کالو خاں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر آیا۔ فخرو اور اس کی ماں کھانے کی میز پر اس کا انتظار ہی کر رہے تھے۔
’’چچا!‘‘ فخرو نے جلد ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کالو خاں نے اُسے محبت آمیز نظروں سے دیکھا، ’’پُتر! میں جانتا ہوں تو جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کھانا کھا لے پھر چلیں گے۔‘‘
’’کہاں چچا؟‘‘
’’جہاں تمہارا بادشاہ سلامت ہے۔‘‘
’’رمضان خاں کے گھر؟‘‘
’’مت پوچھ مجھ سے کوئی سوال۔ تو بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتا ہے نا؟‘‘
’’بڑا اُداس ہو گیا ہے۔‘‘ ماں بولی۔
’’ہاں تو مل لے گا۔ میں نے اس سے وعدہ جو کیا ہے۔ آپا! اس سے کہو آرام سے کھانا کھائے۔‘‘ فخرو نے جلدی جلدی دو چار لقمے حلق سے اُتار کر پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔
’’کھا لیا ہے؟‘‘ کالو خاں نے پوچھا۔ ’’ہاں چچا۔‘‘ ’’تو ہاتھ دھو لے۔ میں بھی اُٹھتا ہوں۔‘‘
چند منٹ کے بعد کالو خاں اور فخرو جانے لگے۔ فخرو کالو خاں کے پہلو میں چُپ چاپ چلا جا رہا تھا، مگر جب اس نے دیکھا کہ وہ رمضان خاں کے گھر کے بجائے ایک نئی آبادی کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں تو بولا، ’’چچا۔‘‘
’’میں نے کہا ہے بادشاہ سلامت می طرف جا رہے ہیں۔ بے صبری مت کرو۔ چُپ چاپ چلے چلو۔‘‘ وہ چُپ چاپ چلتے گئے اور اسی مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ جہاں کالو خاں نے گدھا اپنے پُرانے دوست ہاشم کے حوالے کیا تھا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ ہاشم آ گیا اور بولا:
’’بہت اچھا کیا جو آ گئے ہو۔ میں خود ہی تمہاری طرف آنے والا تھا۔‘‘
’’خیر تو ہے ہاشم!‘‘
’’اندر آؤ پتا چل جائے گا۔‘‘
’’ہاشم، یہ میرا بھتیجا بھی، بھانجا بھی، بیٹا بھی۔ اس کا نام فخر دین عرف فخرو ہے۔‘‘ کالو خاں نے فخرو کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ہاشم نے فخرو کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ تینوں ایک کمرے میں داخل ہو گئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’کیا حال ہے ہمارے اس کا؟‘‘
’’اُدھر چلتے ہیں۔ شربت وربت پی لو۔‘‘ ہاشم نے کہا تو کالو خاں نے کہا:
’’نہیں ہاشم، پہلے اُسے دیکھیں گے۔ لے چلو ہمیں اُدھر۔‘‘
ہاشم انہیں ایک طرف لے گیا۔ کمرے کا دروازہ کھولا۔ سامنے فخرو کا بادشاہ سلامت کھڑا تھا۔ ’’میرا بادشاہ سلامت۔‘‘ فخرو بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔
’’چلو اب چھوڑ دو اسے۔‘‘ کالو خاں نے کہا۔ ادھر فخرو گدھے کو چھوڑ کر الگ ہو گیا، ادھر گدھا زمین پر گر پڑا۔
‘‘کیا ہوا بادشاہ سلامت؟‘‘ فخرو گھبرا کر بولا۔ کالو خاں نے فخرو کو آواز دی:
’’اِدھر آ جاؤ تم۔‘‘
گدھا اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا، مگر اُٹھ نہ سکا۔‘‘چچا کیا ہو گیا ہے اسے؟‘‘
