ذیل میں علمِ صَرف و نحو کی صِرف اُن ا صطلاحات کا مختصر تعارف کرایاجاتا ہے جو علّامہ نظم طباطبائی نے غالبؔ کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے استعمال کی ہیں۔ تفصیل کے لیے وہ مبسوط کتابیں دیکھنی چاہییں جوان علوم پر لکھی گئی ہیں۔
۔۔یہ اقتباسات مندرجہ ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں :۔
۔۔غیاث اللغات (ملّا غیاث الدین رامپوری)
۔۔قواعدِ اردو : مولوی عبد الحق
۔۔آئینِ اردو : مولانا زین العابدین فرجاؔد کوتانوی
۔۔تسہیل البلاغت : پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی
.......................
جس طرح ہر شے کا ظاہر اور باطن ہوتا ہے اسی طرح الفاظ کا بھی ظاہر باطن ہوتا ہے۔ظاہر وہ ہے جس کا تعلق صَرف سے ہے ، یعنی اس میں صِرف صورت کی تبدیلی وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔لفظ کا باطن اس کا مفہوم اور معنی ہیں۔با معنی لفظ کو کلمہ کہتے ہیں۔جن کلمات سے کلا م مرکّب ہوتا ہے اُن کلمات کے باہمی تعلق ، ترتیب ، مناسبت اور عمل سے (یعنی ان کے معنی کے لحاظ سے )علمِ نحو میں بحث کی جاتی ہے۔ صَرف و نحو سے الفاظ کا اشتقاق اور ان کا جملوں میں صحیح طور پر ترتیب دینا آتا ہے۔
مرکّبِ تام (یا مرکّبِ مفید یا جملہ): جب دو یا دو سے زیادہ کلمے باہم اس طرح ملا کر(مرکّب کر کے ) بولے جائیں کہ کہنے والے کی غرض اورمدّعا سننے والے پر پورے طور سے ظاہر ہو جائے تو ایسے مرکّب کو کلام کہیں گے،جیسے: خالد بڑا نیک مرد ہے۔
مرکّبِ ناقص: جس مرکب سے کہنے والے کی غرض و مدّعا پورے طور پر سننے والے کو معلوم نہ ہو سکے ایسے مرکب کو مرکّبِ ناقص کہیں گے ، جیسے: زید کا گھوڑا۔
اسناد : مرکّبِ تام (یا مرکّبِ مفید ، یا کلام ، یا جملہ )میں اسناد کا ہونا لازم ہے۔مرکبِ تام کے اجزا کا وہ تعلق جو سننے والے کو کہنے والے کے مدّعا پرمکمل طور سے آگاہ کردے اسناد کہلاتا ہے۔
مبتدا یا مسند الیہ: جس چیز کا تعلق کسی دوسری چیز سے ظاہر کیا جاتا ہے اس کو مبتدا ،یا، مسند الیہ کہتے ہیں۔ اردومیں اکثر مسند الیہ پہلے آتا ہے۔
خبر یا مسند: جس چیز سے کسی دوسری چیز کا تعلق قائم کیا جاتا ہے اس کو خبر، یا ، مسند کہتے ہیں۔ اردو میں مسند ،مسند الیہ کے بعد بولا جاتا ہے۔مثلاً : زید انسان ہے۔ اس مرکبِ تام میں زید کا تعلق انسان ہونے کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے اس لیے ’ زید ‘ مبتدا ،یا مسند الیہ ہے۔ اور انسان ہونے کے ساتھ یہ تعلق قایم ہے اس لیے ’ انسان ‘ خبر یا مسند ہے۔ اوروہ تعلق جو زید کا انسان ہونا ظاہر کر رہا ہے اسناد ہے۔
مسند الیہ بجاے اسم کے کوئی ضمیر بھی لا سکتے ہیں۔ (ایسے موقعوں پر مسند الیہ معرفہ یعنی کو ئی شخصِ معیّن ہوتا ہے )مثلاً: میں کتاب پڑھتا ہوں ! ہم کتاب پڑھتے ہیں۔
اسمِ خاص یا اسمِ معرفہ : ایسا نام جس سے خاص شخص یا خاص چیز اکیلی سمجھی جائے جیسے اُسامہ ، بھوپال ، غالبؔ۔۔۔
اسمِ عام یا اسمِ نکرہ : ایسا نام جو کسی ایک شخص یا چیز یا کئی شخصوں یا چیزوں کے لیے خاص نہ ہوبلکہ اس کا اطلاق ایک نوع یا جنس کی ہر فرد پر ہو سکتا ہو۔۔۔اُسامہ اسمِ معرفہ یعنی شخصِ معیّن کا نام ہے لیکن انسان اسمِ نکرہ ہے۔ اسی طرح ہمالیہ اسمِ معرفہ ، اور پہاڑ اسمِ نکرہ ہے۔
ضمیر: ایسا کلمہ جوکسی شخص یا چیز کے نام کے عوض بولا جائے اور بولنے میں ایک ہی نام کو بار بار دہرانا نہ پڑے، جیسے : زید آیا تھا ،وہ کہتا تھا میں جلدی میں ہوں اور میری طبیعت بھی درست نہیں۔۔۔ اس کلام میں زید اسم ہے اور الفاظ وہ ، میں ، میری ضمیر ہیں جو بجاے اسمِ زید آئے ہیں۔
ضمیرِ نکرہ: وہ ضمیر ہے جو غیر معیّن شخص یا چیز کے لیے بولی جائے ، جیسے :کوئی آرہا ہے۔کچھ بیٹھے ہیں ، کئی چلے گئے ضمیرِ نکرہ کے لیے اکثر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں : کوئی ، کچھ ، کئی، بعض ،سارا (جیسے: سارا کھا گیا )، سب ، کُل ، تمام وغیرہ۔
حصر: ’ ہر ‘ اور ’ جو ‘ حصر کے واسطے آتے ہیں اور جو لفظ ان کے بعد آتا ہے وہ جنس کا حکم رکھتا ہے۔ ’ جو پیدا ہوا ہے مرے گا ‘ تمام پیدا ہونے والے ایک جنس میں ہیں۔
ضمیرِ موصولہ: ایسی ضمیر جو کسی اسم یا ضمیر کی جگہ بیانیہ جملے میں آئے ، ضمیرِ موصولہ کہلاتی ہے۔ یہ دو فقروں میں ربط پیدا کرتی ہے۔ ضمیرِ موصولہ صِرف ’ جو ‘ ہے جس کی مختلف حالتیں یہ ہیں : جس ، جن ، جنھوں۔کبھی ’ کہ ‘ بطور ضمیر موصولہ کے استعمال ہوتا ہے ، جیسے ، ع۔۔۔
’میں کہ آشوبِ جہاں تھا پہلے ‘ جس اسم کے لیے یہ ضمیر آتی ہے اسے مرجع کہتے ہیں۔
صلہ: ضمیرِ موصولہ کے بعد کا فقرہ ’ صلہ‘ کہلاتا ہے اور’ موصول‘ اور’ صلہ‘ مل کر جملے کا پورا جزو ہوتے ہیں۔صلہ کی مثال : وہ قلم جو تم نے دیا تھا کھویا گیا۔۔۔ جو کل آیا تھا وہ چلا گیا۔۔۔
جزا: اگر ضمیرِ موصولہ میں شرط کے معنی پائے جائیں تو اس کے بعد کے فقرے کو جزا کہتے ہیں۔ جزا کی مثال: جو تم کہتے تو میں جاتا۔ جو تم بلاتے تو میں آتا۔۔۔
اضمار قبل الذکر: پہلے ضمیر استعمال کرنا اور اس کے بعد مرجع کا نام لینا۔ اس سے مقصد سامع کا مشتاق کرنا ہوتا ہے۔
ضمیرِ مُستَتِر: (یعنی پنہاں ، چھپی ہوئی) جیسے: ’ آ ہستہ آ ہستہ چل‘ (اس میں ’ تو ‘ ضمیرِ فعلِ مستتر ہے )۔: ’ کدھر سے آنا ہوا ‘ (ا س میں ’ آپ کا ‘ یا ’ تمھارا ‘ ضمیرِ فاعلِ مستتر ہے۔)
فعل : ایسا کلمہ ہے جس سے کسی شے کا ہونا یا کرنا ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے: تماشا شروع ہوا ، اس نے خط لکھا ، ریل چلی۔
معنی کے لحاظ سے فعل کی تین قسمیں ہیں : (۱ ) لازم (۲ ) متعدی اور (۳ ) ناقص۔
