کالو خاں نے جب گھر میں پہنچ کر گدھے کو دالان والے کمرے میں بند کر دیا تو وہ اس قدر تھک چکا تھا کہ فوراً چارپائی پر لیٹ جانا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے فخرو کی ماں اس کے سامنے آئی جو باورچی خانے میں سے باہر آ رہی تھی۔ اس نے جو کالو خاں کو دیکھا تو بولی:
’’کالو خاں! گدھے کو لے کر کہاں چلے گئے تھے؟ کہاں چھوڑ آئے ہو اسے؟ اتنی دیر غائب کہاں رہے تھے؟‘‘
’’آپا! ایک دم اتنے سوال جڑ دیے ہیں۔ میری بات بھول گئی ہو کیا؟‘‘
’’اب کوئی اس طرح چُپ بھی کیسے رہے۔ وہ گدھا۔۔ ۔‘‘
’’وہیں ہے جہاں ہوتا تھا۔‘‘ کالو خاں نے اس کا فقرہ کاٹتے ہوئے کہا۔: ’’وہاں نہیں تھا۔‘‘
’’نہیں تھا۔ اب تو ہے نا۔ میں بڑا تھک گیا ہوں۔ ایک کپ چائے۔ بس اور کہنا سننا کچھ نہیں۔ کچھ مت پوچھو اس وقت۔‘‘ کالو خاں سونے کے کمرے میں چلا گیا۔
فخرو کی ماں کالو خاں کے لیے چائے بنانے کی خاطر دوبارہ باورچی خانے کی طرف جانے لگی کہ فخرو بھاگتا ہوا آیا اور بولا:
’’اماں! وہ کہاں ہے۔‘‘
’’کون بھئی؟‘‘
’’بادشاہ سلامت اور کون! چچا آ گئے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کہاں ہیں؟‘‘
’’یہیں ہے نا۔ پوچھ کیوں رہے ہو؟ چائے بناتی ہوں۔ لے جاؤ اس کے لیے۔‘‘
ماں باورچی خانے میں گئی تو وہ بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ ’’اماں۔۔ ۔‘‘
’’مت پوچھو مجھ سے کچھ۔ چائے بنانے دو۔‘‘
فخرو خاموش ہو گیا۔ ماں جیسے خود سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، ’’پتا نہیں اتنی دیر کہاں رہا ہے۔ کہاں لے گیا تھا اسے؟‘‘
فخرو یہ لفظ کیسے نہیں سن سکتا تھا۔ بولا، ’’اماں! پوچھا کیوں نہیں چچا سے؟‘‘
’’پھر سوال؟‘‘
’’اماں تم بھی بس وہ ہو۔‘‘
’’کیا ہوں میں؟‘‘
’’اماں ہو اور کیا ہو۔‘‘
ماں ہنس پڑی۔ چائے بن چکی تھی۔ ماں نے پیالی میں ڈالی۔
’’اُدھر ہے کمرے میں۔ سو گیا ہو تو جگانا نہیں۔‘‘
’’تو اماں! سوتے ہوئے کیسے چائے پیئے گا؟‘‘
’’فخرو! تم اُلو ہو۔ بھلے مانس اگر سو رہا ہو تو مت جگانا۔‘‘
’’اماں! آپ کا یہ اُلو بیٹا پوچھتا ہے کہ سوتے میں کیسے چائے پیئے گا۔ جگاؤں نہیں۔‘‘
ماں نے ماتھے پر ہاتھ مارا، ’’اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ چائے واپس لے آنا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ فخرو چائے کا کپ لے کر کمرے کے اندر گیا۔ کالو خاں سو رہا تھا۔ وہ اُس کے سرہانے کھڑا رہا۔ پھر واپس آ گیا۔
صبح ہوئی تو تینوں ناشتا کرنے لگے۔ اچانک دروازے پر دھک دھک کا شور ہونے لگا۔ ’’یہ کیا بھونچال آ گیا ہے۔‘‘ ماں بولی، ’’فخرو دیکھو تو جا کر۔‘‘
فخرو اُٹھا، باہر گیا اور جلد ہی واپس آ گیا:
’’اماں! رمضان خاں بہت سارے لوگوں کو لے کر آیا ہے۔‘‘
’’یا اللہ خیر!‘‘ خوف سے ماں کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ مگر کالو خاں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ مزے سے ناشتا کرتا رہا۔
’’کالو خاں، سنا نہیں تم نے۔ وہ لاؤ لشکر لے کر آیا ہے۔‘‘ ’’تو پھر کیا ہے؟‘‘
’’نہ جانے کیا کرے گا۔‘‘
’’آپا! ناشتا کرو آرام سے۔ فخرو! جاؤ کہہ دو میں آ رہا ہوں۔‘‘
فخرو جانے لگا۔ ماں بھی اُٹھی تو کالو خاں نے کہا، ’’آپا! تم بیٹھی رہو۔ میں اکیلے ہی جاؤں گا۔‘‘