’’یہ سوال مجھ سے کرو بیٹا۔ اسی لیے تو میں تم لوگوں کو یہاں بُلانا چاہتا تھا۔ جب سے یہاں آیا ہے، صرف ایک مرتبہ اس نے گھاس دانہ کھایا ہے۔‘‘
‘‘اور باقی دن؟ فخرو تڑپا تھا۔
’’نہیں کھایا کچھ اس نے۔‘‘
فخرو پھر گدھے کی طرف جانے لگا۔ ’’فخرو، مت ستاؤ اسے بیمار ہو گیا ہے یا پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘
’’چچا، ہم سے بچھڑ کر بڑا اُداس ہو گیا ہے۔‘‘
’’یہی بات ہے۔‘‘ ہاشم بولا۔ ’’گھر لے چلیں گے، کیوں چچا؟‘‘
’’ہاں اب خطرہ ٹل گیا ہے۔‘‘
’’خطرہ کیسا‘‘ ہاشم نے پوچھا۔
’’اور چچا، آپ نے تو اُسے رمضان خاں کے حوالے کر دیا تھا؟‘‘
’’وہ اور تھا۔‘‘
’’اور تھا چچا، میں سمجھا نہیں۔‘‘
ہاشم خاموش بیٹھا رہا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔ بول پڑا:
’’یہ چچا بھتیجے میں راز و نیاز کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’بات لمبی ہو جائے گی۔ بس یہ سمجھ لو ایک شخص بُری طرح اس کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ میں نے اس سے ملتا جُلتا ایک گدھا خرید کر اس کے حوالے کر دیا ہے۔‘‘
’’پہچانا نہیں اس نے؟‘‘ ہاشم نے سوال کیا۔
’’اصلی اور نقلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور سنو، پیارے بھتیجے۔‘‘ کالو خاں فخرو سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ’’تم ہو اول درجے کے ڈھنڈورچی۔ ڈھنڈورا مت پیٹنا۔ میرے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ سمجھے کہ نہیں؟‘‘ فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
’’ہاشم، سارا قصہ پھر کبھی سناؤں گا۔ فی الحال تم ہمیں اجازت دو۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے خاطر تواضع تو مہمانوں کی کر لینے دو۔‘‘
’’نہیں ہاشم، اب اجازت ہی دے دو۔ بڑی مہربانی۔ بڑا شکریہ۔ تم کو بڑی تکلیف ہوئی۔‘‘
’’مجبوری ہے پھر تو۔‘‘
فخرو تیزی سے گدھے والے کمرے میں گیا۔ بادشاہ سلامت اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ فخرو نے اس کی رسی پکڑی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔ کالو خاں اور ہاشم بھی اُدھر آ گئے۔
’’ٹھہرو میں تانگے کا انتظام کرتا ہوں۔ اس سے چلا نہیں جائے گا۔‘‘ ہاشم نے کہا، پھر تانگے کا انتظام کرنے چلا گیا۔
گدھے کی حالت واقعی بڑی خراب تھی۔ کم زوری کی وجہ سے وہ چند قدم بھی نہیں چل سکتا تھا۔ سب نے مل کر اسے تانگے میں ڈالا۔ اب فخرو ضد کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت کو گدی پر بٹھایا جائے اور وہ نیچے بیٹھے گا۔ گدی پر گدھے کو لٹایا جانا مشکل تھا۔ کالو خاں نے فخرو کو ڈانٹا تو وہ گدی کے اوپر بیٹھ تو گیا مگر اس انداز سے کہ پوری طرح بادشاہ سلامت پر جھُکا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ بڑا افسردہ تھا۔ بار بار آہیں بھرتا تھا۔