فعلِ لاز م تام: ایسا فعل جو فاعل سے مل کر پورا مطلب ظاہر کردے۔ مگر اس کا اثر صرف کام کرنے والے یعنی فاعل تک رہے اور بس۔ جیسے : احمد آیا۔ پپیہا بولا۔
فعلِ متعدی: وہ ہے جس کا اثر فاعل سے گذر کر مفعول تک پہنچے۔جیسے : احمد نے خط لکھا۔ یہاں ’ لکھا‘ فعل ہے ،’ احمد‘ اس کا فاعل اور’ خط‘
(جس پر لکھنے کا فعل واقع ہوا ہے )مفعول ہے۔
فعلِ ناقص: وہ ہے جو کسی پر اثر نہ ڈالے بلکہ کسی اثر کو ثابت کرے۔ جیسے احمد بیمار ہے۔ اس جملے میں فعل کا کرنا نہیں بلکہ ہونا پایا جاتا ہے۔ احمد، جو یہاں فاعل ہے ، کام کرنے والا نہیں بلکہ فعل کا سہنے والا ہے، اور بیمار خبری حالت میں ہے۔افعالِ ناقص اکثر یہ آتے ہیں : ہونا ، بننا ، نکلنا ، رہنا ، پڑنا ، لگنا ، نظر آنا ۔
جملہ اسمیہ: اصلی جملے کو ’ خاص جملہ ‘ اور اس کے ما تحت جملے کو تابع جملہ کہتے ہیں۔ جملۂ اسمیہ تابع جملہ ہوتا ہے جو بجائے خود ایک اسم کا کام دیتا ہے اور جملے کی ترکیب میں بجائے ایک اسم کے ہوتا ہے۔، جیسے: میرا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے۔ یہاں ’ خدا ایک ہے ‘ بجائے ایک اسم کے ہے۔ یعنی ہم اس کے بجائے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’ توحید میرا ایمان ہے ‘۔
جملہ اسمیہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو اصل جملے کے فعل سے مبتدا کا تعلق رکھتا ہو یا جو مبتدا کا بدل ہو۔ دوسرا وہ جواصل جملے کے فعل کو یا خبر کے کسی تابع کو محدود کرے یا اس پر اثر ڈالے۔
تمام اسمی جملوں کی ابتدا حرفِ ’ کہ ‘ سے ہوتی ہے ، جیسے:یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس کا کام نہیں ہے (یہاں تابع جملہ مبتدا ’ یہ ‘ کا بدل ہے )۔
اسمی جملہ جس کا تعلق خبر سے ہوتا ہے وہ جملے کے فعل کا مفعول ہوتا ہے ، جیسے : اس نے کہا کہ تم گھبراؤ نہیں۔۔۔ تم دیکھ کر آؤ کہ سامنے کون چلا جا رہا ہے۔
حالیۂ معطوفہ : اس کا تعلق ہمیشہ جملے کے اصل فعل سے ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جملے کے اصل فعل سے جس کام کا اظہار ہوتا ہے اس سے پہلے ایک کام ہو چکا ہے۔ چونکہ حرفِ عطف کے معنی اس میں شریک ہوتے ہیں اس لیے حالیۂ معطوفہ کہلاتا ہے۔ایسے موقع پر حرفِ عطف ’ اور ‘ عموماً استعمال کیاجاتا ہے ، چنانچہ غالبؔ ، علڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔
اسمِ فاعل: یہ وہ اسم ہے جو فعل سے بنتا ہے اور اس کے معنی کام کرنے والے کے ہوتے ہیں۔مثلاً زید آیا۔ یہاں زید فاعل ہے جس سے آنے کا فعل صادر ہوا ، اور آنے کی نسبت سے جو زید کا نام رکھا جائے یعنی ’ آنے والا ‘ تو اس نسبتی نام کو اسمِ فاعل کہیں گے نہ کہ فاعل۔ اسی طرح ’ اس نے کھایا ‘ میں ضمیر (اُس )فاعل ہے ، اور ’ کھانے والے نے کھایا ‘ میں کھانے والا اسمِ فاعل ہے۔کبھی صرف مصدر سے اسمِ فاعل کے معنی لیے جاتے ہیں : پھسلنا پتّھر ، رونا بچّا وغیرہ۔۔۔ کبھی صرف ’ والا‘ کسی اسم پر بڑھا دیں گے : زور والا ، محبت والا، رحم والا۔۔۔غرض اسمِ فاعل بنانے کے متعدد قاعدے ہیں۔
اسمِ فاعل ترکیبی: اسم کے ساتھ امر یا دوسرا اسم اضافہ کرنے سے بنتا ہے۔ جیسے : بخشن ہار ، ہونہار ، مرن ہار ، جان ہار۔۔۔ان مثالوں میں مثلاً ’ جانہار ‘ کا لفظِ ’ جان ‘ اسم نہیں بلکہ مصدر ’ جانا ‘ کا الف گرا کر ’ جان ‘ کر لیا ہے۔جان ہار میں اگر جان کو اسم اور ہار کو امر مانا جائے تو یہ اسمِ فاعل ترکیبی ہوگا۔ اسم فاعل ترکیبی کی دیگر مثالیں : بٹ مار ، چرواہا ، دودھ پیتا ، راہ چلتا ، کھٹ بُنا، چغل خور ، بے چین ، بے قرار ، بے جوڑ وغیرہ۔
اسم فاعل سماعی: اسی طرح فارسی اسم فاعل جو اردو میں مستعمل ہیں ، مثلاً راہرو ، راہبر ، راہ گیر ، کار ساز ، دل کشا ، جاں نواز ، غم گسار ، طاقتور ، دانشمند ، بینا ، توانا وغیرہ یہ سب اسمِ فاعل سماعی ہیں۔
اسم مفعول: جس اسم یا ضمیر پر فعل واقع ہو اور اس واقع شدہ فعل کی نسبت سے جو اس اسم یا ضمیر کا نام رکھیں اس کو اسمِ مفعول کہتے ہیں نہ کہ مفعول، جیسے لایا ہوا ، بلایا ہوا ، منگائی ہوئی ، لائے ہوئے وغیرہ۔اسم مفعول ہمیشہ فعلِ متعدی سے آتا ہے۔ یعنی اصل فعل متعدی ہوتا ہے۔
اسمِ مفعول ترکیبی: نکٹا ، کَن پھٹا ، بیاہتا ، دل پسند ، ناز پروردہ ، چشم دیدہ ، دست گرفتہ وغیرہ۔۔
تشابہ : یہ ہے کہ بعض اوصاف میں دو چیزیں متحد ہوں لیکن تمام اوصاف میں متحد ہونا ضروری نہیں۔قلم کئی طرح کے ہوتے ہیں ؛ نیزے کے قلم ، آہنی قلم ، سرمئی قلم ، پر کے قلم۔ لکھنے کی صفت میں سب میں یہی تشابہ ہے لیکن سب کے جوہر مختلف ہیں۔
مجاز: الفاظ کا اپنے حقیقی اور وضعی معنوں کے علاوہ اپنے معنیِغیر موضوع لہ میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اس کومجاز کہتے ہیں۔جب الفاظ اپنے غیر حقیقی معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ان غیرحقیقی معنوں میں استعمال کرنے کا کوئی قرینہ ہو اکرتا ہے ، جس سے یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ متکلم نے ان الفاظ کو وضعی معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ ’ زید کا ہاتھ کھلا ہوا ہے ‘ یعنی زید مسرف ہے یا سخی ہے۔ قرینہ اس میں یہ ہے کہ اگر ہاتھ میں روپیہ ہو اور اس کو خرچ کرنانہ چاہیں تو مٹھی بند رکھتے ہیں اور دیتے وقت کھول دیتے ہیں۔ تو جس شخص کا ہاتھ ہر وقت کھلا رہے وہ زیادہ سخی ہے علمِ بیان کی اصطلاح کے موافق ایسی دلالتِ غیر وضعی کو ، جس میں قرینہ پایا جاتا ہے ، مجاز کہتے ہیں۔ مجاز میں غیر حقیقی معنی لینے کا جو قرینہ پایا جاتا ہے وہ قرینہ کبھی علاقہ تشبیہ کا ہوتا ہے۔ اس کو استعارہ کہتے ہیں۔
کبھی سوا تشبیہ کے اور قرینے بھی ہوتے ہیں۔ اس کو مجازِ مرسل کہتے ہیں۔
استعارہ اور مجازِ مرسل میں الفاظ کے وضعی معنی لینے سے کلام مہمل ہو جاتا ہے۔
کنایہ : ایسی دلالتِ غیر وضعی جس میں قرینہ نہ پایا جائے ، کنایہ کہلاتی ہے۔’’ احمدکا دستر خوان بہت وسیع ہے‘ ‘۔دستر خوان کی وسعت مہمانوں کی کثرت پر دلالت کرتی ہے تو خواہ یہ مراد لی جائے کہ احمد مہمان نواز شخص ہے یا یہی کہ وہ کپڑا جو کھانا کھاتے وقت احمد کے سامنے بچھایا جاتا ہے بہت لمبا چوڑا ہے۔ یہ کنایہ ہے۔
علّت و معلول : ایک شے یا ایک واقعہ دوسری شے یا واقعے کا سبب ہو۔پہلی شے یا واقعہ علت ہے اور دوسرا معلول۔
تعقید: اگر کلام کی دلالت معانی پر صحیح اور واضح نہ ہو بلکہ تامل و غور کے بعد مطلب ظاہر ہو سکے تو اسے تعقید کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں : تعقیدِ لفظی اور تعقیدِ معنوی۔
تعقیدِ لفظی : الفاظ کی تقدیم و تاخیر یا حذف وغیرہ کی وجہ سے مطلب ظاہر نہ ہو تو یہ تعقیدِ لفظی ہے ، جیسے ناسخؔ
نہیں آتا نظر مرہم لگائے کس جگہ کوئی
دہانِ یار گویا منہ ہے میرے زخمِ پنہاں کا
الفاظ کی ترتیب نے معنی ہی بدل دیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہانِ یار کو زخمِ پنہاں کے منہ سے تشبیہ دی ہے اور دہانِ یار پر مرہم لگانا چاہتا ہے۔ درانحالے کہ شاعر کا مطلب یہ ہے کہ میرا زخمِ پنہاں دہانِ یار کی طرح پنہاں ہے ، نظر نہیں آتا۔ اس وجہ سے اس پر مرہم نہیں لگایا جاسکتا۔
تعقیدِ معنوی: اگرکلام میں بہت سے بعید لوازم اور کثیر واسطے ہوں لیکن وہ کلام میں مذکور نہ ہوں اور ان کے سمجھنے کے لیے بہت غور و تامل کرنا پڑتا ہو، تو یہ تعقیدِ معنوی ہے۔غالبؔ کا شعر ہے
نظر لگے نہ کہیں ان کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
لوازم اس شعر میں یہ ہیں کہ زخم کاری لگاہے جس سے یار کے دست و بازو کی قوت ظاہر ہوتی ہے۔ لوگ زخم کی گہرائی دیکھ کر عش عش کریں گے جس سے اس کے دست و بازو کو نظر لگنے کا اندیشہ ہے۔
غالبؔ نے قاضی عبد الجلیل جنونؔ بریلوی کو تحریر کیا ہے : ’ عربی میں تعقیدِ لفظی و معنوی دونوں معیوب ہیں۔ فارسی میں تعقیدِ معنوی عیب اور تعقیدِ لفظی جائز ہے ، بلکہ فصیح اور ملیح۔ ریختہ تقلید ہے فارسی کی ‘۔
شرحِ کلام غالبؔاز نظم طباطبائی
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہو رہی تھیں اور ہم یہاں جل رہے تھے۔ ’ سوختن کے باب سے ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے۔ نزاکت یہ ہے کہ اس امتدادِ زمانہ کو جوتصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتدادِ مکانی پرمنطبق کیا ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگا دینے کے قابل تھا۔
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ بچیں کہاں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
’ پہ ‘ بہ معنی ’ مگر ‘ اور ان معنی میں ’ پر ‘ فصیح ہے۔ اور آخرِ مصرع میں ’ ہے ‘ تامہ ہے اور پہلا ’ ہے ‘ ناقصہ۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا ا گر ایک بار ہوتا
’ کیا ہے ‘ میں ضمیر مستتر ہے ، مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے میں ہے کہ اگر اس شعر میں اضمار قبل الذکر اور ضمیر کو مستتر نہ لیں بلکہ ’ ہے ‘ کا فاعل ’ شبِ غم ‘ کو کہیں تو لطفِ سجع جاتا ہے تاہم خوبی اس شعر کی حد تحسین سے باہر ہے۔
ہو ائے سیرِ گل آئینۂبے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلتیدنِ بسمل پسند آیا
پہلے مصرع میں سے فعل محذوف ہے۔
یک الف بیش نہیں صیقل ِآئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
’ بیش نہیں ‘ بیانِ حصر کے لیے ہے مگر اردو کی نحو اس کی متحمل نہیں۔ یہ فارسی کا ترجمہ ہے۔
بخشے ہے جلوۂ گل ذوقِ تماشا ، غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
یعنی باغ میں رنگ رنگ کے پھول کھلتے ہوئے دیکھ کر یہ ذوق پیدا ہوتا ہے کہ اسی طرح ہر رنگ میں آنکھ کو وا کرنا چاہیے اور ہر طرح کی سیر کرنا چاہیے۔ ’ بخشے ‘ کا فاعل ’ جلوۂ گل ‘ ہے اور مفعول بہ ’ ذوقِ تماشا ‘ ہے اور دوسرا مصرع ذوقِ تماشا کی تفسیر ہے۔
ہے جنوں اہلِ جنوں کے لیے آغوشِ وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
’ ہے ‘ کا محل وداع کے بعد تھا لیکن ضرورتِ شعر کے سبب سے مقّد م کر دیا ورنہ نحوِ اردو میں فعل کو تمام متعلقات کے بعد ذکر کرتے ہیں۔ البتہ مقامِ استفہام میں کہتے ہیں ؛ ہے کوئی ایسا جو میری اعانت کرے۔
سر پھوڑنا وہ غالبِ شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
مصنف نے عاشق کی جگہ غالبؔ کہا اورنکرہ کے بدلے معرفہ کو اختیار کیا اور اس سبب سے شعر زیادہ مانوس ہو گیا۔
ہے خونِ جگر جوش میں ، دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خوننابہ فشاں اور
’ ہے خونِ جگر جوش میں ‘ جملۂ خبریہ ہے اور اس کے بعد آخرِ شعر تک تمنّا ہے اور یہ تمنّا مبنی ہے خبرِ سابق پر کہ تمنّا کرنے کی وجہ جوشِ خون ہے۔ اسی سبب سے مصنف نے یہاں انشا کے ساتھ خبر کو جمع کیا اور شعر میں بہ نسبت خبر کے انشا زیادہ لطف دیتی ہے۔
لیتا ، نہ اگر دل تمھیں دیتا ، کوئی دم چین
کرتا، جو نہ مرتا ، کوئی دن آہ و فغاں اور
دونوں مصرعوں میں شرط جزا کے درمیان میں (کذا )واقع ہوئی ہے اور دونوں مصرعوں کی ترکیب میں مشابہت اور معادلت ہے اور حسنِ بندش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دل تمھیں نہ دے دیا ہوتا تو کوئی دم چین لیتا ، اگر نہ مر جاتا تو کچھ دنوں آہ وفغاں کرتا۔۔۔