’’ہائے میرے اللہ! اکیلے جاؤ گے؟‘‘
’’نہیں فوجی دستہ ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چائے دو آپا۔‘‘ ماں کا تو خوف سے بُرا حال تھا۔ کالو خاں نے خود ہی چائے بنائی اور پینے لگا۔
فخرو واپس آ گیا اور بولا، ’’کہتا ہے جلدی آؤ۔‘‘
’’سن لیا ہے۔‘‘ کالو خاں نے گھونٹ گھونٹ چائے پی اور پھر اُٹھ بیٹھا۔ پھر بولا:
’’میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ بولنا بالکل نہیں۔ سُن لیا؟‘‘
فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ ماں نے آہستہ سے کہا، ’’اللہ خیر کرے۔‘‘
کالو خاں دروازے کی طرف جانے کے بجائے دالان کے پچھلے حصے کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے سوال کیا کہ یہ کیا کر رہا ہے، مگر ان کے ہونٹ بند تھے۔ دو تین منٹ بعد کالو خاں گدھے کے ساتھ دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ ایک بار پھر ماں بیٹھے کی آنکھوں نے وہی سوال دُہرایا اور اب کے بھی ان کے ہونٹ خاموش رہے۔ کالو خاں نے دروازہ کھول دیا۔ ماں اور بیٹا اس طرح دروازے کی طرف قدم اٹھا رہے تھے جیسے ان پر جادو کر دیا ہو اور وہ اسی حالت میں چل رہے ہوں۔ کالو خاں گدھے کو لیے دروازے سے نکل گیا تھا اور وہ دونوں دروازے میں کھڑے تھے۔
’’کالو خاں ٬‘‘ رمضان خاں گرجا۔
کالو خاں نے اپنا دایاں ہاتھ بلند کیا:
’’کچھ کہنے سُننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے تم نے خریدا تھا، تمہارا ہے۔‘‘
’’اور کیا میرا ہے۔ سولہ آنے میرا ہے۔‘‘
’’تو لے جاؤ اسے۔‘‘ کالو خاں نے گدھے کی رسی رمضان خاں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ رمضان خاں نے رسی پکڑ لی۔ ’’بس معاملہ ختم؟‘‘ کالو خاں نے رمضان خاں سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
رمضان خاں نے اپنا سر آہستہ آہستہ ہلا دیا۔
جو لوگ رمضان خاں کے ساتھ آئے تھے وہ مایوس ہو گئے تھے۔ انہیں امید تھی کہ خوب ہنگامہ ہو گا۔ مزہ آئے گا مگر وہاں تو کچھ بھی نہ ہوا۔
فخرو اور اس کی ماں دروازے سے ہٹ گئے تھے۔ فخرو بِلک بِلک کر رو رہا تھا۔
’’یہ تم نے کیا کیا ہے؟‘‘ ماں نے غصے سے پوچھا۔
’’وہی جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔‘‘ کالو خاں نے بغیر کسی افسوس کے جواب دیا۔ فخرو زیادہ زور زور سے رونے لگا تھا۔
’’فخرو میرے پُتر! میرے اچھے بیٹے! گھبراؤ نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ کالو نے فخرو کو پیار کیا اور ماں سے کہا، ’’آپا! دُکان پر جا رہا ہوں۔‘‘ اور ذرا بھی رُکے بغیر چلا گیا۔
رمضان خاں گدھے کی رسی پکڑے فاتحانہ شان سے چلا جا رہا تھا۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے تھا۔ کوئی شخص ہجوم میں سے کسی سے پوچھتا کہ ہوا کیا ہے تو جواب ملتا:
’’تم نہیں جانتے؟ رمضان خاں نے گدھا فتح کیا ہے۔‘‘ اس پر قہقہے بلند ہو جاتے۔
اس شام رمضان خاں کے ہاں بڑی شاندار دعوت ہوئی۔ لوگوں میں مٹھائی بانٹی گئی۔ رات کو دیر تک قوالی ہوتی رہی۔ بارہ بجے رمضان خاں بڑی بُری طرح تھک کر پلنگ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ صبح سورج نکل چکا تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ اس کی بیوی ہاتھ میں لسی کا گلاس لیے اپنے پلنگ پر بیٹھی تھی۔
