ذکاء صدیقی(پیدائش ۱۳!ستمبر۱۹۳۷ ء۔وفات ۱۶! جون۲۰۰۳ء )بھارت کے شہر امراؤتی (مہاراشٹر)کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے وا لدِ ماجد حضرت حبیب الرحمٰن الصدیقی ایک بلند پایہ عالم ،شاعر اور ادیب تھے اور مولانا فرجاد کوتانوی کے شاگرد تھے۔مولانا اسمٰعیل میرٹھی ،ذکاء صاحب کے پردادا کے چھوٹے بھائی تھے۔
ذکاء صاحب نے بی۔اے امراؤتی کے کنگ ایڈورڈ کالج سے کیا جبکہ ناگپور کے مور س کالج سے فارسی میں ایم۔ اے کیا۔ آپ دو سال تک بریلی کالج (بریلی)میں فارسی کے لیکچرر رہے ،بعد ازاں رضا پوسٹ گریجویٹ کالج رامپور کے صد رِ شعبہ فارسی کی حیثیت سے ، ۲!اکتوبر ۱۹۶۳ ء سے ۳۱! دسمبر ۱۹۷۶ ء تک خدمات انجام دیں۔ جہاں ماہرِ غالبیات مولانا امتیاز علی عرشیؔ ،تاریخِ اسلا م کے بہت بڑے نکتہ سنج و محقق اور ’’دو تقویمی نظریہ‘‘ کے بانی مولوی اسحٰق النبی علوی، اور اسلامی فلسفے کے عالم، مدرسہ عالیہ کے پرنسپل مولوی عبدالسلا م جیسے منتخب روزگار علماء و فضلاء کی خدمت میں مستقل حاضری کے مواقع نصیب ہوئے۔‘ مرحوم اکبر علی خاں عرشیؔ زادہ آپ کے خاص دوستوں میں تھے۔
ذکاء صدیقی بذاتِ خود ایک بلند پایہ شاعر ،ادیب اور ناقد تھے۔انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی اور ہندوستان بھر کے تمام بڑے مشاعروں میں ان کو مدعو کیا جاتا تھا۔چند سال وہ تسلسل کے ساتھ مشاعرے پڑھتے رہے لیکن بعد ازاں ’’پیشہ ور ‘‘ شاعروں کی خفیف حرکات کی وجہ سے انہوں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔ انہوں نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی تھی۔اور مختلف ساز وں پر دسترس رکھتے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں آپ بسلسلۂ ملازمت کنگ فہد یونیورسٹی آف پیٹرو لیم اینڈ منرل ، ظہران (سعودی عرب)میں آگئے۔ ۱۹۹۹ ء میں جب آپ اپنی سالانہ رخصت پر ہندوستان گئے تو ان دنوں ان کی طبیعت ناساز تھی وہاں تشخیص پر پتا چلا کہ خون کے سرطان میں مبتلا ہیں ،پھر وہ واپس نہیں آئے وہیں سے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔ ۱۶!جون۲۰۰۳ ء کو آپ اس جہانِ فانی سے رخصت فرما گئے۔آپ کی وفات پر پاکستان اور ہندوستان کے تمام مؤقر ادبی رسائل اور جرائد نے تعزیّت کے پیغامات شایع کیے۔جن میں فنون ، بیاض ، مکا لمہ (پاکستان)،اردو نیوز(سعودی عرب)اور شاعر ، شب خون ، ترسیل ، منصف، سیاست،(ہندوستان)شامل ہیں۔
آپ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ آمد نامہ ‘‘ ۱۹۹۴ ء میں ادارہ بیاض لاہور سے چھپا۔آ پ نے اپنے وا لدِ محترم کے خطوط ’’ مکاتیبِ حبیب ‘‘ کے نام سے شایع کیے۔اس کے علاوہ کلیّات ذکاء ’’آج کی شب پھر سنّاٹا‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد’ کتب نما‘ لاہور، سے شایع ہوئی۔ یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔انہوں نے اپنی بیماری کے ایّام میں تالیف کی تھی ،اسے ان کی حیات میں چھپ جانا چاہیے تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ٹاخیر ہوتی چلی گئی۔
ہم اس کتاب کی اشاعت میں تعاون کے لیے لواحقِ ذکا ء صدیقی صاحب اور پروفیسر یوسف حسن (گندھارا بکس)کے انتہائی ممنون ہیں۔
طارقؔ بٹ ، اقبال احمد قمر تلامذۃ ذکاء صدیقی مرحوم
(سعودی عرب)