(ا ستدراک :۔ غالبؔ نے قاضی عبد الجلیل جنونؔ بریلوی کو ایک خط میں لکھا ہے : یہ بہت لطیف تقریر ہے۔ ’ لیتا ‘ کو ربط ہے ’ چین ‘سے۔ ’ کرتا ‘ مربوط ہے ’ آہ و فغاں ‘ سے۔ عربی میں تعقیدِ لفظی و معنوی دونوں معیوب ہیں۔ فارسی میں تعقیدِ معنوی عیب اور تعقیدِ لفظی جایز ہے ، بلکہ فصیح اور ملیح۔ ریختہ تقلید ہے فارسی کی۔ حاصلِ معنیِ مصرعین یہ کہ اگر دل تمھیں نہ دیتا تو کوئی دم چین لیتا۔ اگر نہ مرتا تو کوئی دن اور آہ و فغاں کرتا ‘۔۔۔ نحو کے اعتبار سے پہلے مصرع میں ’ لیتا ‘ کا محل آخرِ مصرع ہے اور دوسرے مصرع میں بھی ’ کرتا ‘ آخر میں ہونا چاہیے تھا لیکن معنی کے اعتبار سے یہاں ترتیبِنحوی کی مخالفت ہی چاہیے اور ’ لیتا ‘ اور ’ کرتا ‘ کا مقدّم کر دینا ہی ضروری ہے کہ ان دونوں فعلوں کے مقدّم کر دینے سے معنی میں کثرت پیدا ہوگئی۔ اب ترتیبِ الفاظ ان معنی پر دلالت کرتی ہے جیسے معشوق نے اس سے کہا ہے کہ تو کوئی دم چین نہیں لیتا اور اب تو آہ و فغاں کرنا بھی تو نے کم کر دیا۔ اس کے جواب میں یہ شعر ہے کہ ہاں ، لیتا میں چین اگر دل تجھے نہ دیا ہوتا ، کرتا کچھ دنوں اور آہ و فغاں (اگر )مر نہ گیا ہوتا۔اور اس میں شک نہیں کہ کثرتِ معنی سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور حسنِ ایجاز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سوال کو مقدّر کر کے فقط جواب ایسے الفاظ میں ادا کرے کہ اس سے ساری عبارت سوال کی مخاطب کی سمجھ میں آ جائے اور اصطلاح میں اسے دفعِ دخلِ مقدّر کہتے ہیں اور یہ طریقہ ایسا شایع ہے بلکہ ایک ا مرِ فطری ہے کہ روز مرّہ کی بول چال میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً جس شخص سے خلفِ وعدہ ہوا ہو وہ کہتا ہے : میں کل نہ آ سکا ، مجھے ایک کام ہو گیا۔ اور چھوٹتے ہی یہ بات کہہ اٹھنا ان معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے مخاطب نے اس سے کہا ہے کہ تم نے وعدہ خلافی کی یا تساہل کیا ، یعنی اعتراضِ مقدّر کا جواب ہے۔
فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گلخن پر
یعنی فنا فی اللہ ہو کر فروغِ معرفت حاصل کر۔ اس شعر میں لفظ ’ حقیقت ‘ میں دو عالموں کا تنازع ہے : ایک فعل ، دوسری اضافت۔ یعنی لفظ ’ سونپ ‘ یہ چاہتا ہے کہ حقیقت مفعول بہ ہو اور علامتِ مفعول یعنی’ کو ‘ اس میں ہونا چاہیے اور لفظ مشتاق جو حقیقت کی طرف مضاف ہے وہ چاہتا ہے کہ ’ کا ‘ علامتِ مضاف الیہ اس میں ہو اور نحو اردو یہ ہے کہ عاملِ ثانی کو عمل دینا چاہیے۔ جیسا کہ اس شعر میں ہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچّھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
’ کہتے ہیں ‘ کا فاعل حذف کر نے سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ یہ بات عام ہے اور مشہور ہے۔
گذری نہ بہر حال یہ مدّت خوش و نا خوش
کرنا تھا جواں مرگ گذارا کوئی دن اور
’ نہ ‘ استفہامِ انکاری کے لیے ہے اور جواں مرگ منادی ہے۔
ہرایک ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوئے پر ہواے جلوۂ ناز
’ ہوا ‘ کی لفظ میں یہ ابہام ہے کہ ذرہ ہوا میں ہوتا ہے۔ ’ ہوئے ‘ ماضی ہے مگر جب اس کے ساتھ حروفِ متّصل ہوتے ہیں تو مصدر کے معنی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کسی کے کہے سے کیا ہوتا ہے۔ ان کے آئے کو دو دن ہوئے۔ سورج نکلے تک میں آؤں گا۔ یہ دن چڑھے کا ذکر ہے۔ اور حروف میں سے دو حروف جو باقی رہ گئے یعنی ’ نے ‘ اور ’ میں ‘ یہ دونوں حرف اس صیغے سے کبھی نہیں ملتے۔ ’ نے ‘ اس سبب سے نہیں ملتا کہ یہ علامتِ فاعل ہے اور یہ سب صیغے متعلقاتِفعل سے ہوا کرتے ہیں اور ’میں ‘ اس سبب سے نہیں ملحق ہوتا کہ اس قسم کے اکثر متعلقات میں خود معنی ظرفیت کے ہوتے ہیں جیسے ’ کہتے ہیں : رات گئے یہ بات ہوئی اور دن چڑھے یہ واقعہ ہوا۔ لیکن یہ سب مواقعِ استعمال سماعی ہیں ، اس پر اور افعال کا قیاس کرنا صحیح نہ ہوگا۔
نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں ، غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
’ ایک ‘ کا لفظ اردو میں تنکیر کے لیے ہوتا ہے اور یہاں تنکیر سے تحقیر مقصود ہے کہ تنکیرکے ایک معنی یہ بھی ہیں۔
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
’ اور ‘ اس شعر میں فع کے وزن پر ہے ، وسط میں سے واو گر گیا اور وسط میں سے کوئی حرف کبھی نہیں گرتا اور یہ حرفِ عطف ہے اور حروف جتنے ہیں ان سب میں اختصار ہی اچھا ہوتا ہے اس سبب سے کہ وہ محض روابط اور صلات ہوتے ہیں۔
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
’ کی ‘ کا فاعل معشوق ہے۔
ہے تجلّی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں
’ ہے ‘ کا اس طرح سے مقدّم کر دینا شعر کے لیے مخصوص ہے۔ عبارت میں کسی فعلِ ناقص کو اسم و خبر پر خصوصاً اسم پر مقدّم کرنا نہیں درست۔ اردو میں افعالِ ناقصہ یہ ہیں : نہیں ، ہے ، تھا ، ہوا ، رہا ، ہو گیا ، بن گیا۔ اور ترا اورتری اور مرا اور مری میں ’ ی ‘ کا حذف بھی شاعری ہی کے لیے ہے ، کسی اور عبارت میں ہو تو غیر فصیح ہے۔
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا وعدہ کر گئے آئے جو خواب میں
اس شعر میں معشوق کی شوخی کا بیان کیا ہے۔ اس کوچے کی طرف خوش فکر غزل گو بہت دوڑتے ہیں اور جس شعر سے کوئی شوخی معشوق کی نکلے وہی شعر غزل کا اچھا شعر ہوتا ہے۔ مصنف نے یہاں ’ وہ ‘ کا لفظ ترک کیا اور اس ترک سے معنیِ لطیف یہ پیدا ہوئے کہ جیسے سب جانتے ہیں کہ اس کے سوا ہم کسی کا ذکر ہی نہیں کرتے یا یوں سمجھو جیسے دل سے معشوق کی باتیں کرتے کرتے یہ بات منہ سے نکل گئی۔اور ضمیر دل ہی میں رہ گئی۔کلامِ فصحا میں حذف و ترکِ ذکر کے بہت سے سبب ہوا کرتے ہیں لیکن یہاں یہی دونوں سبب ہوسکتے ہیں جو بیان ہوئے۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