کالو خاں نے ہاشم کا بڑا شکریہ ادا کیا اور تانگا چل پڑا۔ تانگا جب گھر پہنچا تو رات کی سیاہی پھیلنے لگی تھی۔ مکان کے آگے اِکا دُکا آدمی ہی دکھائی دیتا تھا۔ گدھے کو تانگے سے اُتارا گیا تو کالو خاں نے دروازے پر دستک دی۔ دو منٹ بعد دروازہ کھلا۔ گدھے کو دروازے کے سامنے دیکھ کر ماں کے منھ سے بے اختیار نکلا، ’’پھر یہ۔‘‘
کالو خاں نے فوراً انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اُسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ ’’سب کچھ بتا دوں گا آپا! چُپ رہو۔‘‘ گدھے کو اس کے مخصوص کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ اُس کے کھانے کا سامان ابھی وہاں پڑا تھا۔
’’فخرو، چلو بیٹا اب سو جاؤ کھانا کھا کر۔‘‘
’’پر بادشاہ سلامت تو کچھ کھا ہی نہیں رہا۔‘‘
’’کھا لے گا۔ فکر کیوں کرتے ہو۔ اب اپنے گھر میں ہے۔‘‘
کالو خاں زبردستی فخرو کو باورچی خانے کے باہر کھانے کی میز پر لے گیا۔ ماں نے چاول اور سالن وغیرہ میز کے اوپر رکھ دیا۔ فخرو نے کھانے سے انکار کر دیا، ’’اماں، میں نہیں کھاؤں گا۔ بادشاہ سلامت جو نہیں کھا رہے۔‘‘
کالو خان نے اسے پھر ڈانٹ پلائی، ’’ایک بار کہہ جو دیا ہے۔ اپنے گھر میں ہے۔ وہاں اداس ہو گیا تھا۔ یہاں کھائے پیے گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
کالو خاں اور ماں کے اصرار پر فخرو نے تھوڑے سے چاول کھا لیے۔ پھر وہ ہاتھ دھو کر کھانے سے اٹھ بیٹھا اور جانے لگا۔
’’تم باز نہیں آؤ گے فخرو۔‘‘ کالو خاں نے غصے سے کہا۔: ’’گدھے کے ساتھ گدھے ہو گئے ہو۔‘‘
ماں نے سمجھایا، ’’جانے دو اسے کالو خاں۔‘‘ فخرو جانے لگا اور دیر تک واپس نہ آیا۔
’’یہ وہاں کر کیا رہا ہے؟‘‘ ماں بولی۔
’’دیکھتے ہیں چل کر۔‘‘
گدھا بیٹھا ہوا تھا اور فخرو سر جھکائے اس کے پاس کھڑا تھا۔ ماں اور چچا کو دیکھ کر فخرو بے اختیار رونے لگا۔ ’’نہیں کھاتے۔‘‘
’’تو تم کیوں اُس کے سر پر چڑھ کر بیٹھے ہو۔ کھا لے گا۔‘‘ کالو خاں نے غصے سے کہا۔
پھر کالو خاں نے اندر جا کر دیکھا۔ کھانے کا سارا سامان ویسے کا ویسا پڑا تھا۔
’’دیکھا آپ نے چچا۔‘‘
’’ہاں دیکھا ہے۔ آ جاؤ اب۔ صبح سوچیں گے۔‘‘
’’صبح تک تو یہ!‘‘
’’کچھ نہیں ہو گا فخرو بیٹا! جانور ہے نا۔‘‘
’’بادشاہ سلامت ہے۔‘‘ فخرو نے اپنے گال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ کالو خاں ہنس پڑا۔ فخرو کو کالو خاں کی ہنسی بڑی بُری لگی، مگر خاموش رہا۔ ماں آخر فخرو کو سمجھانے میں کام یاب ہو گئی۔ کالو خاں تو پہلے ہی انہیں وہاں چھوڑ کر سونے کے لیے چلا گیا تھا۔
فخرو لیٹنے کو تو لیٹ گیا، مگر بار بار کروٹیں بدلتا رہا۔
آدھی رات کے وقت ماں کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ فخرو پلنگ پر نہیں ہے۔
’’وہیں ہو گا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا اور اُٹھ کر وہاں گئی۔ فخرو لالٹین ہاتھ میں لیے گدھے کے پاس دیوار سے لگ کر کھڑا تھا۔