’’خدیجہ! تمہاری آنکھیں لال کیوں ہیں؟‘‘ رمضان خاں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ رات کو سوئی کہا تھی۔
’’کیوں؟ سوئی کیوں نہیں تھی؟‘‘
’’سوتی کیسے! ساری رات ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا ہے یہ تمہارا منحوس گدھا۔‘‘
’’ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا ہے، تو کیا وہ مرغے کی طرح ککڑوں کوں کرتا؟‘‘ یہ کہہ کر رمضان نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔
’’پر انور کے ابا! پہلے تو کبھی نہیں بولا تھا۔ اب اسے کیا ہو گیا ہے۔ بار بار ڈھینچوں، ڈھینچوں۔ میرے تو کان پک گئے ہیں سُن سُن کر۔‘‘ رمضان کاں نے بیوی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، ’’خدیجہ، بالکل معمولی بات ہے۔ نئے گھر میں آیا ہے نا۔‘‘
’’پہلے بھی تو یہاں آیا تھا۔ اس کے منھ کو تالا لگ گیا تھا۔ ہاں دو لتیاں ضرور جھاڑتا تھا۔‘‘
’’پیار کرو گی تو دو لتیاں بھی نہیں جھاڑے گا۔ پیار کرو اس سے پیار۔ بالکل ہِل جائے گا۔ چارا دیا ہے اسے؟ میں کل نہیں کہا تھا کہ اسے چارا تم خود دیا کرو گی۔‘‘
’’کہا تھا۔‘‘
’’تو یہاں بیٹھی لسی پی رہا ہو۔ اُدھر وہ بھوکا پیاسا پڑا ہو گا۔ کیسے اس گھر کو اپنا گھر اور تم لوگوں کو اپنے لوگ سمجھے گا؟‘‘
’’گھبراتے کیوں ہو؟‘‘
’’بات ہی گھبرانے کی ہے۔‘‘
’’وہ گیا ہوا ہے چارا لے کر۔‘‘
’’انور گیا ہوا ہے؟‘‘ رمضان خاں نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’تو جاؤ تم بھی۔ پیار کرو اس سے۔ پھر وہ ہم سب سے پیار کرنے لگے گا اور جب ایسا ہو جائے گا تو بیڑا پار ہو جائے گا۔‘‘
خدیجہ نے لسی کا گلاس خالی کر کے تپائی کے اوپر رکھ دیا۔ رمضان خاں اٹھا اور انگڑائی لے کر باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد خدیجہ نے انورا کہہ کر پکارا اور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ کئی منٹ گزر گئے مگر وہ نہ آیا۔ اب خدیجہ اٹھ بیٹھی۔ نلکے کے نیچے رمضان خاں مسواک کر رہا تھا۔ اس کی بیوی کمرے میں جا رہی تھی۔ ’’جا رہی ہو؟‘‘ رمضان خاں نے مسواک منھ سے نکال کر پوچھا۔ ’’ہاں۔‘‘
’’میری بات یاد رکھنا۔ خوب پیار کرنا۔ بالکل ہمارا ہو جائے۔‘‘
خدیجہ گدھے کے کمرے کے پاس پہنچی۔ اس کا بیٹا وہیں تھا اور گدھے کے چہرے کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’انور، کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’آ جاؤ اماں! اندر آ جاؤ۔‘‘ انور بولا۔
خدیجہ نے ڈرتے ڈرتے قدم رکھا۔ وہ آگے بڑھی اور آگے بڑھی۔ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ انور نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’اماں کیا کر رہی ہو؟ کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
انور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ خدیجہ گدھے کے بالکل قریب جا پہنچی، مگر گدھے کو ذرا بھی حرکت نہ ہوئی۔
’’بڑا بھلا مانس ہو گیا ہے اب تو۔ پہلے دیکھتے ہی دولتی مار دیتا تھا۔‘‘ خدیجہ کو گدھے کے دولتی نہ جھاڑنے پر کچھ حیرت ہوئی۔ زیادہ حیرت اس بنا پر ہوئی کہ انور گدھے کے چہرے کو اوپر اٹھا کر اسے غور سے دیکھنے لگا تھا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو؟ نیا چہرہ لگا کر تو نہیں آ گیا؟‘‘