یہ شعر بہت بلیغ ہے۔ اپنا معاملاتِ عشق میں صاحبِ تجربہ اور معشوقوں کا مزاج داں ہونا اور معشوق کا بد عہد و حیلہ جو ہونا یہ سب معنی اس سے سمجھ میں آتے ہیں۔ یہاں ’ آتے آتے ‘ کے معنی ’ جب تک قاصدآئے آئے۔ جیسے رندؔ نے کہا ہے
سانس دیکھی تنِ بسمل میں جو آتے جاتے
اور چرکا دیا جلّاد نے جاتے جاتے
یعنی جب تک جائے جائے اور چرکا لگا دیا اور کبھی فعل کو محض تکرارِ معانی کے بیان کے لیے اس طرح مکرّر بولتے ہیں جیسے : ’لکھتے لکھتے ہاتھ دکھ گیا ‘ اور کبھی مسند الیہ کی حالت کے بیان میں مکرّر لاتے ہیں جیسے : تم روتے روتے ہنسنے کیوں لگے۔ اور کبھی شروعِ فعل کے معنی تکرار سے ظاہر ہوتے ہیں جیسے : ’ تم دیتے دیتے رہ گئے ‘۔
ہیں آج کیوں ذلیل ، کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
یہاں استفہام اس غرض سے نہیں کیا ہے کہ جواب کا خواہاں ہے ، بلکہ سامع کا تنبیہ کرنا فقط مقصود ہے
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے د ر یا ، لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفیِِ منصور نہیں
قطرہ مضاف ہے اور اپنا مضاف الیہ۔ اور اضافت یہاں بیانیہ ہے۔
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بے مہریِِیارانِ وطن یاد نہیں
نحوِ اردو کے دقایق میں سے ایک یہ مسٔلہ ہے کہ ’ تم کو ‘ یہاں ترکیب میں کیا ہے اور ’ یاد ‘ کیا ہے۔اگر یوں کہیں کہ ’ نہیں ‘ فعلِ ناقص ہے۔ اسم اس کا ’بے مہریِ یارانِ وطن ‘ہے اور خبر اس کی ’ یاد ‘ہے تو اس صورت میں ’ تم کو‘ کو مفعول نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ فعلِ ناقص لازم ہوا کرتا ہے۔ اگر یوں کہیں کہ ’ نہیں ‘ اس مقام میں تامّہ ہے اور ’بے مہریِ یارانِ وطن ‘فاعل اور ’ تم کو ‘ مفعول ہے تو اس صورت میں ’ یاد ‘ ترکیب میں کیا ہے۔ اور ’ نہیں ‘ تامّہ ہوا تو متعدی کیوں ہوگیا۔ یہ دونوں اشکال اس طرح رفع ہو سکتے ہیں کہ یوں کہیں کہ پہلی صورت میں ’تم کو ‘ کو ہم مفعول بہ نہیں کہتے بلکہ متعلقِفعل ہے ، اس لیے کہ ’ کو ‘ مفعول بہ کے لیے خاص نہیں ہے۔ مفعول لہ کے لیے بھی ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں ’حج کو گئے‘ ، اورمفعول فیہ کے لیے بھی ’ کو ‘ آتا ہے جیسے کہتے ہیں :’منگل کو روانہ ہوئے‘۔ ’ طرف ‘ کے معنی پر بھی آتا ہے جیسے پوچھتے ہیں : ’قافلہ کدھر کو گیا‘۔ اس کے علاوہ جس طرح ’ کو‘ مفعول بہ کے لیے خاص نہیں ہے اسی طرح مفعول بہ بھی ’ کو ‘ کے لیے خاص نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ : ’خط پڑھا اور زید کو بھی پڑھایا‘۔ یعنی مفعول بہ اگر ذوی العقول میں سے ہو تو وہ ’ کو ‘ کے ساتھ بولا جاتا ہے اور افعال قلوب میں بھی یہی ضابطہ رہتا ہے۔ جیسے’ زید کو احمق سمجھا ‘۔
اور اسی طرح جن فعلوں کے دو مفعول ہوتے ہیں وہاں بھی فقط دونوں میں جو اشرف ہے اسی کے ساتھ ’ کو ‘ استعمال کرتے ہیں ، جیسے : ’گھوڑے کو دانہ دیا‘۔ اور دوسری صورت میں یہ کہیں گے کہ ’ یاد ‘ کو ہم متعلقات میں نہیں شمار کرتے بلکہ جزو فعل ہے یعنی یاد ہونا فعلِ متعدی ہے اور ’ ہم کو ‘ مفعول بہ ہے اور اس طرح کے فعل اردو میں بہت ہیں جن میں ایسی ترکیب واقع ہوئی ہے۔ مثلاً’ دعا قبول ہوئی‘ اور’ کہنا قبول ہوا‘ کہ اس مثال میں ’ قبول ہونا‘ایک فعلِ مرکّب ہے اور ’قبول‘ معمول فعل نہیں ہے، نہیں تو مقبول ہونا چاہیے تھا۔ یا ’ راز افشا ہوا ‘ کہ اگر’ افشا ‘کو معمول فعل لیں تو افشا بہ معنی افشا شدہ ہونا چاہیے تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ افشا ہونا خود فعل ہے اور افشا جزوِ فعل ہے۔یا جیسے مطلب حصول ہوا کہ اس میں حصول کو اگر جزوِ فعل نہ قرار دیں تو حصول کی جگہ حاصل کہنے کا موقع تھا۔ یا جیسے کہتے ہیں : ہمیں یہ بات تسلیم نہیں۔ یہاں ’ تسلیم ہونا‘ فعلِ مرکّب ہے ، تسلیم فعل سے خارج اور ا س کے ساتھ متعلق ہو یہ بات نہیں ورنہ مسلّم کہنا چاہیے تھا۔جب یوں کہتے ہیں کہ وہ خوش ہے تو اس میں ’ ہے ‘ فعلِ ناقص ہوا کرتا ہے اور اسم و خبرلفظ ’ وہ ‘ اور لفظ ’ خوش ‘ ہے۔ اور جب یوں کہتے ہیں کہ اس کو خوشی ہے تو اس مثال میں ’ ہے ‘ تامّہ ہے اور خوشی فاعل ہے اور ’اس کو ‘ مفعول بہ ہے لیکن بہ نظرِ دقیق ’ اس کو ‘ متعلق ہے اور ’ کو ‘ اس میں صلہ ہے ، علامتِ مفعول بہ نہیں ہے۔
اس قیاس پر ان مثالوں کو سمجھنا چاہیے جیسے وہ رنجیدہ ہے اور اس کو رنج ہے ، وہ ملول ہے ، اور اس کو ملال ہے ، وہ خبر دار ہے اور اس کو خبر ہے۔ لیکن ان مثالوں میں ’ اس کو ‘ کس قسم کا تعلق فعل سے رکھتا ہے ؟ یہ تعلق ویسا ہے جیسا محل کو حال کیساتھ ہوتا ہے۔
جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں
بے التفاتی کی شکایت ہے۔ اور ’ کو ‘ طرف کے معنی پر ہے اور زاید اسے نہ سمجھنا چاہیے۔ اس زمانے کے شعرا اکثر اس مغالطے میں ہیں کہ ’ اِدھر کو اوراُدھر کو اور کہیں کو ‘ میں ’ کو ‘ زاید سمجھتے ہیں اور اس کے استعمال سے احتراز کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ’ اس طرح سے ‘کہنے میں ’ سے ‘ کو زاید کہتے ہیں اس کو ترک کیا ہے اور یہ خیال غلط ہے۔
غلطیہاے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
یعنی ہم کو تجربہ حاصل ہے کہ نالے کو کبھی رسائی نہیں ہوتی۔ یہ تو ظاہر معنی ہیں اور ایہام ایک معنی کی طرف ہے کہ اگر رسا ہوتا تو باندھتے کسے۔ اس کا بندھ جانا ہی دلیلِ واماندگی و نا رسائی ہے۔