’’فخرو پُتر۔‘‘ فخرو چُپ رہا۔ ’’فخرو کیا ہوا ہے تجھے؟‘‘ ’’اماں۔۔ ۔‘‘ اور فخرو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
’’نہ پُتر نہ۔ حوصلہ کرو۔ جانور ہے نا۔ سمجھ جائے گا۔‘‘
کالو خاں بھی وہاں آ گیا۔ ’’تم لوگ کیا کر رہے ہو یہاں؟‘‘
’’میں نے اسے پلنگ پر نہ پایا تو یہاں آ گئی۔‘‘
’’فخرو‘‘
’’چچا، نہیں کھایا کچھ۔‘‘
’’تو ہم کیا کریں، تمہارے ساتھ پاگل ہو جائیں۔‘‘ فخرو بلک بلک کر رو رہا تھا۔
’’فخرو، اب نکل آؤ۔‘‘ کالو خاں کا لہجہ کافی نرم تھا۔ ’’صبح سوچیں گے کہ کیا کرنا چاہیے۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘ ماں اور کالو خاں فخرو کو واپس لے آئے۔ فخرو برابر کروٹیں لیتا رہا۔
صبح کی اذان ہوئی تو فخرو اٹھ کر گدھے کے کمرے میں چلا گیا۔ کالو خاں نے اسے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے وہاں پہنچ گیا۔ ’’فخرو۔‘‘ فخرو نے بڑی مایوسی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ ماں بھی وہاں آ گئی تھی۔ ’’آپا، جلدی سے ناشتا تیار کر دو۔ ہم اسے لے جائیں گے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’جہاں سے فخرو اسے لایا تھا۔ اس کا اصل گھر تو وہ ہے نا۔ شاہ صاحب نے اسے امانت کے طور پر فخرو کے حوالے کیا تھا۔ بہت اُداس ہو گیا ہے۔‘‘
ماں چلی گئی۔ کالو خاں فخرو کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے آیا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد صبح کی سفیدی اندھیرے پر غالب آنے لگی تھی۔ کالو خاں نے فخرو سے کہا، ’’فخرو تانگا لے آؤ جا کر۔‘‘
تھوڑی دیر بعد تینوں نے بڑی مشکل سے گدھے کو تانگے میں لادا اور تانگا چلنے لگا۔
’’راستے کا علم ہے نا؟ بھول تو نہیں گئے؟‘‘ کالو خاں نے پوچھا۔ ’’نہیں بھولا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے۔‘‘
تانگا اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ وہ بزرگ جنہیں شاہ صاحب کہا جاتا تھا جب انہوں نے تانگے کی آواز سنی تو باہر آ گئے۔ اب صورت یہ ہوئی کہ کہاں تو گدھے کے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل اور کہاں یہ ہوا کہ وہ شاہ صاحب کو دیکھتے ہی تانگے سے کود پڑا۔
’’دیکھا فخرو۔‘‘ فخرو کے چہرے پر خوشی کی چمک نمایاں ہو گئی۔
تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب بولے:
’’یہ تم لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ اس کی حالت بگڑ گئی تو اسے یہاں لے آئے۔‘‘
’’جناب، کیا کہوں۔ اس کی حالت دیکھ کر فخرو کی حالت بھی بگڑ گئی تھی۔‘‘ کالو خاں نے فخرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شاہ صاحب کا ملازم شربت کا گلاس لے آیا۔ جب شربت پی چکے تو شاہ صاحب نے کالو خاں سے کہا:
’’اب مجھے وہ سب کچھ بتاؤ جو اب تک پیش آیا ہے۔‘‘
’’بہتر جناب۔‘‘
کالو خاں نے کہا اور وہ سارے واقعات بتانے لگا۔
٭٭٭