غالبؔ کہتے ہیں :
یا یہ ہوگا کہ فرطِ رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت سے
انگبیں کے ، بحکمِ ربّ النّاس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
’ ربّ النّاس ‘ بھرتی کا لفظ ہے۔ قافیے کی ضرورت رفع کرنے کے لیے یہ تکلف کیا ہے۔ عربی و فارسی کے الفاظ جو محاورۂ اردو میں جاری نہیں ہیں اور غریب معلوم ہوتے ہیں اکثر فصحا کے کلام میں موجود ہیں لیکن وہاں تازگیِ لفظ ان کو منظور ہوتی ہے اور اس کے لیے خاص مقامات ہیں۔ کسی کو یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ ہمیں بھی اسی طرح کا غریب لفظ باندھنا درست ہے۔ یہاں ایک نکتۂ باریک ہے کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ تاہم اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ فصحا جہاں پر کسی ایسے لفظ کو استعمال کرتے ہیں وہ لفظ معلوم ہوتا ہے کہ نگینہ جڑ دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض مقامات کا مقتضا یہ ہوتا ہے کہ ادیب چاہتا ہے آسمان سے تارے توڑ لائے اور لفظ کے بدلے یہاں لگادے مثلاً کبھی فرطِ محبت کے مقام پر جدّتِ الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ جیسے آتشؔ کہتے ہیں
ان انکھڑیوں میں ا گر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا
اظہارِ شان و شوکت کے مقام پر میر انیسؔ کہتے ہیں ، ع۔۔ حلّے انھیں استبرق و سندس کے ملیں گے۔۔۔ مبالغے کے مقام پر غالبؔ نے جدتِ لفظ کیا خوب کی ہے ، ع شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے۔۔۔
جو شخص تازگیِ الفاظ کے مقامات کو پہچانتا ہے اور الفاظِ تازہ ڈھونڈھ لیتا ہے؛ خبر کو انشا کی صورت میں ادا کر سکتا ہے؛حقیقت کی جگہ مجاز ، اور تصریح کے مقام پر کنایہ کے استعمال پر قدرت رکھتا ہے ؛ اور تشبیہِ متحرک بہ متحرک معنی صیرورت کے ساتھ لا سکتا ہے؛اور محاورے میں ڈوب کر لکھتا ہے ، اور مطلب دل نشین کر دیتا ہے بس اسی کا قلم سحر طراز ہے۔ ابنِ رشیقؔ کہتے ہیں : جس کی طبیعت معنی آفریں نہ ہو ، جس کے الفاظ میں تازگی نہ ہو یا اور لوگ جس بات میں اداے معانی سے قاصر رہ جاتے ہیں ادیب اس میں معنی زیادہ نہ کر سکے ، یا یہ کہ جس بات میں غیر ضروری الفاظ وہ بول جاتے ہیں شاعر و ادیب اس میں لفظ نہ کم کر سکے یا ایک بات کو پھیر کر دوسری طرف نہ لے جا سکے ، اسے ادیب و شاعر نہیں کہہ سکتے۔
لیکن لفظ کی تازگی و ابتذال کو پہچاننا فطری امر ہے ، جیسے ہرن اور چیتل کا خوش نگاہ ہونا اور گرگ و شغال کا بد نظر ہونا بحکمِ فطرت ہے۔ جو شخص اس ودیعتِ فطری سے محروم ہے وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ (غالبؔ کے)اس قطعے (در صفتِ انبہ ) میں ’ انگبیں ‘ کا لفظ تازہ ہے اور ’ربّ النّاس ‘ غریب ہے۔ ’ سربہ مہر ‘ خوبصورت ہے اور لفظِ ’ رافت ‘ کریہہ۔
ابنِ ا ؔثیر لکھتے ہیں :کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جولفظ کے حسن و قبح کے منکر ہیں اور قائل ہیں کہ واضع نے جو لفظ بنایا ہے اچھا ہی ہے ، ان کی یہ مثال ہے جیسے کوئی نازنینِ سہی قد و نازک اندام میں اور ایک حبشن میں کچھ فرق نہ کرے۔
معنی و لفظ کے متعلق جو مباحث فنِّ بلاغت میں مذکور ہیں اس کا ذکر یہاں لطف سے خالی نہیں۔ بڑے بڑے فصحاے ماہرین و ائمۂ فنِ بلاغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معانی ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں ، فقط لفظ و بندش و طرزِ ادا کاتب و ادیب کا کمال ہے۔ ماہیتِ انسانی سب میں ایک ہی ہے ، انفعالات سب طبیعتوں میں ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ پھر مضامین کہاں سے الگ الگ آئیں گے۔ اور لفظ کا غلبہ معانی پر ظاہر ہے۔ مثلاً یوں کہیں گے کہ تو آفتاب ہے ، اور یوں نہیں کہہ سکتے کہ تو سورج ہے۔ اس سبب سے علما نے معانی کے مباحث کی طرف بہت کم توجّہ کی۔ فقط اقسام بیان کر کے رہ گئے۔ یعنی : مدح و تشبیب ، ہجا و رثا ، اعتذار و استعطاف ، زجر و عتاب ، فخر و وصف ، شکر و شکایت۔ بس آگے آئی آیت۔ اور الفاظ کے مباحث اور اداے معانی کے طریقے بیان کرنے میں پانچ فن منضبط کیے ہیں : صَرف ، نحو ، معانی ، بدیع، بلکہ فنِ لغت و مصطلحات بھی اس میں شامل ہے۔
ابنِ رشیق کہتے ہیں : اکثر لوگوں کی راے یہی ہے کہ خوبیِ لفظ میں معانی سے زیادہ اہتمام چاہیے۔ لفظ قدر و قیمت میں معنی سے بڑھ کر ہے اس سبب سے کہ معنی خلقی طور سے سب کے ذہن میں موجود ہیں۔ اس میں جاہل و ماہر دونوں برابر ہیں لیکن لفظ کی تازگی اور زبان کا اسلوب اور بندش کی خوبی ادیب کا کمال ہے۔ دیکھو ، مدح کے مقام میں جو کوئی تشبیہ کا قصد کرے گا وہ ضرور کرم میں ابر ، جرأت میں ہزبر ، حسن میں آفتاب کے ساتھ ممدوح کو تشبیہ دے گا۔ لیکن اس معنی کو اگر لفظ و بندش کے اچھے پیرائے میں نہ ادا کر سکا تو یہ معنی کوئی چیز نہیں۔ غرض کہ یہ مسلّم ہے کہ معانی میں سب کا حصہ برابر ہے اور سب کے ذہن میں معانی بحسبِ فطرت موجود ہیں۔ایک ، دوسرے سے معنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ کسی کاتب یا شاعر کو معنی آفریں یا خلّاقِ مضامین جو کہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو معانی کسی قلم سے نہ نکلتے تھے وہ اس نے بیان کیے ۔
اور یہ شبہ کرنا کہ ہر مضمون کے چند محدود پہلو ہوتے ہیں جب وہ تمام ہو چکتے ہیں تو اس مضمون میں تنوّع کی گنجائش نہیں رہتی۔ اب بھی اگر اس کی چتھاڑ کیے جائیں گے تو بجاے تنوّع ، تکرار و اعادہ ہو نے لگے گا ، صحیح نہیں۔ تفنن و تنوّع کی کوئی حد نہیں۔
ِ مثلاً دو لفظوں کا ایک مضمون ہم یہاں لیتے ہیں : وہ حسین ہے۔اس میں ادنیٰ درجے کا تنوع یہ ہے کہ لفظ حسین کے بدلے اس کے مرادف جو الفاظ مل سکیں انھیں استعمال کریں ، مثلاً: وہ خوبصورت ہے ، وہ خوش جمال ہے ، وہ خوش گلو ہے ، وہ سندر ہے ، اس کے اعضا میں تناسب ہے ، حسن اس میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد بدلالتِ قرینۂ مقام ذرا معنی میں تعمیم کر دیتے ہیں ، مثلاً وہ آشوبِ شہر ہے ، کوئی اس کا مدِّ مقابل نہیں ، اس کا جواب نہیں ، اس کا نظیر نہیں ، وہ لاثانی ہے ، وہ بے مثل ہے ، وغیرہ۔پھر اس مضمون میں ذرا تخصیص کر دیتے ہیں لیکن ویسی ہی تخصیص جو محاورے میں قریب قریب مرادف کے ہوتی ہے، کہتے ہیں : وہ خوش چشم ہے ، وہ خوب رو ہے ، وہ موزوں قد ہے ، وہ خوش ادا ہے ، وہ نازک اندام ہے ، وہ شیریں کار ہے ، وغیرہ وغیرہ۔پھر اس مضمون کو تشبیہ میں ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں : وہ چاند کا ٹکڑا ہے ، اس کا رخسارہ گلاب کی پنکھڑی ہے ، اس کا رنگ کندن سا چمکتا ہے۔۔۔ وغیرہ
پھر اسی مضمون کو استعارہ میں ادا کرتے ہیں۔ مثلاً آفتاب سے اس طرح استعارہ کرتے ہیں : اس کے دیکھے سے آنکھوں میں چکا چوند آ جاتی ہے۔ (اسی طرح چاندسے ، چراغ سے ، شمع سے ، برقِ طور سے آئینے سے استعارہ کرتے ہیں۔)
پھر اسی مضمون کو کنایہ میں بیان کرتے ہیں۔ رنگ کی صفائی سے کنایہ کرتے ہیں کہ وہ ہاتھ لگائے میلا ہوتا ہے۔ تناسبِ اعضا سے کنایہ کرتے ہیں کہ وہ حسن کے سانچے میں ڈھلا ہے، خدا نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ رنگ کی چمک سے کنایہ کہ اس کے چہرے کی چھوٹ پڑتی ہے۔ چہرے کی روشنی سے کنایہ کہ اس کے عکس سے آئینہ دریاے نور ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد تازگیِ کلام کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خبر کو انشا کر دیں : اللہ رے تیرا حسن، تو اتنا خوبصورت کیوں ہوا ، سچ بتا تو انسان ہے یا پری ، کہیں حور تو نہیں۔ حور نے یہ شوخی کہاں پائی ، تو خدائی کا دعویٰ کیوں نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔
پھر دیکھیے مرادفات میں کس قدر تنوع ہے اور کس قدر تازگیِ لفظ و محاورہ کو اس میں دخل ہے۔تعمیم کے کتنے مراتب ہیں۔ تخصیص کے کس قدر درجے ہیں۔تشبیہ کی کتنی صورتیں ہیں۔ استعارے کے کتنے انداز ہیں۔ کنایہ کی کتنی قسمیں ہیں۔ انشا کے کس قدر اقسام ہیں۔ پھر ان سب کے اختلافِ ترتیب و اجتماع کو کسی مہندس سے پوچھیے تو معلوم ہو کہ ایک حسن کے مضمون میں تقریباً لا تعد و لا تحصےٰ پہلو نکلتے ہیں۔
یہ چند مثالیں فقط لفظ، ’ حسین ‘ کے بعض تنوعات کی تھیں جو گذریں۔ اسی پر قیاس کر لینا چاہیے کہ اگر مضمون طولانی ہو تو کس قدر اس میں تنوع کی گنجائش ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک ہی معنی کے لیے طرزِ بیان بھی ہر شخص کا الگ الگ ہے۔ پھر زمینِ شعر اسی لیے طرح کی جاتی ہے کہ اداے معانی کے لیے تازہ پہلو ہاتھ آئیں (مثلاً یہ شعر )
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
طبیعتوں کا چالاک ہونا محاورہ ہے۔ اس مقام پر جمع اور مفرد دونوں طرح بولتے ہیں لیکن مصنف پہلے شخص ہیں جنہوں نے جمع کے ساتھ نظم کیا ۔ اور تازگیِ لفظ اسی کو کہتے ہیں۔(اور ایک شعر ہے)
خامہ میرا کہ وہ ہے باربدِ بزمِ سخن
شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے
( اس )شعر میں لفظ ’ باربد ‘ ایسا دلکش ہے جیسے تارِ رباب پر نغمہ۔ یہاں سامنے کے الفاظ مطرب و نوا سنج وغیرہ تھے۔ انھیں مصنف نے چھوڑ دیا اور باربد کو استعمال کیا۔ دیکھو ، مجاز میں حقیقت سے زیادہ حسن ہے اور لفظ کے تازہ کرنے کا پہلو جو مصنف نے یہاں نکالا ہے یاد رکھنے کا ہے۔ یعنی یوں کہنا کہ تو ظالم ہے اس سے یہ بہتر ہے کہ توچنگیز ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے : ع ۔۔۔۔
لفظے کہ تازہ است بہ مضموں برابر است
ہاں ، مضمون کی تکرار اس نہج سے کہ دوسرے میں وہی طرزِ بیان اور وہی پہلو ہو جو اوّل میں تھا بے شک سمع خراش ہے۔ جیسے میر ممنونؔ مرحوم کا دیوان ہے کہ چند لطیف مضمون اور چند اغراق کے پہلو ہیں کہ کوئی غزل اور قصیدہ اس سے خالی نہیں۔ برخلاف ان کے غنیؔ کشمیری نے اس قدر آسیا کے مضامین اپنے دیوان میں بھرے ہیں کہ لکھنؤ میں اس کا نام بیکا ر ’ پسنہاری والا ‘ مشہور ہو گیا لیکن ہر مضمون الگ الگ ہے کہ اسے تکرارِ مضمون نہیں کہہ سکتے۔ غالبؔ کے یہ دونوں شعر
مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لا ئے مرے بالیں پہ اسے پر کس وقت
مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ، ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشقِ بیمار کے پاس
تکرارِ بے مزہ سے خالی نہیں۔ ہاں ، معشوق کے رشک و بد گمانی کا مضمون غالبؔ نے ایک عجیب و غریب پہلو سے ادا کیا ہے
بد گماں ہوتا ہے وہ کافر ، نہ ہوتا کاشکے
اس قدر ذوقِ نوائے مرغِ بستانی مجھے
پھر اسی بد گمانی کے مضمون کو اسی پہلو کے ساتھ تشبیہ کا رنگ دے کر کہتے ہیں
کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
اب اگر ان دونوں شعروں میں مرغِ بستانی و طوطی پر رشک کرنے کومضمون سمجھ لو اور یہ کہو کہ اس میں تکرارِ معنی ہو گئی ہے تو یہ نزاع لفظی ٹھہرے گی۔اصل امر یہہے کہ مرغِ بستانی و طوطی پر معشوق کا رشک کرنا معنیِ رشک کے ادا کرنے کا ایک پہلو ہے اور تکرارِ پہلو کے سبب سے بے مزگی پیدا ہوئی ہے۔۔۔ اور پہلو بھی وہ پہلو جو مقتضاے عادت کے خلاف ہے۔ اس میں تکرار نہ بھی ہوتی تو بھی بے مزہ تھا۔ غرض کہ ان دونوں شعروں میں بھی تکرارِ معنی کے سبب سے بے مزگی پیدا نہیں ہوئی ہے۔جس پہلو سے معنی کو ادا کیا ہے وہ پہلو بے لطف ہے اور تکرار سے اس کی اور بھی زیادہ بے لطفی اور بے مزگی پیدا ہوئی۔
اس مثال سے یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ اداے معانی کا پہلو یا پیرایہ یا طرز وہ چیز ہے کہ اس کی تکرار نا گوار ہوتی ہے کہ وہ اصل میں تکرارِ لفظ ہے ، نہ تکرارِ معنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