لفظِ ’ غلط ‘ میں یاے مصدری لگانا غلط در غلط ہے۔ فارسی میں کسی نے ایسا تصرّف نہیں کیا بلکہ قدیم اردو میں بھی ’ ی ‘ نہیں بڑھائی گئی تھی۔ میرؔ
غلط اپنا کہ اس جفا جو کو
سادگی سے ہم آشنا سمجھے
ہاں اب محاورہ ہندیوں کا یہی ہے۔ اس سبب سے غلطی کا لفظ ہندی سے فارسی ترکیب میں اس کو لانا ،فارسی کی جمع بنانا اور فارسی اضافت اس کو دینا صحیح نہیں۔ خود مصنف نے لفظ ’ انتظاری ‘ کے باندھنے کو ایک خط میں منع کیا ہے۔
اہل ِ تدبیر کی وا ماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
پہلے مصرع میں سے خبر محذوف ہے اور مقامِشماتت میں خبر کا حذف محاورے میں ہے۔ جیسے کہتے ہیں : ’ تقدیر ‘۔۔۔ یعنی تقدیر کی برائی دیکھو۔’ نا فہمی ‘۔۔۔یعنی نافہمی کا نتیجہ دیکھو۔
سادہ پُرکار ہیں خوباں غالبؔ
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
ِِ ’ ہم ‘ کو خاص لہجے میں پڑھنا چاہیے جس سے یہ معنی نکلیں گے کہ کوئی اور بھی نہیں : ہم ! یہی وجہ ہے سادہ کہنے کی کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم ان کے فریب میں آ جائیں گے اور پُر کار اس وجہ سے کہا کہ فریب دینے کا قصد رکھتے ہیں۔
’ خوباں ‘ خوب کی جمع ہے اور آج کل کی اردو میں الف نون کے ساتھ ہر ایک لفظ کو جمع بنا لینا نہیں درست ہے۔ اس باب میں دکن کے محاورے میں بہت توسیع ہے اور یہ لوگ کلیۃً ہر لفظ کو اس طرح جمع بناتے ہیں لیکن اردوئے معتبر جو سمجھی جاتی ہے اس میں جمع بنانے کا یہ ضابطہ ہے کہ اگر لفظ حروفِ معنویہ میں سے کسی حرف کے ساتھ متصل ہے تو واو نون کے ساتھ جمع کریں گے۔ اور حروفِ معنویہ سات ہیں : نے ، کو ، میں ، پر ، تک ، سے ، کا ۔ جیسے ؛ مردوں نے ، عورتوں کو الخ۔ اور اگرمنادی ہے تو فقط واو سے جمعٔبنا ئیں گے جیسے ؛ یارو ، لوگو۔ لیکن بولنے میں حالتِ ندا میں بھی نون ہے۔ کچھ رسم ایسا ہی ہو گیا ہے کہ یارو اور دیکھو قافیہ کرتے ہیں اور بغیر نون کے لکھتے ہیں۔ اور اگر لفظ ندا سے اور حروفِ معنویہ سے مجرّد ہے تو یا تو مذکّر ہے یا مؤنث۔ اگر مذکر ہے اور اس کے آخر میں ہاے مختفی یا الفِ تذکیر ہے تو فقط امالہ کر کے جمع بناتے ہیں۔ جیسے ؛ حوصلہ اور حوصلے۔ لڑکا اور لڑکے۔ اور اگر یہ دونوں حرف آخر میں نہیں ہیں تو مفرد و جمع میں مذکر کے کچھ امتیاز نہیں کرتے۔ جیسے ایک مرد آیا۔کئی مرد آئے۔ اور اگر لفظ مؤنث ہے اور آخر میں اس کے کوئی حرفِ علّت یا ہاے مختفی نہیں ہے تو ’ ی ، نون ‘ سے جمع بناتے ہیں ، جیسے : راہیں ، آنکھیں۔ اور اگر آخر میں الف تصغیر ہے تو فقط نون سے جمع بنتی ہے جیسے لٹیاں ، بڑھیاں۔ اور اگر آخر میں ہاے مختفی یا الف اصلی یا واو ہے تو ہمزہ ، ی ، نون بڑھا کر جمع بنائیں گے۔ جیسے ؛ خالائیں ، بیوائیں گھٹائیں ، آرزوئیں ، آبروئیں۔ اور اگر آخر میں ی ہے تو اس صورت میں البتّہ الف نون کے ساتھ جمع کرتے ہیں ، جیسے : لڑکیاں ، بجلیاں۔
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
’ دیکھا ‘ یہاں افعالِ قلوب میں سے ہے اور دونوں معمولوں سے متعلق ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
’ اور ‘ اس شعر میں حالیہ ہے۔
ہوئے اس مہر وش کے جلوہ ٔ تمثال کے آگے
پر افشاں جوہر آیینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں
’ ہوئے ‘ کا اسم جوہر ہے ، اور خبر ’ پر افشاں ‘ ہے۔
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فایدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں
’ کھُلا ‘ کے فاعل کا حذف اس نظیر کے سبب سے شاید شعر میں درست ہو جائے تو ہو جائے ، ورنہ محاورہ تو یہ ہے کہ ’ یہ حال کھلا ‘۔ بولنے میں کبھی لفظِ ’ حال ‘ کو حذف نہیں کرتے۔
آئے وہ یاں خدا کرے ، پر نہ کرے خدا کہ یوں
رات کے وقت مے پیے ، ساتھ رقیب کو لیے
خداکرے کہ وہ آئے لیکن خدا نہ کرے کہ یوں آئے کہ رات کے وقت مے پیے الخ۔ اس شعر کی بندش میں تعقید ہے مگر یہ زمین ہی ایسی ہے۔ ’مے پیے ‘ اور ’ ساتھ لیے ‘ حال ہے۔ اصل میں مے پیے ہوئے اور رقیب کو ساتھ لیے ہوئے تھا۔ ’ ہوئے ‘ کالفظ اکثر ترک کر تے ہیں۔
غیر سے رات کیا بنی، یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا او ر یہ دیکھنا کہ یوں
اکثر معتبر لوگوں نے ’ آن ‘کے لفظ کو ترک کر دیا ہے۔ ’ آن ‘ کے بدلے ’ آ کر ‘ اور ’ آن بیٹھنا ‘ کے مقام پر’ آ بیٹھنا ‘ فصیح سمجھتے ہیں۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ آنا ، جانا ، کھانا ، پانا وغیرہ بہت سے الفاظ ہیں۔ ان میں ’ نا ‘ علامتِ مصدر ہے اور جب فعل ان سے مشتق ہوتا ہے تو کہتے ہیں ؛ پا کر ، کھا کر ، جا کر۔ اسی طرح آکر بھی ہونا چاہیے ، اس میں نون کہاں سے آ گیا۔ نون اگر تھا تو علامتِ مصدر تھا وہ فعل میں کیوں باقی رہنے لگا۔ لیکن تمام فصحا کی زبان پر آن کا لفظ ہے اور محاورے میں قیاسِ نحوی کو کوئی دخل نہیں۔
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
گو قیامت میں سب کا اٹھنا ضرور ہے لیکن ہم اب نہ اٹھیں گے۔ ’ اب نہ اٹھیں گے ‘ اور ’ اب نہیں اٹھتے ‘ اس طرح کے فعلوں میں مطلب دونوں فعلوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے فعل میں تاکید بھی نکلتی ہے کہ وہ پہلے میں نہیں ہے۔
کیا وہ بھی بے گنہ کُش و حق نا شناس ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
ردیف و قافیہ شاعر کو مجبور کرتا ہے کہ پہلے نیچے کا مصرع کہہ لے۔ اسی سبب سے ’ وہ ‘ کی لفظ میں اضمار قبل الذکریہاں ہو گیا ہے۔ یہ ضمیر خورشید و ماہ کی طرف راجع ہے۔
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
’ آرزو خرامی ‘ سے مصنف کی مراد ’ خرام حسبِ آرزو و مراد ‘ ہے۔ لیکن عبرت کرنا چاہیے نہ کہ تقلید۔ ایسی ترکیبوں کے واہیات ہونے میں شک نہیں۔ پھر اسے منادی بنا کر اور بھی ستم کیا۔۔۔۔ اس شعر میں ’ہاتھ دھونا ‘ اور ’ ڈوبنا ‘ جوشِ گریہ کے ضلع کی لفظیں ہیں ، اور خرام کے واسطے بیٹھ کا لفظ لاۓہیں۔
بیٹھا ہے جوکہ سایہ ٔ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے
ہندوستان کی تخصیص یہ ہے کہ سایہ میں تیرگی ہوتی ہے اور ہندوستان بھی کالاملک ہے۔اس شعر میں مصنف نے ہندوستان کو باعلانِ نون نظم کیا ہے۔ میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع پر۔ع۔۔۔۔ مسکن چھٹا ُہماے سعادت نشان سے۔۔۔لکھنؤ میں اعترض ہوا تھا کہ حرفِ مدّ کے بعد جو نون کہ آخرِ کلمہ میں پڑے فارسی والوں کے کلام میں کہیں باعلان نہیں پایا گیا ہے۔ تو جب اردو میں ترکیبِ فارسی کو استعمال کیا اور کشورِ ہندوستان کہہ کر مرکّبِ اضافی بنایا ، ہماے سعادت نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا تو پھر نحوِ فارسی کی تبعیّت نہ کرنے کا کیا سبب۔ اگر لفظ ہندوستان یا نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا توشاعر کو،ا علان کرنے نہ کرنے کا اختیار تھا۔ لیکن ترکیبِ فارسی میں نحوِ فارسی کا اتّباع ضرور ہے۔ اور اس طرح کا اعلان لکھنؤ کے غزل گویوں میں ناسخؔ کے وقت سے متروک ہے۔
مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے
’ جان ‘ اس شعر میں ’ بداں ‘ کا ترجمہ ہے یا اعلم کا۔
زمین ترکیبِاضافی فارسی میں ہے اور اعلانِ نون کے ساتھ ہے۔ حالانکہ نحوِ فارسی کے یہ خلاف ہے۔ اس لیے کہ جب زمین میں اعلانِ نون کیا تو وہ مہنّد لفظ ہو گیا۔ پھر اس کی طرف اضافتِ فارسی کیونکر صحیح ہوگی ، جیسے سوداؔ کا یہ مصرع ؛ تن پر اگر زباں ہو بجائے ہر ایک مو۔۔۔کہ اس میں ترکیبِ فارسی میں ’ ایک ‘ کا لفظ آگیا ہے اور ایک مہنّد ہے یک کا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کیے
’ وہ ‘ کا اشارہ مبہم رہ گیا اور یہ عیبِ تعبیر ہے۔ مراد وہی لوگ ہیں جو دفن ہیں۔
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
مسند الیہ جو کہ عمدۂ جملہ ہوتا ہے وہ یہاں بہت پیچھے رہ گیا۔ یعنی لفظ ’ ذکر ‘۔ ا ور اس کا سبب وہی ہے کہ پہلے نیچے کا مصرع کہہ لیا ہے ، اس کے بعد مصرع لگایا ہے۔
نالے عدم میں چند ہمارے سُپرد تھے
جو واں نہ کھنچ سکے سو وہ یاں آکے دم ہوئے
اس شعر سے اس بات کا بھی پتا لگا کہ ناسخؔ کی طرح مصنف کی زبان پر ’ جو ‘ کے جواب میں ’ سو ‘ لانا ضرور ہے۔ اس وجہ سے کہ اگر مصرع میں سے ’ سو ‘ نکال ڈالیے اور یاں کی جگہ ’ یہاں ‘ پڑھیے ، اس طرح : جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آکے دم ہوئے۔ جب بھی مصرع موزوں ہے اور مصنف کا مرتبہ تو بڑا ہے ، جو شخص نظمِ الفاظ میں مشق رکھتا ہے اس سے فکرِ شعر کے وقت ایسی باتیں چھپی نہیں رہتیں۔ پھر واں اور وہاں ، یاں اور یہاں گو دونوں طرح درست ہے لیکن باتفاق واں سے وہاں اور یاں سے یہاں فصیح ہے۔ مصنف نے اگر ’ سو ‘ کو ترک کیا ہوتا تو یہ فایدہ بھی تھا کہ ’ یاں ‘ کی جگہ ’ یہاں ‘ہو جاتا مگر انھوں نے ’ سو ‘ کے لانے کے لیے ’ یاں ‘ کا رکھنا بھی گوارا کیا اور بندش شہادت دے رہی ہے کہ یہ امر بالعمد ہے۔ اس شعر میں ’ دم ہوئے ‘ اچھا نہیں لیکن مضمون نہایت لطیف ہے۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سایل ہوۓ توعاشقِ اہلِ کرم ہوئے
’ تو ‘ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اس کے پہلے جو جملہ ہے اس میں سے ’ جو ‘ یا ’ جب ‘ یا ’ اگر ‘محذوف ہے ، یعنی یہ جملہ شرطیہ ہے۔ اور حذف نے بہت لطف دیا۔ نحوِ اردو میں یہ قاعدہ کلیہ سمجھنا چاہیے کہ جملہ شرطیہ میں حرفِ جزا مذکور ہو تو حرفِ شرط کا حذف حسن رکھتا ہے۔
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
( استدراک:۔ خود غالبؔ نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے عبد الرزّاق شاکرؔکولکھا ہے :ع ’ اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے ‘ یہ خبر ہے۔ پہلا مصرع : ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے ، یعنی اندھیرا ہی اندھیرا۔ ظلمت غلیظ۔ سحر ناپیدا۔ گویا خلق ہی نہیں ہوئی۔ ہاں ایک دلیل صبح کے وجود پر ہے ، یعنی، بجھی ہوئی شمع ، اس راہ سے کہ شمع و چراغ صبح کو بجھ جایا کرتے ہیں۔ لطف اس مضمون کا یہ ہے کہ جس شے کو دلیلِ صبح ٹھہرایا ہے وہ خود ایک سبب ہے منجملۂ اسبابِ تاریکی کے۔ پس دیکھا چاہیے ، جس گھر میں علامتِ صبح مویّدِ ظلمت ہوگی وہ گھر کتنا تاریک ہوگا ‘۔
اس مطلب پر شاکرؔکے کوئی دوست معترض ہوے.ٔ۔ انھوں نے مرزاؔ صاحب کے پاس وہ اعتراض لکھ بھیجا۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں :۔۔۔۔۔۔ ’ جو صاحب یہ فرماتے ہیں کہ مجموع پہلا مصرع مبتدا نہیں ہو سکتا ، ان سے پوچھا چاہیے کہ کیا آپ اسی پہلے مصرع میں سے ’ ظلمت کدے میں میرے ‘ اس کو مبتدا او ر ’ شبِ غم کا جوش ہے ‘ اس کو خبر ٹھہراتے ہیں ؟ پس اگر یوں ہے تو بھی مدّعا حاصل ہے۔ دوسرا مصرع دوسری خبر سہی آخر یہ بھی تو مسلّماتِ فنِ نحو میں سے ہے کہ ایک مبتدا کی دو بلکہ زیادہ خبریں ہو سکتی ہیں۔ ہاں ، ایک قاعدہ اور ہے۔ یعنی ، جملۂ فعلیہ کے ما قبل جو عبارت ہوتی ہے اس کو مبتدا نہیں کہتے۔ اس مطلع کا مصرعِ ثانی جملۂ اسمیہ ہے ، اپنے ما قبل مبتدا کو قبول کرتا ہے۔ اگر ہم نے نظر اس دستور پر مصرعِ اوّل کو مبتدا کہا تو بھی قباحت لازم نہیں آتی۔ بہر حال جو وہ صاحب اس پہلے مصرع کو قرار دیں وہ مجھے قبول ہے۔ مگر شعر میرا مہمل نہیں۔ زیادہ اس سے کیا لکھوں ‘۔۔ بہ حوالۂ نسخۂ عرشی ، ص ۳۰۲ و ۳۰۳)
دیدار بادہ ، حوصلہ ساقی ، نگاہ مست
