ارشادات مولانا الطاف حسین حالیؔ:۔
’مرزا (غالبؔ )کے ابتدائی ریختے میں۔۔۔ جیسے خیالات اجنبی تھے ویسی ہی زبان غیر مانوس تھی۔ فارسی زبان کے مصادر ، فارسی کے حروفِ ربط اور توابعِ فعل جو کہ فارسی کی خصوصیات میں سے ہیں اُن کو مرزا اردو میں عموماً استعمال کرتے تھے۔اکثر اشعار ایسے ہوتے تھے کہ اگر ان میں ایک لفظ بدل دیا جائے تو سارا شعر فارسی زبان کا ہو جائے۔ بعض اسلوبِ بیان خاص مرزا کے مخترعات میں سے تھے جو نہ ان سے پہلے اردو میں دیکھے گئے نہ فارسی میں۔ مثلاً ان کے موجودہ اردو دیوان میں ایک شعر ہے
قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے
میں نے خود اس کے معنی مرزا سے پوچھے تھے ؛ فرمایا کہ ’ اے ‘ کی جگہ ’ جز ‘ پڑھو؛ معنی خود سمجھ میں آجائیں گے۔۔۔۔۔ہاں جس معنی میں مرزا نے ’ اے ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ظاہرا انھیں کا اختراع ہے۔۔۔۔ مرزا چونکہ معمولی اسلوبوں سے تا بمقدور بچتے تھے اور شارعِ عام پر چلنا نہیں چاہتے تھے اس لیے وہ بہ نسبت اس کے کہ شعر عام فہم ہو جائے اس بات کو زیادہ پسند کرتے تھے کہ طرزِ خیال اور طرزِ بیان میں جدّت اور نرالا پن پایا جائے۔۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے ان کی اَریجنلٹی اور غیر معمولی اُپچ کا خاطر خواہ سراغ ملتا ہے اور یہی ان کی ٹیڑھی ترچھی چالیں ان کی بلند فطرتی اور غیر معمولی قابلیت و استعداد پر شہادت دیتی ہیں۔
’ بہر حال مرزا ایک مدت کے بعد اپنی بے راہ روی سے خبردار ہوئے۔۔۔۔ گو ان کا ابتدائی کلام جس کو وہ حد سے زیادہ جگرکاوی اور دماغ سوزی سے سر انجام کرتے تھے مقبول نہ ہوا؛ مگر چونکہ قوتِ متخیّلہ سے بہت زیادہ کام لیا گیا تھا اور اس لیے اس میں ایک غیر معمولی بلند پروازی پیدا ہو گئی تھی ، جب قوتِ ممیّزہ نے اُس کی باگ اپنے قبضے میں لی تو اس نے وہ جوہر نکالے کہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھے۔‘ انتہی
’ یادگارِ غالبؔ ‘ ( مطبوعہ مطبع ریاضِ ہند ، علی گڑھ ، ص ص۱۰۲ تا ۱۰۷)
ارشادات مولانا وحید الدینسلیمؔ:۔
’ غالبؔ زبان کے عام محاورات کی پروا نہیں کرتے۔ وہ خیال کو مقدّم سمجھتے ہیں اور اس کے لیے زبان خود تیار کرتے ہیں۔ عام بول چال کا لباس اپنے خیال کو پہنانا نہیں چاہتے۔ ان کے قدیم انداز میں فارسیت غالب ہے اور خیال بند شاعروں کی ترکیبیں بار بار آتی ہیں۔ اضافتوں کی بھر مار ہے۔ مگر جب وہ اس طرز کو ترک کرتے ہیں اور صاف بیانی پر آمادہ ہوتے ہیں تو پھر بھی ذوقؔ کی طرح محاورے اور بول چال کو اپنی شاعری کا مقصد نہیں بناتے۔ ان کا ہر خیال خود بخود ایک مناسب اور موزوں سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور جو زبان اس طرح پیدا ہوتی ہے وہ عام لوگوں کی بول چال سے جدا گانہ نظر آتی ہے۔‘
( افاداتِ سلیم ‘ (بہ تصحیح و ترتیب: ڈاکٹر خلیق انجم، ؔ مکتبۂ جامعہ ایڈیشن ، ۱۹۷۲ ، ص ۱۸۸)
شرحِ غالبؔ از طباطبائی
زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
تیر کے پر ہوتے ہیں اور اڑتا ہے۔ اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے ، تیر کے لیے بہت مناسب ہے۔ مصنف مرحوم لکھتے ہیں : یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے جیسا کہ اس شعر میں ،
نہیں ذریعۂ را حت جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے
یعنی زخمِ تیر کی توہین بہ سبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بہ سبب ایک طاق سا کھل جانے کے۔
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتارہے نقشِ قدم میرا
ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقشِ قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوقِ روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہوگا۔ ’یک بیاباں ماندگی‘ خواہ ’صد بیاباں ماندگی‘ کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگیِ مفرط۔ یک بیاباں ماندگی کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابا ں کو پیمانہ اس کا فرض کیا ہے
منھ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا
اس شعر میں ’ کھلنا ‘ زیب دینے کے معنی پر ہے۔ دیکھو معنی ردیف میں جدّت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے۔
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
’ یک شہر آرزو ‘ میں ویسی ہی ترکیب ہے جیسی ’ یک بیاباں ماندگی ‘ و ’ یک قدم وحشت ‘ میں ہے۔
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
درو دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
’ ٹپک رہا ہے ‘ یعنی ظاہر ہو رہا ہے او رٹپکنے کی لفظ گھر کے لیے اور گریہ کے ساتھ بھی بہت ہی مناسبت رکھتی ہے ع لفظے کہ تازہ است بمضموں برابر است
یک قدم وحشت سے درسِ دفترِ امکاں کھلا
جادہ اجزاے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
’ یک قدم وحشت ‘سے وحشت کا مرتبۂ ادنیٰ مقصود ہے اور ’ اجزاے دو عالم دشت ‘ بمنزلۂ اجزائے عالم عالم دشت یا اجزائے دو صد دشت ہے جس سے مراد کثرتِ ویرانی ہے۔ ’ دوعالم دشت ‘ کی ترکیب میں مصنف نے دشت کی مقدار کا پیمانہ عالم کو بنایا ہے جس طرح ماندگی کی مقدار کا پیمانہ بیاباں کو اور تأمل کی مقدارکا پیمانہ زانو کو اور آرزو کا پیمانہ شہر کو قرار دیا ہے۔
جا ں در ہواے یک نگہِ گرم ہے ، اسدؔ
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا
معشوق سے خطاب ہے کہ تیرا داد خواہ یعنی اسدؔ جان در ہواے یک نگہِ گرم ہے اور اسد ؔ
’ جان در ہوا ‘ ہے۔ یہ ویسی ہی ترکیب ہے جیسے کہیں فلاں سر بکف ہے یا پا در رکاب ہے۔
کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
’ بے سبب آزار ‘ترکیب فارسی ہے۔ حکیم مومن خان صاحب نے اس قسم کی ترکیبیں بنانے میں بہت افراط کی ہے۔ایک جگہ فرماتے ہیں ؛ رحمے بحالِ بندہ خدایا نگاہ تھا۔البتّہ تازگیِ لفظ اور ترکیب کلام میں بڑا حسن پیدا کرتی ہے لیکن یہ یہاں سمجھنا چاہیے کہ دوسری زبان پر جب تک اچھی طرح قدرت حاصل نہ ہو اس میں تصرّف و ارتجال کا ہر ایک کو حق نہیں ہے۔ یہاں جفا کے عام ہونے سے یہ مراد ہے کہ رقیب جس میں سببِ جفا یعنی عشق نہیں پایا جاتا اس پر بھی تم جفائے معشوقانہ میری طرح کرتے ہو۔
فنا تعلیمِ درسِ بے خودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر
فنا اور تعلیم دونوں لغت تازی ہیں اور ترکیب دونوں لفظوں میں فارسی ہے یعنی فنا تعلیم اسمِ صفت بن گیا ہے جس کو فنا کی تعلیم ہوئی ہو وہ مراد ہے اور یہ درس جس نے دیا ہے وہ بے خودی ہے اور مصنف نے (الف بے )کو چھوڑ کر لام الف اس سبب سے کہا کہ یہ دونوں حروف مل کر لا ہو جاتے ہیں اور ’ لا‘ نیستی و فنا کے مناسب ہے۔
بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور، یاں تلک ہوئے ، اے اختیار ، حیف
لفظ ’ تلک ‘ کو آج کل کے شعرا نے اتّفاق کر کے ترک کر دیا ہے اور اس کو غیر فصیح سمجھتے ہیں۔ تلک کی جگہ ’ تک ‘ کہتے ہیں۔ لیکن ہر زبان میں معیارِ فصاحت محاورہ ہے اور محاورے میں تلک اور تک دونوں موجود ہیں ، پھر اس کے ترک کرنے کی کوئی وجہِ وجیہ نہیں۔ بلکہ ایک وجہ سے تلک بہ نسبت تک کے افصح ہے وہ یہ کہ جن اہلِ تحقیق نے حروف کے مخارج و صفات پر نظر کی ہے انھوں نے چھ حرف ایسے پائے ہیں کہ جس کلمہ میں ان میں کا کوئی حرف ہو اس کلمہ کو سلیس و فصیح سمجھتے ہیں۔ ان حرفوں کا مجموعہ ’مزبنفل ‘ مشہور ہے۔ غرض یہ کہ تلک میں ’ مزبنفل ‘ کا لام ہے اور تک میں اس کا کوئی حرف نہیں۔
کیجیبیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے
تک اور تلک کے باب میں شعراے حال نے تلک کو متروک اور تک کو اختیار کیا ہے۔ لیکن قدما کے کلام کو دیکھنے سے یہ پتا لگتا ہے کہ لفظ تک اور تلک دونوں مستحدث ہیں۔ اگلے زمانے میں کہاں تلک کی جگہ کہاں تیۓں اور کہاں لگ بولتے تھے۔ اس سے تلک بنا یعنی تیۓں میں سے ’ ت ‘ کو لے لیا اور لگ میں گاف کو کاف کر دیا۔ اس کے بعد تلک میں بھی تخفیف کر کے’ تک‘ کہنے لگے۔ لیکن تلک کا لفظ بھی ابھی تلک محاورے سے خارج نہیں ہے۔ اس کا ترک بلا وجہ ہے۔
مجھ کو ارزانی رہے ، تجھ کو مبارک ہوجیو
نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک
اس شعر میں ہوجیو بہت مکروہ لفظ ہے اور متروک ہے۔
بیخودی بسترِ تمہید فراغت ہو جو
پُر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے
’ ہوجیو ‘ خود ہی واہیات لفظ ہے۔ مصنف مرحوم نے اس پر اور طرّہ یہ کیا کہ تخفیف کر کے ’ ہوجو ‘ بنایا۔
لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگا ہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
جملوں کی ترکیب میں تماثل اور لفظوں کی نشست میں حسنِ تقابل ہونا اس کی مثال میں یہ آیت مشہور ہے ۔۔۔ : انّ الابرار لفی نعیم و انّ الفجّار لفی جحیم۔ لیکن اردو میں یہ شعر بھی یہاں شاید زیبا ہے۔
بیٹھا ہے جو کہ سایہ ٔ دیوارِ یار میں
فرماں روا کشورِ ہندوستان ہے
