ارشاداتِ کشن پرشاد شادؔ:
ضلع ‘ عربی میں پہلو کو کہتے ہیں۔ اردو زبان میں تلازمہ و رعایتِ لفظی کے معنی میں مستعمل ہے۔ ’ بولنا ‘ اس کا صلہ آتا ہے ، جیسے ’ ضلع بولتے ہیں ‘ یا ’ ضلع باز ہیں ‘ یعنی رعایتِ لفظی کے ساتھ بولنے میں مشّاق ہیں۔۔۔از ’ ضلع جُگَت ‘ مؤلفۂ مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ )
ارشاداتِ طباطبائی:
رعایت اسے کہتے ہیں کہ ایک لفظ ایسا استعمال کریں جسے کسی اور لفظ کے ساتھ کچھ تعلق اور مناسبت محض لفظی ہوجیسے اس شعر میں
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دست
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمیِ رفتار ہنوز
لفظ’ یک قلم ‘ معنی کے اعتبار سے’ سر تا سر‘ کے معنی پر ہے لیکن لفظ کے اعتبار سے قلم کو صفحہ سے ایک تعلق ہے۔ یا جیسے اس فقرے میں کہ زبان تلوار کا کام کرتی ہے۔ یہاں کام کے معنی فعل کے ہیں اور لفظ کے اعتبار سے کام و زبان تناسب رکھتے ہیں۔ یا جیسے سید امانتؔ کا یہ شعر
عاشق کو زہر ، غیر کو مصری کی ہو ڈلی
اس طرح کی نبات زباں سے نکالیے
’ نہ بات نکالیے ‘ اس مطلب کے لیے ہے کہ بات نہ نکالیے اور نبات اور مصری کو باعتبار لفظ با ہمدگر تعلق و تناسب ہے۔ یا جیسے میر انیسؔکے کلام میں ہے ؛ موت ہنستی ہے ، کہ مراد تو موت کا ہنسنا ہے اور موت و ہستی با ہمدگر تعلق و تضاد رکھتے ہیں۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ اسے رعایت کہیں یا ضلع کہیں ، بعض بعض مقام میں اچھا معلوم ہوتا ہے مگر اس میں اس قدر افراط کو دخل دے دیا ہے کہ اس ضلع کے خیال سے حسنِ معنی و سلاستِ الفاظ تک کا خیال نہیں رکھتے۔ جیسے امانتؔ نے ایک مرثیے میں کہا ہے ، مصرع : شامی کباب ہو کے پسندِ اجل ہوئے
اس سبب سے فصحا کو اب اپنے کلام میں ضلع بولنے سے کراہت آ گئی ہے اور بے شبہ قابلِ ترک ہے کہ یہ بازاریوں کی نکالی ہوئ صنعت ہے۔ اہلِ ادب نے کہیں اس کا ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ شہر کے لونڈے جب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ضلع بولتے ہیں۔ ایک کہتا ہے تمہاری چکنی چکنی باتوں نے چھالیا۔ یعنی چکنی ڈلی اور چھالیا۔ دوسرا جواب دیتا ہے : میں تیر ا یار کد تھا، یعنی کتّھا۔ وہ کہتا ہے : آنکھ پر پنجہ رکھ کر کیوں بات کرتے ہو۔ یہ پنجہ کی رعایت سے جواب دیتا ہے کہ مت ٹوک رے۔ یعنی جھاڑو، پنجہ اور ٹوکرا۔ انہیں لوگوں نے مشاعروں میں اور مجلسوں میں شعرا کو ایسی ایسی رعایتوں پر داد دے دے کر اپنے رنگ پر کھینچ لیا ہے۔
شرحِ کلامِ غالب از طباطبائی
شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
مزہ اور شور . نمک کے مناسبات میں سے ہیں۔
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا
کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کا ہے۔
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
’ آب جو ‘ کے بعد ’ کو ‘ کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا
اسداور آہو کا تقابل تو ظاہر ہے۔ گدا کی لفظ پشت خارکی مناسبت کے لیے ہے۔ بے سروپا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ پشت خار تک میرے پاس نہیں ہے ، اگر ہے تو مژگانِ آہو ہے۔
نہ دے نامے کو اتنا طول غالبؔ مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا
’ سنجیدن ‘ فارسی میں وزن کرنے اور موزوں کرنے کے معنی پر ہے۔ نوا سنج و نغمہ سنج و زمزمہ سنج و ترانہ سنج و نکتہ سنج۔ سب مانوس ترکیبیں ہیں اور فصحا کی زبان پر ہیں لیکن متأخرِینِ اہل زبان اور ان کے متبعین آرزو سنج و حسرت سنج و شکوہ سنج بھی مثل بیدلؔ وغیرہ کے بے تکلّف نظم کرنے لگے ہیں اور تصنع سے خالی نہیں ہے۔
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
مصنف نے لفظ ’ حالِ زار ‘ کو چھوڑ کر’ کاروبار ‘ اس وجہ سے کہا کہ کار بہ معنی زراعت و بار بہ معنی ثمر بھی ہے اور یہ گل کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔
یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
’ گریبان ‘ تعلّقاتِ دنیا سے استعارہ ہے اس وجہ سے کہ یہ۔انسان کے گلوگیر ہیں۔ سینہ پر الف کھینچنا آزادوں کا طریقہ ہے اور یہ مضمون فارسی والے کہا کرتے ہیں۔
شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
شرح کے لغوی معنی کھولنے کے ہیں۔ لفظ ’ تنگ ‘ کی مناسبت سے مصنف نے یہ لفظ باندھا ہے اور تنگیِ خاطر و انشراحِ خاطر میں بھی تقابل ہے اور گرفتگیِ خاطر کے مقام پر گرفتاریِ خاطر لفظ ’ زنداں ‘ کی رعایت سے اختیار کی ہے۔
دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار ، اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
دل و جان کا ضلع اس میں بول گئے ہیں۔
ذرّہ ذرّہ ساغرِ میخانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا
یعنی عالم کا ہر ذرّہ جو گردش و انقلاب میں مبتلا ہے یہ نیرنگِ فلک کے اشارے سے ہے۔ یہاں لفظ ’ ساغر ‘ سے معنیِ گردش نے تراوش کی اور اسی رعایت سے نیرنگ کو میخانے سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد بر سبیلِ تمثیل کہتے ہیں کہ مجنوں کی گردش لیلیٰ ہی کے اشارے سے ہے۔
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمیِ رفتار ہنوز
یعنی میرے نقشِ پامیں میری گرمیِ رفتار کا اثر ابھی تک ایسا باقی ہے کہ صفحۂ دشت کاغذ آتش زدہ ہو گیا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے یک قلم کا لفظ صفحہ کی رعایت سے استعمال کیا ہے۔
زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع
اس شعر میں زبان و اہل و مرگ و خاموشی و بزم و روشن زبانی یہ سب شمع کے ضلع کی لفظیں ہیں مگر بہت بے تکلّف صَرف ہوئیں۔
صاف دُردی کشِ پیمانۂٔ جم ہیں ہم لوگ
واے وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
یعنی میکشی بھی ہماری بڑے رتبے کی ہے ، وہ شراب بے نصیب ہے جو انگوری نہ ہو کہ ہم اسے منہ نہیں لگاتے اس لیے کہ یہ تقلیدِ جم کے خلاف ہے۔ یہاں مرزا صاحب ضلع بول گئے ہیں ۔ یعنی دُرد کے واسطے صاف کا لفظ شعر میں لائے ہیں حالانکہ ضلع سے کمال نفرت رکھتے تھے۔۔۔ مرزا غالبؔ سے بہت پیشتر جو اساتذہ گذرے ہیں ان کا بھی یہی حال تھا کہ ضلع و رعایت کو بہت ہی مبتذل سمجھتے تھے۔
نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا
دی ہے جائے دہن اس کو دمِ ایجاد نہیں
یعنی اس کے دہن کا وجود اگر ہے تو التزام ہے ، محض تصور میں ہے ، ورنہ خارج میں اسے بجائے دہن ’ نہیں ‘ ملی ۔۔۔لفظ ’ اثبات ‘ مصنف نے یہاں مؤنّث باندھا ورنہ افعال کے وزن پر جتنے الفاظ ہیں سب بہ تذکیر مستعمل ہیں۔۔۔۔ مصنف نے خود بتذکیر کہا ہے : ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے۔یہاں تراوش کے قرب نے دھوکا دیا۔
جو لوگ ضلع پسند کرتے ہیں ان کو اس شعر میں گویا کا لفظ بہت لطف دیتا ہوگا ، مگر یہ لفظ مبتذل ہو گیا ہے۔
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتا نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
اس شعر میں ’ دو چار ‘ ، ’ نا چار ‘ کے ضلع کا لفظ ہے۔
غالبؔ مرے کلام میں کیونکر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پانو
شیریں سخن ، خسر و کے ضلع کا لفظ ہے۔
پیکرِ عشّاق سازِطالعِ ناساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے
لفظِ عشّاق اس مقام پر ساز کے ضلع کا لفظ ہے۔ اہلِ فارس کی موسیقی میں مقامِ عشّاق ایک راگ کا نام ہے۔
دستگاہِ دیدۂ خونبارِ مجنوں دیکھنا
یک بیاباں جلوۂ گل فرشِ پا انداز ہے
دستگاہ اس شعر میں پا انداز کے ضلع کا لفظ ہے اور بہ تکلّف داخل کیا ہے۔ اور پھر دونوں لفظوں میں فاصلہ بھی ہاتھ بھر کا ہے۔
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ، ہوسِ بال و پرگئی
یہ ظاہر ہے کہ ہوا کی طرف خطاب کرنا بے مزہ ہے۔ لیکن ہوس کی مناسبت سے مصنف نے صبا کو چھوڑ کر ہوا کو باندھا ہے۔ اسی طرح بال و پر کی مناسبت یہ چاہتی ہے کہ کوئے یار کے بدلے صحنِ باغِ یار میں خاک اڑاتی ہوتی۔ اس کے علاوہ یہ مضمون اس قدر کہا گیا ہے کہ مبتذل ہو گیا ہے۔ غرض کہ یہ شعر غالبؔ کے کلام کے مرتبے سے بہت گرا ہوا ہے۔
بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو
پُر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے
کہتے ہیں : بیخودی کو بسترِ تمہیدِ فراغت ہونا نصیب رہے کہ اس کی بدولت میرا شبستاں اس طرح مجھ سے پُر ہے جیسے سایہ اپنی چیز پر افتادہ ہوتا ہے۔ یعنی بھلا ہو بیخودی کا جس کے سبب سے میں سائے کی طرح بے حس پڑا ہوا ہوں۔
تمہید کے لغوی معنی بچھانے کے ہیں اور یہ بستر کے مناسبات میں سے ہے۔ اور اصطلاح میں تمہید اسے کہتے ہیں کہ کسی کام سے پہلے کچھ ایسی باتیں کرنا جن پر وہ کام موقوف ہے۔ یہی معنی مصنف کو مقصود ہیں یعنی بیخودی حصولِ فراغت کی تمہید ہے فراغت کے لغوی معنی خالی ہونے کے ہیں اور یہ پُر ہونے کے مناسبات میں سے ہے اور اصطلاح میں راحت کے معنی پر ہے اور یہی معنی یہاں مقصود ہیں۔
خطِّ عار ض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے
’ یک قلم ‘ کے لفظ میں دوہری رعایت رکھی ہے۔ ایک تو رخسار پر قلمیں ہوتی ہیں ، دوسرے خط بھی قلم سے لکھتیہیں۔ یہ شعر بھی تصنعِ بے مزہ سے خالی نہیں۔
ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے
’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ اور ’ شوقِ عناں گسیختہ ‘ سے جوشِ اشک مجازاً مقصود ہے کیونکہ شوق سببِ گریہ؛ مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔
دیدہ تا دل اسد ؔ آئینۂ یک پرتو ِشوق
فیضِ معنی سے خطِ ساغرِ راقم سرشار
خط کا لفظ محض معنی کی مناسبت سے لائے ہیں۔ اور لفظِ ’ راقم ‘ بہت ہی مبتذل لفظ ہے۔ ان معنی پر ’ راقم ‘ شعرا کی زبان نہیں۔
اُڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
ہلال کو مچھلی سے بھی تشبیہ دیا کرتے ہیں اور مچھلی تڑپ کر اڑتی ہے۔ اُڑنے کا لفظ بھی مناسب واقع ہوا ہے۔
پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام
اس کے سر ہنگوں کاجب دفتر کھلا
روشناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں لکھا ہے چہرۂ قیصر کھلا
پہلے شعر میں دارا کی تخصیص بے جا ہے ، اور دوسرے شعر میں قیصر کی۔ ایک طرح کا تناسب جو شعرا کی طبیعت میں فطری ہوتا ہے اس کا مقتضی یہ تھا کہ وہاں دارا کا ذکر تھا تو یہاں قیصر کے بدلے یوں کہتے ع واں لکھا ہے نامِ اسکندر کھلا۔ یا اگر قیصر کو رکھنا منظور تھا تو دارا کے بدلے خاقان کہنا مناسب تھا اس سبب سے کہ دارا و اسکندر دونوں عَلَم ہیں اور خاقان و قیصر دونوں لقب ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرے شعر میں ’ کھلا ‘ مکرر ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں ’ کھلا کھلا کھرا ہے ‘ اور یہاں تکرار ضروری ہے۔
مبالغہ
کسی شخص یا کسی شے میں کسی وصف یا کیفیت کا بیان ، خواہ بطورِ تعریف ہو یا بطورِ مذمّت ؛اس طرح کرنا کہ حقیقت میں وہ وصف اُس حد تک نہ پایا جاتا ہو، مبالغہ کہلاتا ہے۔ مبالغے کی تین قسمیں ہیں :۔
(۱) تبلیغ: ایسا مبالغہ جو عادت اور عقل کے مطابق ہو۔ مثلاً غالبؔ کا شعر ہے
نہ کھاتے گیہوں ، نکلتے نہ خلد سے ہرگز
جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسنی روٹی
(۲) اِغراق: ایسا مبالغہ جو عقل کی رو سے ممکن ہو لیکن عادت کے خلاف ہو۔ مثلاً غالب ؔ
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریف ِ لذّتِ آزار دیکھ کر
(۳) غلو: ایسا مبالغہ جو نہ عقل کی رو سے ممکن ہو نہ عادت کے موافق ہو۔ جیسے
تو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت
ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت
تبلیغ بہت پسندیدہ اور مرغوب صنعت ہے۔ اغراق نہ اچھی ہے نہ بری۔ لیکن غلو کو تمام اربابِ کلام نا پسند کرتے ہیں کیونکہ غلو کلام کی تاثیر کھو دیتا ہے۔تاہم شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو صاحبِ کمال زبان پر قدرت رکھتا ہے وہ غلو کو بھی با مزہ کر دیتا ہے ، وہ اس طرح کہ کوئی لفظ یا قرینہ ایسا بڑھا دیتا ہے جس سے غلو امکان کے قریب ہو جائے ، یا اس میں کوئی لطافت پیدا ہو جائے۔جیسے اکبر شاہ ثانی کی مدح میں ذوقؔ کہتے ہیں
