گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
یہ وزن مانوس اوزان میں سے نہیں ہے۔ اس وجہ سے کاتب نے اپنے وزنِ مانوس کی طرف پہلے مصرع کو کھینچ لیا ہے۔ اور سب نسخوں میں ’ تری ‘ بغیر ’ یا ‘ چھپا ہوا ہے ، لیکن اس میں قباحت ہے کہ دوسرا رکن فاعلاتُ ہونا چاہیے تھا۔ اس کی جگہ پر مفتعلن ہو جاتا ہے۔ تو ضرور ہے کہ’ تیری ‘ کہا ہوگا مصنف نے ، اور اس صورت میں و ز ن مستقیم رہتا ہے کہ ’ تیری ‘ میں سے آخر کی ’ ی ‘ کو گرا دیں اور درمیان کی ’ ی ‘ باقی رکھیں۔
( استدراک :۔ ’ بحر کا نام ہے منسرح مطوی منحور۔ ’ چراغِ سخن ‘ میں زحافِ نحر کا ذکر ہے۔ یہ اصطلاح ’ میزان الافکار ‘ اور ’ حدایق البلاغت ‘میں نہیں ملی۔ مگر بات صحیح ہے۔ دوسروں نے کچھ اور نام رکھا ہے۔ اس بحر کی اصل دایرے میں مستفعلن مفعولات چار بار ہے۔ مستفعلن زحافِ طی سے مفتعلن ہو گیا اور مفعولات زحافِ نحر سے فع رہ گیا۔ اس طرح وزن مفتعلن فع پیدا ہوا۔ اس کا نام ہوا بحر منسرح مطوی منحور،غالبؔ کے مصرع :گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو ‘ پرنظمؔطباطبائی نے اپنی شرح میں مفصل نوٹ لکھا ہے۔۔۔۔ مطلب ان کا یہ ہے کہ دوسرے رکن میں فاعلات ُپیدا کرنے کے لیے ’ تیری ‘ کی آخری ’ ی ‘ گرا کر ’ تے رِ ‘ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اس طرح تقطیع کرو۔گری ن کا۔۔۔۔۔۔۔۔! مفتعلن۔ لے ہ تے رِ ! فاعلاتُ ۔ بزم سے مجھ ! مفتعلن۔ کو ! فع’ تیری ‘ پڑھنے سے جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ ’ مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع ، منسرح کا وزن نہیں ہے۔ یہ سب ارکان رجز کے ہو جاتے ہیں۔ یہ وزن مانوس ہے ، خوش آیند ہے ، غلط نہیں معلوم ہوتا۔ مگر قباحت یہ ہے کہ ساری غزل تو بحرِ منسرح میں ہے اور اسی کا ایک مصرع بحرِ رجز میں ‘۔ (حبیب الرحمٰن الصدّیقی میرٹھی ، ’ مکاتیبِ حبیب ‘ ، مکتوب بنام ذکاؔ صدّیقی ،ص ۸۴)
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لکھنؤ اور دہلی کی زبان میں جو بعض الفاظ میں فرق ہے ان میں سے ’ تیوری ‘ کا لفظ بھی ہے۔ مصنف نے زبانِ دہلی کے موافق اسے موزوں کیا ہے اور لکھنؤ میں ’ ی ‘ کو ظاہر نہیں کرتے۔ یعنی دہلی میں ’تیوری ‘ فاعلن کے وزن پر ہے اور لکھنؤ کی زبان میں فعلن کے وزن پر ہے۔
دی سادگی سے جان ، پڑوں کوہکن کے پانو
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پانو
کسی کی مصیبت پر جوشِ محبت میں کہتے ہیں کہ : ہے ہے ، میں اس کے پاؤں پڑوں۔ اور یہ بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور التجا کے لیے تو پاؤں پڑنا مشہور بات ہے۔ اس شعر میں مرزا صاحبؔ ہیہات کا لفظ ضلع کا بول گئے ہیں مگر کیا کرتے ، مصرع میں ایک رکن کم پڑتا تھا۔
بتا ؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو تو کیونکر ہو
اردو کے مذاق میں مژہ کی ’ ہ ‘ کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے۔ مصنف نے یہاں فارسی گویوں کا اتباع کیا ہے اس شعر میں نہایت تعقید ہے۔ اس کو نثر میں یوں کہیں گے کہ اس کی مژہ دیکھ کر یہ بتاؤ کہ ایسے نشتر رگِ جاں میں فرو ہوں تو قرار مجھ کوکیونکرہو۔
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
’ خاموشی ‘ کی ’ ی ‘ وزن میں نہیں سماتی۔ اس سے مصنف کا یہ مذہب ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کے بھی آخر میں سے نظمِ اردو میں حروفِ علّت کا گر جانا وہ جایز سمجھتے تھے۔ مگر سارے دیوان بھر میں ’’الف‘‘ کو یا ’’واو‘‘ کو مصنف نے لفظ فارسی سے نہیں گرنے دیا ہے۔
ہے وصل ہجر ، عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے
اگر اس(دوسرے )مصرع کو دونوں اضافتیں چھوڑ کر پڑھیں تو مصرع جب بھی موزوں رہے گا، یعنی ’’فاعلاتُ مفاعیل‘‘ کی جگہ ’’ فاعلاتن مفعول ‘‘ آ جائے گا۔
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
’ سی ‘ معنیِ تشبیہ کے لیے ہے یعنی تو تشبیہِ جسمانیات سے منزّہ ہے۔ سی کی ’ ی ‘ جس جگہ واقع ہوئی ہے یہ مقام حر فِ متحرک کا ہے، یعنی مفعولُ مفاعلن فعولن میں مفاعلن کے میم کی جگہ ’ ی ‘ واقع ہوئی ہے۔ او ر ’ ی ‘ ساکن ہے۔ تو گویا کہ مفاعلن کے میم کو مصنف نے ساکن کر لیا ہے۔ یعنی مفعولُ مفاعلن کے بدلے مفعولم فاعلن اب ہو گیا ہے جسے مفعولن فاعلن سمجھنا چاہیے۔ یہ زحاف گو اردو فارسی میں نا مانوس معلوم ہوتا ہے مگر سب لایا کرتے ہیں۔ نسیمؔ لکھنوی کی مثنوی اسی وزن میں ہے اور جا بجااس زحاف کو لائے ہیں۔
شاد دل شاد ، و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو
رکھنا کے مقام پر رکھیو ابھی تک محاورے میں جاری ہے بلکہ فصحا کی زبان ہے۔ مونس ؔ کہتے ہیں
دیجو نہ سرکشوں کو ا ماں ،اے دلاورو
ا عدا سے چھین لیجو نشاں اے دلاورو
جیتے نہ پھریو ، صدقے ہو ماں اے دلاورو
جانوں پہ کھیل جائیو ہاں اے دلاورو
میری تمھیں میں جان ہے گو بے حواس ہوں
تم مڑ کے دیکھ لو کہ میں پردے کے پاس ہوں
پانچویں مصرع میں ’ ہے ‘ کے بعد ’ گو ‘ اور پھر ’ ے ‘ تقطیع میں گر گئی ، نہایت مکروہ لفظ پیدا ہوتا ہے۔ مونس ؔ مرحوم سے بعید ہے۔ چوک جانے کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہے کہ میر انیسؔ کے طرز میں پڑھتے وقت پانچویں مصرع کے درمیان میں ضرور وقف کیا کرتے ہیں اور جب ’ ہے ‘ پر وقف کر دو تو پھر نظر چوک جاتی ہے اور تقطیع میں جو قباحت ہو گئی ہے وہ چھپ جاتی ہے۔