ہندوستان کی تخصیص یہ ہے کہ سایہ میں تیرگی ہوتی ہے اور ہندوستان بھی کالا ملک ہے۔اس شعر میں مصنف نے ہندوستان کو باعلانِ نون نظم کیا ہے۔ میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع پر ع مسکن چھٹا ُہماے سعادت نشان سے۔۔۔لکھنؤ میں اعترض ہوا تھا کہ حرفِ مدّ کے بعد جو نون کہ آخرِ کلمہ میں پڑے فارسی والوں کے کلام میں کہیں باعلان نہیں پایا گیا ہے۔ تو جب اردو میں ترکیبِ فارسی کو استعمال کیا اور کشورِ ہندوستان کہہ کر مرکّبِ اضافی بنایا ، ہماے سعادت نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا تو پھر نحوِ فارسی کی تبعیّت نہ کرنے کا کیا سبب ؟ اگر لفظ ہندوستان یا نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا تو شاعر کو،ا علان کرنے نہ کرنے کا اختیار تھا لیکن ترکیبِ فارسی میں نحوِ فارسی کا اتّباع ضرور ہے۔ اور اس طرح کا اعلان لکھنؤ کے غزل گویوں میں ناسخؔ کے وقت سے متروک ہے۔
رندانِ درِ میکدہ گستاخ ہیں ، زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
کسی سے ’ طرف ہونا ‘ اب متروک ہے۔ میرؔ کے زمانے کا محاورہ ہے۔
دل ہی تو ہے ، سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں ، اور جاؤں در سے ترے بِن صدا کیے؟
’ بن ‘ کا لفظ بھی نظم و نثر سے اب لوگوں نے ترک کر دیا ہے اور اس کا ایسا اثر پڑا کہ اب گفتگو سے بھی ترک ہوتا جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک سننے میں ثقیل نہیں معلوم ہوتا اور اس کا ترک بھی بے وجہ ہے۔بِن اور ’بِنا‘ ہندی لفظ ہے اور ’بے ‘ لفظ فارسی ہے۔ ہندی لفظ چھوٹ کر فارسی لفظ اس کی جگہ داخل ہو گیا۔
ساقی گری کی شرم کرو آج ، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
یعنی آج تم ساقی بنے ہو ، آج تو چھکا کر پلا دو۔ اور ’ساقی گری‘ کا لفظ ویسا ہی ہے جیسے منشی گری اور مولوی گری اور آدمی گری۔ یہاں یہ بحث ہے کہ لفظِ ’ گر ‘ افادہ بہ معنی فاعلیت کے لیے ہوتا ہے ، جیسے ستمگر ، داد گر اور جادو گر ، شعبدہ گر اور زر گر ، شیشہ گر۔ اور لفظِ ’ ساقی ‘ میں خود معنیِ فاعلیت موجود ہیں۔ اس کی ترکیب ’ گر ‘ کے ساتھ کیونکر صحیح ہوگی۔ اس کا جواب میلیؔ کے شعر سے ہو سکتا ہے
گفتی ز رہِ لطف کہ میلیؔ سگِ ماست
شرمندۂ آدمی گری ہائے توام
اور ملّا طغراؔ کہتے ہیں
کند حقِصوفی گری را ادا
بہ یک چشم بیند بہ شاہ و گدا
ہو رہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
پھر ہوئی ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
اس قطعے میں عدالت و فوجداری و سرشتہ داری اور سوال دینا اور مقدمہ اور روبکاری یہ سب اصطلاحیں ابھی تک فصحا کی زبان پر مکروہ ہے۔ کراہیت کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ زبان کی بنائی ہوئی اصطلاحیں یہ نہیں گو بہ مجبوری یہ لفظ سبھی کو بولنا پڑتی ہیں لیکن ابھی تک ان کا قوام نہیں درست ہوا اور زبانِ اردو نے انھیں قبول نہیں کیا۔اور اگر زبان میں ان کو داخل بھی سمجھو تو ان معنیِ خاص پر یہ سب لفظ ہندی ہیں۔ ترکیب ِفارسی میں ان کا لانا صحیح نہ ہوگا مثلاً عدالت دار القضا کے معنی پر، اور فوجداری احتساب کے معنی پر اگر ہیں تو ہندی لفظ ہیں۔ پھر درِ عدالتِ ناز اور بازارِ فوجداری کہنا بہ ترکیبِ فارسی کیونکر درست ہوگا آتشؔ کے اس شعر پر اعتراض چلا آتا ہے
