صرف ۱ُن چند اصطلاحات کامختصر تعارف جو تشریح کے دورانمیں استعمال ہوئی ہیں
قافیہ:
اصطلاحِ شاعری میں ایسے کلمات ایک دوسرے کا قافیہ کہلاتے ہیں جو متشابہ الاواخر ہیں ، جیسے: در اور بر ؛ چبانا اور دبانا ؛ کھولنا اور بولنا ؛ سردی اور زردی۔ جبر کا قافیہ صبر ہوگا لیکن فخر اور بکر نہیں ہوگا کیونکہ تشابہ مفقود ہے۔
حرفِ روی:
قافیوں کا دارو مدار جس حرف پر ہوتا ہے اسے ’روی‘ کہتے ہیں۔ در اور بر میں ’ ر ‘ جوقافیے کے آخر حروف ہیں ، حروفِ اصلی ہیں ، اور مکرر آتے ہیں۔یہ ’ ر ‘ حرفِ روی ہوئی۔ اسی طرح چبانا اور دبانا میں ’ انا‘ توزائد حروف ہیں لیکن چب اور دب کی ’ ب ‘ حرفِ روی ہے۔ کھولنا اور بولنا میں ’ نا ‘ حروفِ زائدہ اور ’ لام ‘ حرفِ روی ہے۔
قافیۂ معمولہ:
بوستان اور ہندوستان میں ’ واو ‘ حرفِ روی ہے ،ما بعدِ روی چار حروف زائد ہیں۔ لیکن بوستاں کے ساتھ دوستاں کا قافیہ درست نہیں ہوگا۔ اسے قافیۂ معمولہ کہتے ہیں کیونکہ بوستاں میں ’ واو ‘ اور دوستاں میں ’ ت ‘ روی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تکرارِ روی میں خلل آگیا ، اور اسے عیوبِ قافیہ میں شمار کرتے ہیں۔قافیۂ معمولہ کی دو قسمیں ہیں :۔
(۱)قافیۂ معمولہ ترکیبی:
ایک کلمے کے ساتھ دوسرا کلمہ بڑھا کر قافیہ بنانا۔ مثلاً پروانہ ہوا ، دیوانہ ہوا کے ساتھ اچھانہ ہوا۔
(۲) قافیۂ معمولہ تحلیلی:
ایک لفظ کے دو ٹکڑے کریں ، پہلے کو داخلِ قافیہ کریں اور دوسرے کو ردیف میں شامل کر دیں ،مثلاً
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی ، یہ گھٹا دو دن تو برسے
۔۔۔ڈر سے اور برسے قافیۂ معمولہ تحلیلی ہیں۔
توجیہ:
حرفِ روی سے پہلے جو حرکت (زیر ، زبر یا پیش )ہوتی ہے اسے توجیہ کہتے ہیں۔اس حرکت کا اختلاف ناجائز ہے ، اسی کو اختلافِ توجیہ کہتے ہیں ،۔نیز اسی عیب کو اقوا بھی کہتے ہیں۔ مثالیں : دِل کا قافیہ گُل، طُول کا قافیہ ہَول ، دَشت کا قافیہ زِشت وغیرہ۔
ایطا:
ہم جان چکے ہیں کہ روی حروفِ اصلی کا آخر ، اور زائد حروف سے پہلے ہوتا ہے۔ چنانچہ ’ حاصلات ‘ اور ’واقعات‘ میں سے زائد حروف ،یعنی( ’ات ‘ )نکال دیں تو ’ حاصل‘ اور ’ واقع ‘ باقی رہتے ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ قافیہ نہیں ہیں۔اسی کو ایطا کہتے ہیں۔ اس کے بر خلاف ’حاصلات‘ اور ’فاضلات ‘ میں ’ل ‘ روی ہے۔ زوائد کو حذف کرنے کے بعد حاصل اور فاضل باقی رہتے ہیں اور یہ قافیہ ہیں ، اس لیے اس میں ایطانہیں ہے۔
ایطا کی دو قسمیں ہیں :۔
(۱) ایطاے خفی: جب متحد المعنی کلمۂ آخر کی تکرار بظاہر معلوم نہ ہو تو وہ ایطاے خفی ہے۔ جیسے: دانا اور بینا ، حیراں اور سر گرداں ، آب اور گلاب۔
(۲) ایطاے جلی: جب متحد المعنی کلمۂ آخر کی تکرار صاف ظاہر ہو تو وہ ایطاے جلی ہے۔ جیسے: درد مند اور حاجت مند میں کلمۂ ’ مند ‘ یا جانا اور رونا میں کلمۂ ’ نا ‘ یا ستمگر اور دادگر میں ’ گر ‘۔ اگر ان آخری کلمات کو الگ کر دیں تو قافیہ باقی نہیں رہتا۔زائد حروف کو اصلی حروف کے ساتھ قافیہ کرنا ہی قافیۂ شائگاں ہے۔ دیگر مثالیں : دلیران اور مردمان کو جان اور زمان کے ساتھ قافیہ کرنا ؛ آہنین اور رنگین کو نسرین اور چین کے ساتھ قافیہ کرنا ، وغیرہ۔
ردیف۔:
اصطلاحِ شاعری میں وہ کلمۂ مستقل ردیف کہلاتا ہے جو آخرِ مصرع میں قافیے کے بعد آتا ہے۔ردیف کا ایک ہی معنی میں مستقل لفظ کی حیثیت سے ہونا ضروری ہے ورنہ اس پر قافیے کا اطلاق ہوجائے گا۔تاہم صرف تکرارِ لفظی ضروری ہے ، تکرارِ معنی لازم نہیں مثلاً غالبؔ کے یہ دو شعر دیکھیے:
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِجاوداں کے لیے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا ، مری جو شامت آے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
دونوں شعروں میں ردیف دو مختلف معنوں میں آئی ہے۔
شعر میں ردیف کا لانا ضروری نہیں ، لیکن قافیے کا ہونا ضروری ہے۔گویا قافیہ رکنِ شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے۔ فارسی اور اردو میں ردیف تال اور سَم کا کام دیتی ہے۔ جس طرح راگ میں تال نہ ہو تو بد مزہ ہے ، یہی حالت اردو شعر کی ہے۔ البتہ ردیف کے التزام کے لیے بہت بڑا قادر الکلام ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ردیف کے التزام کے ساتھ آمد اور بے ساختگی قائم نہیں رہتی ، لیکن اگر یہ خوبی ہاتھ سے نہ جانے پائے تو ردیف سے شعر چمک جاتا ہے۔
مندرجۂ بالا معلومات اِن کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں :۔
تلخیصِ عروض و قافیہ مؤلفۂ علّامہ نظم طباطبائی
جانِ سخن مؤلفہ مولوی سید غضنفر حسین عروجؔ بھرتپوری
میزانِ سخن مؤلفۂ حمیدؔ عظیم آبادی
موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ مؤلفۂ مولانا شبلی نعمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