علّامہ نظمؔ طباطبائ نے غالبؔ کے دو ا شعار
آتا ہے میرے قتل کو ،پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
اور لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چنداس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
کی شرح کے ذیل میں مصرع لگانے کے فن پر الگ الگ بہت تفصیلی گفتگو فرمائی ہے ۔ اس کی افادیت کے پیشِ نظران دونوں مضامین کویکجا کر کے یہاں ایک مستقل مقالے کی حیثیت سے نقل کیا جا رہا ہے۔۔۔ ذکا صدّیقی)
ارشادات طباطبائی
آتا ہے میرے قتل کو ، پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
دوسرا مصرع اس مضمون کو مانگتا ہے کہ وہ اس ادا سے میرے قتل کو آتا ہے کہ میں مرتا ہوں۔۔۔ الخ (غالبؔ ) مرحوم نے معنیِ رشک کے اتنے پہلو نکالے ہیں کہ ان کی تعریف حدِّ امکان سے باہر ہے۔ لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی مطلب کو بار بار کہوتو اس میں افراط و تفریط ہو جاتی ہے۔ اس غزل کے دو شعر اس سبب سے سست رہے۔ ایک تو یہ شعر کہ معشوق کے ہاتھ میں تلوار کو دیکھ کر تلوار پر رشک آتا ہے ، دوسرے عاشق کے طوطی پالنے سے معشوق کو طوطی پر رشک آنا۔ شعر یہ ہے
کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
دونوں امر غیر عادی ہیں اور بے لطف ہیں اور اسی سبب سے یہاں مصرع نے ربط نہیں کھایا۔ اس بات کو بہ وجہِ بصیرت سمجھنے کے لیے یہ سن لینا چاہیے کہ شعر الٹا کہا جاتا ہے یعنی پہلے شاعر کا یہ کام ہوتا ہے کہ قافیہ تجویز کرے جو کہ آخرِ شعر میں ہوتا ہے ، دوسری فکر یہ ہوتی ہے کہ جس قافیے کو تجویز کیا ہے اسے دیکھے کہ یہ کسی صفت کے ساتھ؛ یا کسی مضاف کے ساتھ ؛ یا کسی اور قید کے ساتھ ؛ یا کسی اور محاورے کے ساتھ ؛ یا اپنے کسی عامل کے ساتھ؛ یا معمول کے ساتھ مل کر ایک مصرع ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر نہ ہوا تو کوئی لفظ گھٹا بڑھا کر یا مقدم موخر کر کے اسے پورا کرے۔ یہ دوسرا مصرع ہوا۔ مثلاً اسی زمین میں جب مصنف نے دیدار دیکھ کر ، آزار دیکھ کر نظم کر لیا تو پہلے یہ تجویز کیا کہ’ تلوار دیکھ کر‘ کہنا چاہیے۔ دوسری فکر میں تلوار کے ساتھ یہ قید لگائی کہ ’ اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ‘ اور مصرع کے پورا کرنے کے لیے ’ مرتا ہوں ‘ بڑھایا تو پہلے یہ دوسرا مصرع موزوں ہوا ؛ مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر۔ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد تیسری فکر میں اس بات کے وجوہ سوچے کہ اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر کیوں مرتا ہوں۔ یہاں مصنف نے اس توجیہ کو اختیار کیا کہ جوشِ رشک سے مرتا ہوں اور پہلے مصرع میں ’ جوشِ رشک سے ‘ ایسا لفظ ہیکہ اگر آخرِ مصرع میں نہ ہوتا تو کسی طرح یہ لفظ اپنے فعل سے مرتبط نہ ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ پہلے مصرع کا یہ آخری ٹکڑا پہلے معیّن کر کے صدر مصرع اس پر بڑھایا اور شعر کو تمام کیا ہے۔ اور جو شعر کی ابتدا ہے وہی فکر کا منتہیٰ ہے اور حرکاتِ فکر کے منازل میں سے بڑی منزل یہی ہے کہ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اس پر مصرع ایسا لگائے کہ وہ مرتبط ہو جائے اور دست و گریبان کا حکم پیدا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ معشوق کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھ کر اس چیز پر رشک کرنا عادت کے خلاف ہے ، محض تصنع ہے اور نا مربوط ہے۔
اتنالکھنا اور یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمین میں ووسرے مصرع کا نظم کر لینا آسان ہے ، مثلًا اسی زمین میں ، ’تلوار دیکھ کر‘ تقریباً آدھے مصرع کے برابر ہے۔ جو صاحبِ طبعِ موزوں ہے وہ کچھ الفاظ بڑھا کر اسے پورا کر سکتا ہے اور جو الفاظ کہ بڑھائے جائیں گے وہ بھی گویا کہ معیّن ہیں یعنی اکثر وہی پہلو شعرا اختیار کرتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔ قافیے کی صفت، اضافت ، قید، عامل یا معمول فعل وغیرہ مثلاً کھینچی ہوئی تلوار دیکھ کر ، یا اوپی ہوئی تلوار دیکھ کر ، یا ہلال سی تلوارر دیکھ کر ، یا حلق پہ تلوار دیکھ کر ، یا ترک کی تلوار دیکھ کر ، یا اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ، یا دانت سے تلوار دیکھ کر۔۔۔غرض کہ دوسرا مصرع کہنے میں شاعر مجبور ہے کہ قافیہ و ردیف کے متعلقات کو پورا کرے اور اس مصرع کے کہنے میں بس یہی خوبی ہے کہ ایسے پہلو تلاش کرے کہ توارد نہ ہونے پائے اور مصرع لڑ نہ جائے۔ ہاں ، دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اس پر مصرع لگانا بڑے وسیع میدان کا طے کرنا ہے جس میں صدہا راہیں ہیں۔ اور مصرع لگانے کی مشق کا بہت مفید و آسان طریق یہ ہے کہ کسی شاعرِ خوشگوار کا دیوان کھولے تو داہنے ہاتھ کی طرف سب اوپر کے مصرع ہوں گے اوربائیں طرف سب نیچے کے مصرع ہوں گے۔ اوپر کے مصرعوں کو کسی کاغذ سے چھپا دینا چاہیے اور نیچے کے ہر ہر مصرع پر یہ فکر کرے کہ اس کے ساتھ کون سا مضمون ربط کھاتا ہے۔ جب مضمون ذہن میں آجائے تو کاغذ سرکا کر دیکھے کہ شاعرنے کیا کہا ہے۔ غرض کہ شعر کا سحر ہو جانا اور شاعر کا ماہر ثابت ہونا اکثر مصرع لگانے پر موقوف اور منحصر ہے میر تقی میرؔ، مصحفیؔ کو کہا کرتے تھے کہ یہ صحاف ہیں ، لیئ لگا کرمصرع کو چپکا دیا کرتے ہیں یعنی مصرع اچھا لگانا نہیں جانتے۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ایسی باتیں بہت سی ہو سکتی ہیں جس کے سبب سے ہاتھ قلم ہوں۔ اس مقام پرغزل کہنے والے کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اتنے پہلوؤں میں سے کس پہلو کو اختیار کرے۔ اس لیے کہ قصیدہ و مثنوی وغیرہ میں غرض شاعر کی معین ہوتی ہے اور جو پہلو اس غرض کے مناسب ہوتا ہے ایسے مقام پر وہ اسی کو اختیار کرتے ہیں غزل میں کچھ تعیین نہیں۔ ایک شعر کو دوسرے شعر سے تعلق نہیں۔ ہر شعر خود جملۂ تامّہ ہے اور ایک کلام مفید ہے۔ غزل کی وضع اس واسطے ہے کہ ہر ہر قافیہ ردیف کے ساتھ جس طرح ربط کھائے اسی طرح اسے ربط دو۔ یعنی قافیہ و ردیف جس مضمون کی طرف لے جائے اس طرف جاؤ۔ کسی شعر میں معاملۂ عاشقانہ ہے ، کسی میں مضمونِصوفیانہ ، کہیں ترانۂ رندانہ، اس میں ذکر صراحی و قلقل ، اس میں سوزِ پروانہ و شورِ بلبل ، پھر ایک شعر میں خبر ہے۔ دوسرے میں انشا۔ غرض کہ اس صورت میں شاعر نے یہ قصد کیا کہ ’ قلم ہوئے‘ باندھنا چاہیے۔ یعنی قافیہ ’ قلم کو ہوئے کے ساتھ کیونکر ربط ہو اور ’ قلم ہوئے ‘ کا فاعل کسے بنائیں۔ محاورے کو خیال کیا تو درخت قلم ہوئے اور ہاتھ قلم ہوئے بولتے ہیں۔ یہاں مصنف نے دوسرا پہلو اختیار کیا اور یہ مصرع کہا : ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔
اب جو دیکھا تو ہاتھ سے صدہا فعل سر زد ہوتے ہیں۔ ان میں سے مصنف نے لکھنے کو اختیار کیا اس لیے کہ قلم کا ضلع نہ جانے پائے اور ایسے مقام پر جہاں بہت سے مضمون ربط کھاتے ہوں شاعر ضلع بولنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جب دوسرے مضمونوں میں کوئی معنی حسن کا بڑھا ہو ا نہیں ہے تو جس مضمون میں لفظی مناسبت ہو اسے کیوں چھوڑے۔ اس سبب سے کہ شاعر کی طبیعت میں تناسبِ موسیقی فطری ہوتا ہے۔ اس سے ترجیح بلا مرجّح ہونا محال ہے اور اتنا ہی ضلع خیال رکھنا حسنِ کلام ہے کہ دو مصرعوں میں یا فقروں میں ربط پیدا ہو جائے۔ اس سے زیادہ حرص کرنا معنی کو خراب کرتا ہے۔ علماے ادب کی ایک وصیت مشہور چلی آتی ہے کہ معنی شاہدِ کلام کی جان ہے ، اور محاورہ اس کا جسمِ نازنیں ہے ، اور گہنا اس کا بیان و بدیع ہے۔ تو جو شاعر کہ معانی کو خلق نہیں کر سکتا۔ فقط بیان و بدیع کے گڑھنے کی مشق کیا کرتا ہے ، وہ بازارِ ادب میں سنار کا کام سیکھتا ہے۔ اگر کہیں صنایع و بدایع و مناسبات کے پیچھے محاورہ بگڑ گیا تو گہنا کریہہ منظر و بد صورت عورت کے گلے میں ہے۔ اور اگر ان تکلفات کے چلتے معنی ہی گئے گذرے تو وہ زیور جسمِ بے جان میں ہے۔ بر خلاف اس کے معانیِ لطیف محاورۂ سلیس میں اگر ادا ہو گئے، گو تشبیہ و استعارہ صنعتِ لفظی و معنوی کچھ بھی نہ ہو تو وہ ایک حسین نازنین ہے جس کی سادگی میں بھی ہزاروں بناؤ نکلتے ہیں اور یہ شخص محشرستانِ معانی کا خدا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے کسی قدر اپنے طرز کے خلاف کیا کہ ضلع کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس لیے کہ یہاں بعض معانی ایسے چسپاں ہیں کہ لفظ کے لیے تناسبِ لفظی ڈھونڈھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہاتھ کا استعارہ شاخ کے (لیے )سامنے کا مضمون تھا۔
اور ضلع کے پہلو سے جو لوگ کراہیت رکھتے ہیں اور اسے صنعتِ مبتذل سمجھتے ہیں وہ اکثر ضلع کو چھوڑ کر ایسے مقام پر استعارہ و تشبیہ کے پہلو کو اختیار کرتے ہیں کہ یہ اس سے بہتر ہے۔ مگر مصنف نے خلافِ عادت یہاں اس پہلو کو بھی ترک کیا ور ضلع کو بھی اگر دیکھیے تو لکھنے کا بھی قلم ہوتا ہے ، مہندی کی بھی قلم ہوتی ہے ، گلاب کی قلم، اور شراب کی قلم ، اور رخسار کی قلمیں اور پھر ہاتھ قلم ہونا دو معنی رکھتا ہے۔ ایک قطع ہونا ، دوسرے یہ کہ دیوانہ وار انگلی سے خاک پر جو کوئی کچھ لکھے اس کے ہاتھ بھی قلم ہوئے۔ ان سب پہلوؤں کا مصرع مصنف کے ساتھ دیکھا
( استدراک :حضرتِ بیخودؔ دہلوی کا تبصرہ ان مصرعوں پر: ’ ایک شارح صاحب (مراد ہیں علّامہ نظم طباطبائی )نے میرزاؔ کے اس مصرعِ ثانی پر اپنی جودتِ طبع دکھانے کے لیے سترہ مصرعے لگائے ہیں مگر اس ہیچ مداں کی رائے میں میرزاؔ کا مصرعِ اولیٰ سب پر سبقت حاصل کیے ہوئے ہے۔۔۔ مرآۃ الغالب ، ص ۲۵۳ )ؔ
ابتداے مشق کا ذکر ہے کہ سید باقر صاحب ایک شخص تھے ، انھوں نے یہ مصرع :۔۔۔’’کہ پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں ‘‘ طرح کا دیا۔ پھر خود ہی اس پر مصرع لگایا
حنا نے گھُٹ کے کیا ناخنوں کا دونا حسن
کہ پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں
مایلؔ نے ان کا مصرع اور ادّعاے تفرد کا ذکر سن کر یہ مصرع لگایا
بلائیں رات کو پیہم جو لی ہیں ابرو کی
تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں
ایک دوست نے مجھ سے بھی فرمایش کی اور میں نے یہ مصرع لگایا
لکھا جو کرتا ہوں میں ان کے ناخنوں کی ثنا
تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں
لکھنؤ میں ایک دفعہ یہ مصرع:
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
۔ شعرا کے مطرحِ نظر تھا۔ ایک صاحب نے یہ مصرع لگایا
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
کسی نے یہ مصرع لگایا
میں ہوں مشتاقِ سخن اور اس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
میں نے بھی مصرعے لگائے تھے
میر انیسؔ مرحوم کے سامنے ایک صا حب نے یہ مصرع پڑھا:
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی ، میر صاحب نے مصرع لگایا
عرقِ گل ہے مناسب اسے دینا صیّاد
چیختے چیختے بلبل کی زبان سوکھ گئی
اس کا چرچا لکھنؤ میں ہوا۔ اکثر لوگوں نے طبع آزمائی کی۔ مجھے اپنا مصرع یاد ہے
خار کو گل کے قریں دیکھ کے میں یہ سمجھا
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
مٹیا برج میں ایک دفعہ صحبتِ ا حباب میں میرا گذر ہوا۔ ایک صاحب نے فرمایش کی کہ اس پر مصرع لگاؤ:
جھومتی قبلے سے گھنگھور گھٹا آتی ہے۔۔۔
بیٹھے بیٹھے میرے خیال میں یہ مصرع آگیا
لطف جب ہے کہ برسنے لگے مے خانے پر
جھومتی قبلے سے گھنگھور گھٹا آتی ہے
اس کے بعد میں نے فکر کی تو ایک مصرع اور ذہن میں آ گیا
کیا عجب ہے کہ صراحی بھی کرے سجدۂ شکر
جھومتی قبلے سے گھنگھور گھٹا آتی ہے
ایک صاحب سلام کی فکر میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے میں نے ایک مصرع کہا ہے :ع