کسی کی محرمِ آبِ رواں وہ یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
یعنی گو لفظِ محرم ہندی نہیں ہے لیکن انگیا کے معنی پر ہندی ہے۔ پھر اسے اضافتِ فارسی کیوں دی۔ حالانکہ محرم کے لیے فارسی وعربی میں کوئی لفظ نہیں ہے۔ شاماکچہ و درع و مجول اور وضع کے لباس ہیں کہ اس کی وضع میں اور محرم میں ضرور فرق ہے۔ اور محرم فصحا کا بنایا ہوا لفظ ہے برخلاف عدالت اور فوجداری کے کہ ان معنی کے لیے دار القضا و احتساب موجود ہے۔ اور فصحا کے بنائے ہوئے یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ الفاظ ایسے خرف لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں جو کہ جایداِ دمقروقہ ، اسامیِ مفرور ، مثلِ مقدمہ ، جائدادِ متدعویہ وغیرہ بے تکلف لکھتے پڑھتے ہیں۔
دوسرے شعر میں مصنف نے زلف کو سر اور رشتہ کی مناسبت سے سر رشتہ داری دی ہے لیکن عامیانہ لہجے کے بموجب رشتہ کاری حذف کر دیا ہے۔ جس طرح فردوسیؔ نے سپید دیو میں سے دیو کی دال کو حذف کر کے ’ سپیدیو ‘ باندھا ہے۔مگر اس سے حکمِ کلّی کسی نے نہیں نکالا ہے۔ سوال، نالش کے معنی اور مقدمہ خصوصیت کے معنی میں ہندی لفظ ہیں۔ ان کو بھی ترکیبِفارسی میں کوئی باندھے تو غلط ہوگا۔ یہ مصرع : ایک فریاد و آہ و زاری ہے ۔۔اس میں ایک نہ عدد کے لیے ہے نہ تنکیر کے لیے ہے بلکہ یہاں ایک سے معنیِ کثرت کا افادہ ہوتا ہے۔ یہ بڑے محاورے کا لفظ مصنف نے باندھا ہے۔ اور گواہِ عشق سے آنسو مقصود ہے۔
اس شمع کی طرح سے ، جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ نا تمامی
میں ’ داغِ نا تمامی ‘ ہوں یعنی مجھے اپنے نا تمام رہ جانے کا داغ ہے۔ جو لوگ کہ زبانِ اردو کے تنگ کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہیں اور فنِّ معانی سے بہرہ نہیں رکھتے ان کی رائے میں ’ سے ‘ کا لفظ اس شعر میں براے بیت ہے اور ’ طرح ‘ کے بعد ’ سے ‘ کا لفظ بولنا اور لکھنا اور نظم کرنا انھوں نے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ محاورے میں تصرّف ہے یا قیاس ہے۔ اور دونوں نا جایز ہیں۔ میرؔ
داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
یعنی مجھے رشکِ محبت کا داغ ہے۔
کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریا د کسو کی
یعنی بے حوصلگی و بے صبری سے اگر وہ تمھار ی فریاد بھی کر بیٹھیں تو کون سنتا ہے۔
’ کسو ‘ اور ’ کبھو ‘ یہ دونوں لفظ ناسخؔ کے زمانے سے لکھنؤ میں نہیں نظم ہوئے ، مگر دلّی میں اب ترک ہوئے۔ ظفر ؔ
گلہ ظفرؔ نہ کرو ان سے آشنائی کا
کہ آشنا ہوئے وہ کبھو کسو کے نہیں
شکایتیں ہمیں غمّاز اور عدو سے نہیں
گلہ ہے دوست سے اپنے فقط ، کسو سے نہیں
ذوق ؔ
فلک کا رنگ جو اب تک سیاہ ہے اس پر
پڑا تھا سایۂ بختِ سیہ کبھو میرا
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے
مومنؔؔ
