‘‘
’’میرے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔‘‘
’’اللہ جانے کیوں دماغ الٹ گیا بے وقوفوں کا۔‘‘
اس دوران میں کالو خاں آہستہ سے کوٹھری کے اندر چلا گیا تھا وہ باہر آ گیا۔
’’بہت اچھے وقت پر قدرت نے ہماری مدد کی ہے۔‘‘
’’وہ چچا، وہ۔۔۔۔‘‘
کالو خاں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ ’’ہر طرح خیریت ہے۔ زمین نہیں کھودی گئی۔ اللہ بہت ہی مہربان ہے۔‘‘
ابھی تک خوف ان کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا۔ بات کرتے تھے تو اِدھر اُدھر دیکھ لیتے تھے۔ نیند ان کی آنکھوں میں کہاں۔ صبح سارے محلے میں یہ خبر پھیل گئی کہ رات فخرو کے گھر ڈاکا پڑا تھا۔ مگر سپاہیوں نے مجرموں کو گرفتار کر لیا۔ مجرم دو نوجوان تھے۔ جنہوں نے نقاب پہنا ہوا تھا۔
عدالت کا کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ جج صاحب پُروقار انداز میں اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجرموں کے کٹہرے میں اکبر اور اس کا ساتھی حامد کھڑے تھے۔ ان کے ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ماں، فخرو اور کالو خاں بنچ پر بیٹھے تھے۔ جج صاحب کے سامنے وکیل اور تھانے دار موجود تھے۔ جج صاحب کچھ لکھ رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ مقدمے کی کاروائی ہو چکی ہے۔ کچھ لکھ کر جج صاحب نے قلم رکھ کر مجرموں کے کٹہرے کی طرف دیکھا اور بولے:
’’اتنی چھوٹی سی عمر میں ایسا بھیانک جُرم۔‘‘
’’جی حضور، انہیں جرم کے راستے پر لایا گیا تھا۔ اصل مجرم اور ہے حضور۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔
’’کون ہے وہ؟‘‘ جج نے پوچھا۔ ایک سپاہی رمضان کو مجرموں کے کٹہرے کی طرف لے جانے لگا جس کے ہاتھ ہتھکڑیوں سے بندھے تھے۔
’’یہ ہے اصل مجرم جناب۔ ترکاریوں کی منڈی کا ایک پُرانا بیوپاری ہے۔ اس کا نام رمضان خاں ہے۔ اس نے پہلے تو فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں کو بہت پریشان کیا اور پھر انہیں لوٹنے کے لیے ان نوجوانوں کو ان کے گھر پر ڈاکا ڈالنے کی ترغیب دی اور بڑے بڑے لالچ دیئے۔
تھانے دار رُکا تو جج نے اکبر سے کہا:
’’تمہارا نام اکبر ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کیا کہا تھا رمضان خاں نے تم سے؟‘‘
’’جی مجھ سے کہا تھا کہ اگر تم فخرو کے گھر سے ہیرے لے آئے تو میں تمہیں بڑی دولت بھی دوں گا اور تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لوں گا۔‘‘ اکبر نے کہا۔
’’اور تمہارا کیا نام ہے؟‘‘ جج صاحب نے اکبر کے ساتھی سے پوچھا۔
’’حامد جناب۔ میں اکبر کا دوست ہوں۔‘‘ ’’کیا کہا گیا تھا تم سے حامد؟‘‘
’’مجھ سے رمضان خاں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ساری دنیا کی سیر کراؤں گا اور مالا مال کر دوں گا۔‘‘
’’مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے۔‘‘
’’ہمیں سب کچھ رمضان خاں نے ہی بتایا تھا۔‘‘ اکبر بولا۔ اب کے جج صاحب رمضان خاں سے مخاطب ہوئے:
’’رمضان خاں، ان لڑکوں نے جو کچھ کہا ہے درست ہے؟‘‘
پہلے تو رمضان خاں خاموش رہا۔ جج صاحب نے دوبارہ پوچھا تو رمضان خاں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس پر وکیل کہنے لگا:
’’حضور، میں عرض کروں گا کہ یہ رمضان خاں ایک قومی مجرم ہے۔ جناب اس کی عمل اس لحاظ سے بہت بُرا اور بھیانک جرم ہے کہ اس نے اپنے لالچ کی خاطر قوم کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جو شخص قوم کے مستقبل کو تباہ کرے وہ زیادہ سے زیادہ سزا کا مستحق ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ مجرم رمضان خاں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔‘‘
جج صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا:
’’آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ اسے ایسی سزا ملنی چاہیے کہ دوسروں کا عبرت حاصل ہو۔ رمضان خاں کو پانچ سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے اور ان لڑکوں کو چھ چھ ماہ کی سزا دی جاتی ہے تاکہ انہیں یہ سبق ملے کہ آئندہ کسی لالچی آدمی کا آلہ کار نہ بنیں۔‘‘
عدالت برخواست ہو گئی اور سپاہی مجرموں کو لے جانے لگے۔ فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں اطمینان کے ساتھ گھر لوٹے۔
چند روز بعد وہ ایک شان دار مکان میں چلے گئے۔ فخرو کپڑے کا کاروبار کرنے لگا۔ کالو خاں نے محلے کی چھوٹی سے دکان چھوڑ دی اور ایک بڑی دُکان میں بیٹھنے لگا۔ سب بہت خوش تھے۔ فخرو تیسرے چوتھے روز شاہ صاحب کے ہاں جا کر اپنے بادشاہ سلامت سے ملاقات کر کے خوش خوش لوٹ آتا تھا۔
٭٭٭
ٹائپنگ: انیس الرحمٰن
ماخذ: اردو محفل
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%AF%D8%AF%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D8%B1%D8%B2%D8%A7-%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A8.53109
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید