کلامِ تام (یا مرکّبِ مفید ، یا جملہ ) یا تو کسی واقعے کی خبر دیتا ہے کہ اس کے کہنے والے کو جھوٹا یا سچا کہہ سکتے ہیں ، مثلاً ’ زید امتحان میں کامیاب ہو گیا ‘ .... یا اس سے متکلّم کی کوئی خواہش یا آرزو وغیرہ ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جس کے کہنے والے کو جھوٹا یا سچا نہیں کہہ سکتے۔
اگر جملے سے کوئی خبر ظاہر ہو تو وہ جملۂ خبریہ، کہلاتا ہے۔
اگر سواے خبر کچھ آرزو یا خوا ہش یا تعجب یا استفہام یا امر و نہی یا ندا یا دعا وغیرہ ظاہر ہو تو ایسے جملے کو جملۂ انشائیہ کہتے ہیں۔
( ماخوذ و منقول از ’ تسہیل البلاغت ‘ مؤلفۂ سجاد مرزا بیگ دہلوی)
.....................................
شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی
یہ مسایلِ تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
یہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ خبر سے انشا میں زیادہ مزہ ہوتا ہے۔ پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالبؔ تیری زبان سے اسرار تصوف نکلتے ہیں۔۔ الخ ، تو یہ شعر جملۂ خبریہ ہوتا۔ مصنف کی شوخیِ طبع نے خبر کے پہلوکو چھوڑ کر اسی مضمون کو تعجب کے پیرائے میں اداکیااوراب یہ شعر سارا جملہ انشا ئیہ ہے۔
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا ، اشارت کیا ، ادا کیا
’ کیا ‘ اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیانِ مساوات کے لیے لاتے ہیں۔
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بسر انداز
دونوں مصرعوں میں سے منادی بھی محذوف ہے اور فعل بھی۔ یعنی اے نازنین ، تیرا غمزہ یک قلم انگیز ہے۔ اے ظالم تیرا ظلم سر بسر اندازِ معشوقانہ ہے۔ ان دونوں جملوں کی صورت خبر کی ہے۔ مگر شاعر کو قصد انشا ہے۔ اور منادی کا محذوف ہونادلیل ہے اس بات پر کہ خبر نہیں ہے۔
بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر غالبِ ؔوحشی ، ہے ہے
۔۔۔ خبر سے زیادہ انشا میں لطف ہے یعنی انشا ادفع فی القلب ہے۔ اسی سبب سے جو شاعر مشّاق ہے وہ خبر کو بھی انشا بنا لیتا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے خبر کے پہلو کو ترک کر کے شعر کو نہایت بلیغ کر دیا یعنی دوسرا مصرع اگر یوں ہوتا : بیٹھا کرتا تھا جو آ کر تری دیوار کے پاس ، یا اس طرح ہوتا : ابھی بیٹھا تھا جو آکر تری دیوار کے پاس ، یہ دونوں صورتیں خبر کی تھیں۔ اور ’ ہے ہے ، بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس‘ ، جملۂ انشائیہ ہے۔ اور ’ وہ ‘ کا اشارہ اس مصرع میں اور بھی ایک خوبی ہے جو اُن دونوں میں نہیں ہے۔
غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں بندگیِ بو تراب میں
اس مضمون کا ایک شعر ناسخؔ کا بہت مشہور ہے
بیعت خدا سے ہے مجھے بے واسطہ نصیب
دستِ خدا ہے نام مرے دستگیر کا
ناسخؔ نے پہلے مصرع میں ادّعا کیا ہے اور دوسرے مصرع میں توجیہ۔ اور مصنف نے دلیل کو دعوے پر مقدّم کر دیا ہے ، لیکن دعوے میں ابہام ہوتا ہے اور دلیل میں انکشاف ہوتا ہے۔ اس سبب سے آدابِ انشا میں دعوے کو دلیل پر مقڈّم رکھنا بہتر ہے کہ ابہام کے بعد انکشاف لذیذ تر ہوتا ہے۔
تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
معشوق کی بد عہدی و وعدہ خلافی کو جو لوگ الٹ پلٹ کر کہا کرتے ہیں وہ اس شعر میں تامل کریں کہ اس مضمونِ کہن کو کیا آب و رنگ دیا ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ میں جب انھیں وعدہ یاد دلاتا ہوں وہ کہتے ہیں : یاد نہیں۔ مگر اس مطلب کو ملامت گر کی زبانی ادا کیا ہے یعنی خبر کے پہلو کو ترک کر کے اس مضمون کو انشا کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
کیا غم خوار نے رسوا ، لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جوغم کی وہ میرا راز داں کیوں ہو
محبت سے غم خوار کی شفقت مراد ہے۔ اس شعر میں مصنف کی انشا پردازی داد طلب ہے۔ کیا جلد خبر سے انشا کی طرف تجاوز کیا ہے۔ ’ کیا غم خوار نے رسوا ‘ بس اتنا ہی جملہ خبریہ ہے اور باقی شعر انشا ہے یعنی ’ لگے آگ اس محبت کو ‘ کوسنا ہے اور دوسرا مصرع سارا ملامت و سر زنش ہے۔دوسرا امر وجوہِ بلاغت میں سے مضمون سے تعلق رکھتا ہے یعنی اپنے غمِ دل کی حالت بہ کنایہ ظاہر کی ہے۔
ڈھونڈھے ہے اس مغنی ِّ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
یعنی ایسے سماع کو جی چاہ رہا ہے جس کے سننے سے وہ حال آئے کہ فنا فی الذات ہو جاؤں۔ مگر اس شعر میں یہ کہنا کہ ایسا ہو ، ویسا ہو ، شعر کو سست کر دینا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر اس مضمون کو انشا میں ڈھالا ہوتا اور یوں کہتے کہ ع ’ تیری صدا ہے جلوۂ برق ِفنا مجھے ‘۔۔۔ تو زیادہ لطف دیتا۔
مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمھیں
وہ ولولے کہاں ، وہ جوانی کدھرگئی
پہلا مصرع انشاے تاسف کے لیے ہے اور دوسرا استفہام ہے۔ غرض یہ کہ سارا شعر انشا ہے۔ دوسری خوبی پورا نام لقب سمیت آنے سے پیدا ہوئی۔ لفظ خان سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ کسی زمانے میں قوت و سطوت تھی جسے پیری نے مٹا دیا۔
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غمہاے نہانی اور ہے
’ کہاں ‘ کے بدلے ’نہیں ‘ کا لفظ بھی آ سکتا تھا۔ مگر اس صورت میں جملہ خبریہ ہوتا۔ اور اب استفہامِ انکاری نے انشائیہ کر دیا اور انشا خبر سے بہتر ہے۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو دریا کر دینا اور ادنیٰ کو اعلیٰ بنا دینا ایک مبتذل مضمون ہے جسے جملۂ خبریہ میں لوگ کہا کرتے ہیں۔ مصنف کی انشا پردازی کا زور دیکھیے کہ اسی پرانے مضمون کو جملۂ انشائیہ میں ادا کیا ہے۔
بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام
شعر میں انشاے تعجب ہے۔ ابرام ضد کرنے کے معنی پر ہے۔