نہ دل میں نہ ان کی زباں پر کبھو
رضائے الٰہی سوا آرزو
جو دیوان کہ خود مصنف مرحوم کی تصحیح سے چھپا ہے اس کے خاتمے میں لکھتے ہیں : ’ ایک لفظ میری منطق کے خلاف نہ ایک جگہ بلکہ سو جگہ چھاپا گیا۔ کہاں تک بدلتا ، ناچار جا بجا یوں چھوڑ دیا۔ یعنی ’ کسو ‘ بکافِ مکسور و سینِ مضموم و واوِ معروف۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لفظ صحیح نہیں ، البتہ فصیح نہیں۔ قافیے کی رعایت سے اگر لکھا جائے توعیب نہیں ورنہ فصیح بلکہ افصح ’ کسی ‘ ہے ، واو کی جگہ یاے تحتانی۔ میرے دیوان میں ایک جگہ قافیہ کسو بہ واو ہے اور سب جگہ بہ یاے تحتانی ہے۔ اس کا اظہار ضروری تھا ، کوئی یہ نہ کہے کہ یہ آشفتہ بیانی ہے۔ اللہ بس ما سویٰ ہوس ‘ انتہیٰ۔جس جگہ کا مصنف نے اعتراف کیا ہے وہ یہی شعر ہے :کیوں ڈرتے ہو۔۔۔ الخ۔ مگر اب یہ طے ہے کہ قافیے کی ضرورت سے بھی ان لفظوں کو باندھنا صحیح نہیں۔
انھیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے
زعمِ جنوں سے یہ مراد ہے کہ میرے سوال پر وہ یہ کہتے ہیں کہ تجھے جنون ہوا ہے اور قطعِ نظر سے یہ مراد ہے کہ ان کی اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ یہ مضمون خوبیِ شعر کا سبب نہں ہے بلکہ دونوں مصرعوں کی بندش میں ترکیب کے متشابہ ہونے نے شعر میں حسن پیدا کیا۔
شورشِ باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے
یعنی گو ظاہر ہمارا رندانہ ہے لیکن باطن خضوع و خشوع سے بھرا ہوا ہے۔ ’ آشنا ‘ کا لفظ ’ محیط ‘ کے مناسبات میں سے ہے۔ آشنا پیراک کو کہتے ہیں ، اور محیط کو فارسی والے دریا کے معنی پر باندھا کرتے ہیں۔ اصلی معنی اس لفظ کے گھیرنے والے کے ہیں اور سمندر کو بحرِ محیط وجہ سے کہتے ہیں کہ برِّ اعظم کو گھیرے ہوئے ہے۔ مگر تمام فارسی والوں نے دھوکا کھایا۔ وہ یہ سمجھے کہ محیط نام ہے یعنی جیسے بحرِ قلزم نام ہے ، اور اضافت بیانیہ ہے۔اسی طرح وہ سمجھے کہ بحرِ محیط میں بھی اضافت عام کی خاص کی طرف محض بیان کے لیے ہے اور یہ خیال غلط ہے۔ بلکہ یہاں اضافتِ توصیفی ہے۔جو کہ قید واقع ہوئی ہے بحر کی۔ یہاں لفظِ بحر کو ترک کر کے فقط محیط پر اکتفا کر لینا درست نہ تھا مگر اس میں مصنف کی تخصیص نہیں ہے۔ جو فارسی والے حقیقتِ الفاظِ عربی سے نا آشنا ہیں وہ بے تکلف لفظ محیط کو دریاے شور کے معنی پر باندھتے ہیں اور ان کا باندھنا مصنف کے لیے سند ہے۔
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
جو بے تلوار قتل کرتا ہے۔ واو عطف پہلے مصرع میں فارسی کا ہے اس سبب سے لفظ آئین ترکیبِ فارسی میں ہے۔ اورپھر اعلان نون ہے۔ مصنف مرحوم کا اس بات میں یہی مذہب معلوم ہوتا ہے کہ اردو کلام میں ایسے مقام پر وہ اعلانِ نون کو درست جانتے ہیں اور فارسی کلام بھر میں ان کے ،کہیں اس طرح اعلانِ نون نہیں دیکھا۔ یعنی فارسی کلام میں اہلِ زبان کا اتّباع کرتے ہیں اور اردو میں نہیں کرتے۔
ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیّتِ شادی
کہ صبحِ عید مجھ کو بد تر از چاکِ گریباں ہے