’’نیا چہرہ کیوں لگائے گا۔ یہ اس کا اپنا ہی چہرہ ہے۔ پر اماں، یہ وہی؟‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
’’میں نے پوچھا ہے کہ یہ وہی ہے؟‘‘
’’تو اور کیا وہی نہیں ہے تو اور کون ہو گا!‘‘
’’اماں، میں نہیں مانتا۔ تم کہو گی کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ پر اماں، میں نے پہلے والے گدھے کے ماتھے پر ایک چمک سی دیکھی تھی جو یہاں نہیں ہے۔ دیکھو ذرا!‘‘
خدیجہ نے جھک کر گدھے کے ماتھے کو دیکھا۔ ’’ہے چمک؟‘‘ انور نے پوچھا۔
’’نہیں چمک ومک تو نہیں ہے۔‘‘
’’یہ کوئی اور گدھا ہے۔ وہ پہلے والا نہیں ہے۔‘‘
’’آؤ تمہارے باپ سے کہتے ہیں۔‘‘
خدیجہ اور انور رمضان خاں کی طرف جانے لگے۔ وہ غسل خانے اندر نہا رہا تھا۔ خدیجہ نے زور سے غسل خانے کے دروازے پر دستک دی۔
’’کون ہے؟‘‘ اندر سے رمضان خاں کی آواز آئی۔
’’جلدی نکلو انور کے ابا۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا ہے؟‘‘
’’باہر تو آؤ۔‘‘
رمضان خاں جلدی جلدی نہا کر غسل خانے سے باہر آ گیا۔ ’’ٹھیک طرح نہانے بھی نہیں دیا۔ کیا ہوا ہے؟‘‘ رمضان خاں نے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’پہچان کر لائے ہو گدھے کو؟‘‘
’’پہچان کر لایا ہوں۔ کیا وہ گدھے کے بجائے بکرا یا ریچھ ہے۔‘‘
’’گدھا ہے‘‘ انور بولا۔
’’تو پھر؟‘‘
’’ابا، یہ وہ گدھا نہیں ہے۔ کوئی اور ہے؟‘‘ ’’نہیں یہ وہی ہے۔‘‘
’’یہ وہ نہیں ہے۔‘‘ ’’میں بھی کہتی ہوں وہ نہیں ہے۔ وہ نہ تو ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا تھا اور دولتی مارے بغیر رہتا ہی نہیں تھا۔ یہ تو وہ ہے ہی نہیں۔‘‘
’’پاگل ہو گئے ہو تم دونوں۔‘‘
اور رمضان خاں گدھے والے کمرے کی طرف جانے لگا۔ کمرے کا دروازہ کھُلا تھا اور دالان والا کمرا بھی کھُلا تھا۔ گدھا نہیں تھا۔
’’بھاگ گیا ابا۔‘‘
’’بھاگو اس کے پیچھے پکڑ کر لاؤ۔‘‘
انور بھاگ گیا اور رمضان خاں بیوی کے ساتھ دالان سے ہو کر باہر سڑک پر آ گیا۔ کچھ دور انور بھاگا جا رہا تھا۔ رمضان خاں بھی گھر سے نکل بھاگا۔ لحیم و شحیم آدمی، تھوڑی ہی دیر بعد پسینے میں تر بتر ہو گیا۔ ایک جگہ وہ ذرا رُکا۔ سائیکلوں والی دکان پر ایک لڑکا سائیکل میں ہوا بھروا رہا تھا۔ کانپتے ہوئے رمضان خاں نے لڑکے سے کہا، ’’گدھا۔‘‘
پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے وہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ لڑکا سمجھا اس نے گدھا کہا ہے۔ غصے سے بولا، ’’گدھے تم ہو، تمہارا باپ ہے۔‘‘
’’میں کہتا ہوں گدھا۔‘‘ رمضان خاں اب کے بھی فقرہ مکمل نہ کر سکا۔
’’کیا گدھا گدھا لگا رکھی ہے۔ کیا کیا ہے میں نے؟‘‘ لڑکا غصے میں آ گیا۔ لوگ جمع ہو گئے۔
لڑکے کو سمجھایا، ’’بزرگ ہے صبر سے کام لو۔‘‘
’’مگر اس نے مجھے گدھا کیوں کہا ہے؟‘‘ لڑکے نے فوراً کہا۔
رمضان خاں کی سانس کسی حد تک درست ہو گئی تھی۔ کہنے لگا، ’’میرا گدھا۔۔ ۔ بھا۔۔ ۔ بھاگ۔۔ ۔ گیا ہے۔‘‘
’’تو یوں کہو نا۔‘‘ لڑکا بولا۔ سب ہنس پڑے اور رمضان آگے جانے لگا۔ مگر گدھا کہیں نہ ملا۔ گھر کے سب لوگ اسے ڈھونڈ چکے تھے۔ مگر وہ نہ ملا۔
٭٭٭