وہ اک زمانے کی آنکھوں میں ہیں سمائے ہوئے
میں نے یہ مصرع لگا دیا
نہیں ضریح کے محتاج بیکسوں کے مزار
وہ اک زمانے کی آنکھوں میں ہیں سماے ہوئے
کہنے لگے : تم نے میرا مصرع چھین لیا۔
یہاں حیدر آباد میں بندگانِ عالی خلد اللہ ملکہ کا ایک مصرع .۔۔۔ ہزار بار بلایا تو ایک بار آیا
ایک دوست نے میرے سامنے پڑھا۔ میں نے یہ مصرع لگایا
یہ ناز تھا ملک الموت کو بھی ہجر کی رات
ہزار با ر بلایا تو ایک با ر آیا
یہ نقل مشہور ہے کہ لکھنؤ کے ایک شیخ زادے جو اُمرا میں سے تھے ، مرزا رفیع سوداؔ سے بر سبیلِ امتحان طالب ہوئے کہ اس مصرع پر مصرع لگادیں : اے سنگ ،نازکی میں توکامل نہ ہو سکا۔ سوداؔ نے یہ مصرع لگایا
شیشہ گداز ہو کے بنا ، دل نہ ہو سکا
اے سنگ، نازکی میں تو کامل نہ ہو سکا
اور یہ نقل بھی ان کی طرف منسوب ہے کہ کسی نے یہ مصرع : اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے ترے ہاتھ
سوداؔ کے سامنے پڑھا۔ انھوں نے یہ مصرع : لیلیٰ اتنا تو نہ تھا پردۂ محمل بھاری۔۔۔۔لگایا۔
اس میں شک نہیں کہ مصرع لگانا بڑا فن ہے اور مشقِ شعرا کا بڑا ذریعہ ہے۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ کا طرزِ سخن مصرع لگانے ہی پر منحصر ہے اور لکھنؤکے شعرا کو انھیں نے اس طرف مایل کیا۔ ورنہ اکثر لوگ موزوں طبع غزل کہہ لیا کرتے تھے مگر مصرعوں کے نا مربوط و دو لخت ہونے سے بے خبر رہتے تھے۔ خدا بخشے آغا حجو شرفؔ کو، وہ ذکر کرتے تھے کہ میر وزیر علی صباؔ ایک غزل استاد کو دکھانے لائے۔ میں بھی اس وقت موجود تھا۔ ایک شعر صباؔ نے پڑھا
فصلِ گل میں مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اڑاتا تھا نہ صیّاد کبھی
آتشؔ نے یہ شعر سن کر کہا کہ بے پر کی اڑانا تم نے باندھ لیا اور مصرع لگانے میں اس کا خیال نہ رکھا ، یوں لکھ لو
پر کتر کر مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اڑاتا تھا نہ صیّاد کبھی
( استدراک :۔ پروفیسر محمد سجاد مرزا بیگ نے اس نقل پریہ تبصرہ کیا ہے : ’ اب ذرا دیکھو شیخ حجو شرفؔ ، وزیر علی صبا ؔ اور خود خواجہ صاحب سب ہی تو محاورے کے معنوں سے ناواقف تھے۔ ’ بے پر کی اڑانا ‘ بے اصل بات کہنے ، گپ اڑانے کو کہتے ہیں ، لیکن پہلے مصرع میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ پر کتر کر بے پر بنا دیا۔ شعر با معنی رہے یا بے معنی ہو جائے ‘۔۔۔تسہیل البلاغت ، ص ۲۰۲)
لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ بعض طبیعتیں جودتِ خدا داد رکھتی ہیں۔وہ ایک ہی دفعہ سارا شعر کہہ لیتے ہیں اور دونوں مصرع مربوط و دست و گریبان ہوتے ہیں۔ جن کو خدا نے یہ وصف عطا کیا ہے انھیں اس طرح مشق کرنے کی ضرورت بہت کم ہے اور جو شعر دونوں مصرعوں سمیت ایک ہی دفعہ ٹھیک پڑتا ہے اس میں آمد کی شان اور بے تکلفیِ بیان ایسی ہوتی ہے کہ وہ بات ہرگز فکر کر کے مصرع لگانے میں نہیں حاصل ہوتی۔