’ یہ ‘ کا لفظ ’ اس قدر ‘ کے معنی پر تمام شعرا باندھا کرتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترک ہے۔
قصائد
کفِ ہر خاکِ بگردوں شدہ ،قمری پرواز
دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ، طاؤس شکار
لفظِ ’ خاک ‘ کو بکسرۂ توصیفی پڑھنا چاہیے اس لیے کہ ’ بگردوں شدن ‘ اس کی صفت ہے نہ خبر۔۔۔۔ حاصل یہ کہ فیضِ بہار نے ہر شے میں جان ڈال دی ہے کہ ہر کفِ خاک قمری بن گئی اور ہر شعلہ طاؤس بن گیا۔
وہ شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمیرِ سرا
چشمِ جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار
اس شعر کی بندش میں نہایت خامی ہے کہ مطلب ہی گیا گذرا ہوا۔ غرض یہ تھی کہ : ڈھیلے جبریل کی آنکھوں کے ہیں خشتِ دیوار۔۔۔موصول کو اگر ’ پئے ‘ کا مضاف الیہ لو تو ’ جس کے ‘ پڑھو۔ اور اگ ’ سرا ‘ کی اضافت لو تو ’ جس کی ‘ پڑھنا چاہیے۔ اس قسم کی ترکیبیں خاص اہلِ مکتب کی زبان ہے۔ شعرا کو اس سے احتراز واجب ہے۔
ذرّہ اس گرد کا خورشید کو آئینۂ ناز
گرد اس دشت کی امّید کو احرامِ بہار
دونوں مصرعوں کی ترکیب کا متشابہ ہونا اور مصرعوں کے درمیان خورشید و امید کا سجع آنا باعثِ حسنِ شعر ہوا۔ پھر لفظِ ’ گرد ‘ کی تکرار اور بھی آئینے کو جِلا دے گئی۔
جوہرِ دستِ دعا آئینہ ، یعنی تاثیر
یک طرف نازشِ مژگاں و دگر سو غمِ خار
’ جوہرِ دستِ دعا آئینہ ‘ کی ترکیب اردو تو کیا فارسی میں بھی غریب ہے۔دستِ دعائے ممدوح کو آئینہ فرض کیا ہے اور آئینۂ دستِ دعا کو بہ قلبِ اضافت دستِ دعا آئینہ کہا ہے۔۔۔ بندش کی خامی اور مضمون کی نا تمامی سے یہ شعر خالی نہیں۔
جاں پناہا ! دل و جاں فیض رسانا ! شاہا !
وصیِ ختمِ رُسُل تو ہے بہ فتوائے یقیں
’ دل و جاں فیض رسانا ‘ یعنی دل و جاں کو فیض پہنچانے والے۔ اردو تو اردو ایسی ترکیبیں فارسی میں بھی لانا خلافِ فصاحت ہے۔
دلِ الفت نسب و سینہ توحید فضا
نگہِ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں
دل کی صفت الفت نسب اور سینے کا وصف توحید فضا دونوں ترکیبیں ایسی مہمل ہیں کہ خدا ہی ہے جو اس کے معنی کچھ بن سکیں۔ دوسرا مصرع بہت خوب کہا ہے۔
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنیِ الہام
فعل اور قول کا اور صورت و معنی کا مقابلہ ، اعجاز و الہام کا تناسب ، پھر دونوں مصرعوں کی ترکیب کا تشابہ، خوبیِ شعر کا باعث ہے۔
چشمِ بد دور خسروانہ شکوہ
لوحش اللہ ، عارفانہ کلام
لوحش اللہ ماشاء اللہ کے محل پر فارسی والے بولتے ہیں۔ مگر عربی میں یہ جملہ کہیں دیکھنے میں نہیں آیا نہ لوحش اللہ کوئی لفظ عربی ہے۔ اور میں اس کا استعمال فارسی و اردو میں غلط سمجھتا ہوں۔
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبدِ تیز گرد و نیلی فام
حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
’ کہا گیا کہ کہیں ‘ اور ’ لکھا گیا کہ لکھیں ‘ ان دونوں فقروں کی ترکیب تازگی سے خالی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