نام کو اللہ اکبر کیا ترے توقیر ہے
داخلِ ہر خطبہ ہے اور شاملِ تکبیر ہے
( ماخوذ از ’ تسہیل البلاغت ‘ مؤلفۂ پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی)
شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی
سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشو و نما غالبؔ
اگر گل سرو کی قامت پہ پیراہن نہ ہو جائے
کیا پوچھنا اس مبالغے کا کہ مبالغے کے ضمن میں ایک دلکش نقشہ بھی دکھا دیا۔ لیکن قامتِ سرو پر گل کے پیراہن ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک گل اتنا بڑا ہو جائے کہ سرو کا پیراہن ہو۔ بلکہ مصنف کی غرض یہ ہے کہ شاخہاے گل کو اس قدر نمو ہو کہ سرو کے گرد لپٹ کر پھولوں کی قبا اسے پنہا دیں۔ اور اس مبالغے میں یہی خوبی ہے کہ کوئی محال بات نہیں لازم آتی اور گل سے ایک گل مراد لیں تو مبالغۂ محال کی طرف منجر ہوتا ہے اور یہ امر عیب ہے مبالغے میں ، اور ہمیشہ سے اس عیب کو عیب لکھتے آئے ہیں۔ مگر فارس و ہند کے شعرا شاید اسے صنعت سمجھے ہوئے ہیں کہ احتراز نہیں کرتے۔ اس عیب میں سبھی سَنے ہوئے ہیں۔ خود مصنف مرحوم کو بھی محال گوئی سے احتیاط نہیں ہے۔ مثلاً یہ شعر گذر چکا ہے
ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور بحرِ خوں میں تیرے توسن کو
یعنی وہ ایسا خون ریز ہے جس کا گھوڑا دریاے خون میں پیرتا ہے ، یہ محض مبالغۂ محال ہے۔خواجہ وزیرؔ کہتے ہیں
تو نہا کر جو پھرا ، غم سے سمٹ کر دریا
آ گیا دیدۂ گرداب میں آنسو ہو کر
اس شعر میں مبالغۂ محال ہے اور اس کے ضمن میں آنکھ اور آنسو کا نقشہ دکھایا ہے۔ مگر یہ نقشہ ویسا دلکش نہیں ہے جیسا کہ سرو کے گل پوش ہونے کا مصنف نے دکھایا ہے۔ اور کسی کا شعر ہے۔
بادیہ گردی میں فکرِ برہنہ پائی نہیں
بن گیا پا پوش پا ، اتنا پھپھولا بڑھ گیا
اس شعر میں مبالغہ تو محال عادی نہیں ہے مگر پاؤں میں پاپوش ہونے کی صورت کچھ کیفیت نہیں رکھتی۔ناسخؔ ؔکہتے ہیں
مرتبہ کم حرصِ رفعت سے ہمارا ہو گیا
آفتاب ا ونچا ہوا اتنا کہ تارا ہو گیا
اس شعر میں آفتاب کے بلند ہونے میں (مبالغہ )کیا ہے اور اس کا تارا ہو جانا ایک صورت دکھاتا ہے۔ لیکن معمولی صورت ہے۔ اور سرو کا گل پوش ہونا شکلِ بدیع ہے۔ لیکن بات یہ ہے شیخ ناسخ نے یہاں آفتاب سے مرتبہ کو مراد لیا ہے۔ اسے مبالغۂ غیر عادی نہ سمجھنا چاہیے۔ پھر
کہتے ہیں
ا ک درہم اور داخل گنجِ قاروں میں ہوا
پست ایسا میرے طالع کا ستارا ہو گیا
اس شعر میں بے شک مبالغۂ غیر عادی ہے اور ایک روپیے کا بہت سے روپوں میں مل جانا بھی کوئی کیفیت نہیں رکھتا۔ لیکن گنجِ قاروں میں ایک درہم اور بڑھ جانا البتہ امرِ بدیع ہے۔ پھر کہتے ہیں
یہ صفائی ، یہ لطافت ، جسم میں ہوتی نہیں
تم نے جو دل میں چھپایا آشکارا ہو گیا
اس شعر میں دو وجہوں سے محال ہے۔ ایک تو جسم میں ایسی لطافت کا ہونا کہ جو شے دل میں ہو وہ باہر سے دکھائی دے۔ دوسرے راز کا دکھائی دینا کہ وہ دیکھنے کی شے نہیں ہے۔
غرض کہ گو ائمۂ فن نے مبالغہ غیر عادی کو عیوبِ بلاغت میں لکھا ہے مگر کوئی مانتا نہیں اور نہ کوئی عمل کرتا ہے ، خصوصاً قصیدے میں تو سواے مبالغۂ غیر عادی کے اور کوئی مضمون ہی نہیں باندھتے ہیں جسے سن کر ممدوح اپنی ہجو سمجھتا ہے۔ ادیب کو یہ بات نہ بھولنا چاہیے کہ مبالغہ کلام کا حسن ہے لیکن مبالغہ میں افراط ، کہ مضمون غیر عادی و محال پیدا ہو جائے ، باتفاقِ ائمۂ فن عیبِ قبیح ہے جس کا نام انھوں نے اغراق و غلو رکھا ہے۔ مبالغہ جبھی تک حسن رکھتا ہے جب تک واقعیت و امکان اس میں پایا جائے۔ مثلاً کسی زخمی کو کہنا کہ ’ خون کا دریا بہ گیا ‘، اغراق ہے۔ او ر ’ لہو کا پر نالہ چل گیا ‘ مبالغۂ مقبول ہے۔ میر انیسؔ کے ایک اصلاحی مرثیے میں ہے ، ع۔۔۔۔ بہہ کر لہو جگر کا رکابوں تک آگیا
دیکھو مبالغہ اور کیسا واقع سے مطابق ہے۔ مونس ؔ کہتے ہیں
برچھوں اُڑ جاتا ہے دب دب کے فرس رانوں سے
آنکھ لڑ جاتی ہے دریا کے نگہبانوں سے
ایک مرثیے میں تلوار کی مدح میں ہے ، ع۔
ڈورا وہ کہ چھو جائے تو الماس ترش جائے۔۔ یا
ع۔۔۔ کَس ایسا تیغ میں کہ کمر سے لپیٹ لو
ان مبالغوں کا جواب کا ہے کو ہے۔ اور جہاں مبالغہ کرنے بعد کوئی نقشہ کھنچ جاتا ہے وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے ، خصوصاً جہاں وہ نقشہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ نادر و بدیع شکل پیدا ہو۔ مصنف (غالبؔ ) کے اس (مندرجۂ بالا)شعر میں دونوں خوبیاں جمع ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصائد
سبز ہے جامِ زمردکی طرح داغِ پلنگ
تازہ ہے ریشۂ نارنج صفت روئے شرار
دونوں تشبیہیں نہایت بدیع ہیں۔
شکل طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز
ذوق میں جلوے کے تیرے بہوائے دیدار
آئینہ خانہ و طاؤس کی تشبیہ بہت ہی بدیع ہے۔
دشمنِ آلِ نبی کو بہ طرب خانہ ٔ دہر
عرضِ خمیازۂ سیلاب ہو طاقِ دیوار
انگڑائی کو موج سے مشابہت ہے۔ اس سبب سے خمیازۂ سیلاب کو موجِ سیلاب کا استعارہ سمجھنا چاہیے۔
دیدہ تا دل، اسدؔ ، آئینۂ یک پرتوِ شوق
فیضِ معنی سے خطِ ساغر ِ راقم سرشار
ساغر دیدہ و دل سے استعارہ ہے۔
اُڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
ہلال کو مچھلی سے بھی تشبیہ دیا کرتے ہیں اور مچھلی تڑپ کر اڑتی ہے۔ اُڑنے کا لفظ بھی مناسب واقع ہوا ہے۔
ہات سے رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کے خنجر کھلا
ابرو کو کمان سے اور غمزے کو خنجر سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔ لیکن ابرو کو کمان دار اور غمزے کو خنجر گزار کہنا زیادہ لطف دے گیا۔
( استدراک :۔ نسخۂ عرشی میں ’ ہات ‘ کے بجاے ’ ہاتھ ‘ ہے ، اور دوسرے مصرع میں ’ کی ‘ بجاے ’ کے ‘ ہے۔)
تیرا اندازِ سخن شانۂ زلفِ الہام
تیری رفتارِ قلم جنبشِ بالِ جبریل
دوسرے مصرع میں جو تشبیہِ بدیع پیدا کی ہے الہامی مضمون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