بزمِ خیال میکدہ ٔبے خروش ہے
پہلے مصرع میں کہیں اضافت نہیں ہے۔ بزمِ خیال کا نقشہ دکھلاتے ہیں کہ وہاں دیدار شراب ہے ، نگاہ میخوار ہے ، حوصلہ ساقی ہے۔
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھّا ہے
اس شعر کی خوبی خود ایسی ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر بیان نہیں ہو سکتی۔ ایک نحوی قاعدہ یہاں یہ ہے کہ مصدر کے بعد جب کوئی حرف معنوی ہو تو نون کو گرا دینا بھی محاورہ ہے۔ ’ دیکھے سے ‘ اصل میں ’ دیکھنے سے ‘ تھا۔ ’ سے ‘ کے سبب سے نون گر گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں : ان کے کہے پر عمل کیا ، اور ان کے مرے کو عرصہ ہوا ، اور ان کے آئے تک انتظار کیا ، آنکھ کے دیکھے کا یقین ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مصادر ہیں جن میں ایسا تصرف ہو سکتا ہے۔ مگر سماعی ہیں۔ ہر مصدر میں ایسا قیاس کر لینا صحیح نہ ہوگا۔
(استدراک :۔ ’ نسخۂ عرشی ‘ میں پہلا مصرع یوں ہے : ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے رونق منہ پر۔۔۔ ص ۳۱۸)
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالب ؔ اگر عمرِ طبیعی نہ سہی
گو عشرت و صحبت کے ایک ہی معنی ہیں لیکن فارسی والوں نے عشرت کو خوشی و نشاط کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس سبب سے یہ اضافت صحیح ہو جائے گی اور طبیعی کو طبیعت سے اسمِ منسوب بنا لیا ہے۔ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ فعیلہ کے وزن پر جو لفظ ہو اس کا اسم منسوبِ فعلی ہوتا ہے۔ جیسے حنیفہ سے حنفی ہے۔ اسی طرح طبیعہ سے طبعی ہے۔ مگر فارسی گو توالیِ حرکات کو ثقیل سمجھ کر ’ ب ‘ کو ساکن کر دیتے ہیں۔ غرض کہ طبعی کو بعض شعراے لکھنؤ صحیح نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے کہ نہ تو یہ مضاعف ہے ، جیسے حقیقی ، نہ اجوف ہے ، جیسے طویلی۔ پھر کیوں ’ ی ‘ کو نہ گرائیں۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ ، جستجو کیا ہے
اردو والوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو کتب بلاغت کو دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں ، مگر خود ہی کچھ عیوب شعر کے اپنے مذاق کے موافق ٹھہرا لیے ہیں جن کی بنا جُگت پر ہے۔ مثلاً اگر کسی نے یہ نظم کیا ’ منہ تمھارا دیکھ کر ‘ تو یہ پہلے نکالیں گے کہ ’ موت مارا دیکھ کر ‘۔ یا اگر کسی نے یوں کہا کہ ’ میرا خط نہ پھاڑے ‘ تو اس کا مطلب یہ لیں گے کہ ’ میرا ختنہ پھاڑے‘۔ میر ضامن علی جلالؔ نے کیا اچھا مطلع
کہا تھا سب ترے ناز ہیں گو ، زندہ ہی کرنے والے
ڈھونڈھ لیتے ہیں بہانہ کوئی مرنے والے
اس پر اعتراض ہوا تھا ’ گوزیدن ‘ کا اسمِ فاعل گوزندہ ہے۔ یہ سن کر انھوں نے مصرع کو یوں بدل دیا : گو ترے نازہیں سب زندہ ہی کرنے والے۔۔۔ یا : گو ہیں سب ناز ترے زندہ ہی کرنے والے۔ایک تہمت یہ مشہور ہے کہ مرزا دبیرؔ مرحوم نے تلوار کے ذکر میں شاید کہا تھا ، ع
جو رو پہ چڑھا اس کا گلا تیغ سے کاٹا۔۔ اس پر انیسیوں کا مشہور اعتراض ہے کہ ’جو رو پہ چڑھا ‘ واہیات ہے ، ’جو منہ پہ ‘ چڑھا کہنا چاہیے۔ غرض ایسے دقیقہ سنج جو لوگ ہیں وہ مصنف کے اس شعر میں ضرور کہیں کہ کیا مرغی ہے جو راکھ کریدتی ہے۔
معنی شعر کے یہ ہیں کہ سوزِ غم سے میں جل کر راکھ تو ہو گیا، دل بھی جل گیا ہوگا۔ تمھیں شیوۂ دلربائی و دلبری نے اس وہم میں ڈالا ہے کہ اس کا دل نہ جلا ہوگا۔ اسے ڈھونڈھ کر جلانے کے لیے لے جانا چاہیے اور یہ مضمون سراسر غیر ہے اور امورِ عادیہ میں سے نہیں ہے۔ اس سبب سے بے مزہ ہے۔ شعر میں بیتی زیادہ مزہ دیتی ہے۔
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا ، دیکھ روانی میری
استدراک۔ شاکرؔ کوایک خط میں میرزا صاحب (غالب ؔ )نے اس شعر کا مطلب اس طرح لکھا ہے : تقابل و تضاد کو کون نہ جانے گا۔ نور و ظلمت ، شادی و غم ، راحت و رنج ، و وجود و عدم۔ لفطِ ’ مقابل ‘ اس مصرع میں بہ معنیِ مرجع ہے۔ جیسے حریف کہ بہ معنیِ دوست بھی مستعمل ہے۔مفہومِ شعر یہ کہ ہم اور دوست ، از روے خو ے و عادت ، ضدہمدگر ہیں۔ وہ میری طبع کی روانی دیکھ کر رک گیا‘ (بہ حوالۂ نسخۂ عرشی ، ص ۳۰۴)
علّامہ نظم طباطبائی : رک گیا یعنی خفا ہو گیا۔ ان کی حاضر جوابی و بذلہ سنجی اسے ناگوار گذری۔
ہے وصل، ہجر ، عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِدیوانہ چاہیے
یعنی معشوق کے مزاج میں تمکین و خودداری اور عاشق کی طبیعت میں ضبط و صبر ہو تو وصل میں بھی ہجر کی سی بے لطفی ہے۔ مزہ تو جب ہے کہ وہ شوخ و بیباک ہو اور یہ دیوانہ و گستاخ۔ دوسرے مصرع میں اگرمعشوق کی لفظ کو اضافت نہ ہوتی تو بندش بے تکلف تھی۔ اگر اس مصرع کو دونوں اضافتیں چھوڑ کر پڑھیں تو مصرع جب بھی موزوں رہے گا، یعنی فاعلاتُ مفاعیل کی جگہ فاعلاتن مفعول آ جائے گا ۔ لیکن اس صورت میں ’ شوخ ‘ کے بعد بھی ’ چاہیے ‘ کو مقدّر لینا پڑے گا اور واو سے جملے کے جملے پر عطف ہوگا۔ مگر جملے دونوں ہندی کے ، اور حرفِ عطف فارسی کا۔ ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کو ئی یہ کہے : میں ہو ا سوار و روانہ ہوا۔ گویہاں سوار اور روانہ دونوں فارسی لفظیں ہیں لیکن ’واو ‘ ان دونوں مفردوں کے عطف کے لیے نہیں ہے، بلکہ جملے کے جملے پر عطف دینے کے لیے ہے اور جملے دونوں ہندی ہیں تو حرفِ عطف بھی ہندی ہی چاہیے۔ غرض کہ دوسرے مصرع میں معشوق و عاشق دونوں لفظوں کو باضافت پڑھنا ضرور ہے۔
اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پانو داب تو دے
’ دابنا ‘ متعدی ہے ، لازم اس کا دبنا ہے۔ الفِ تعدیہ آخر میں اکثر ہوتا ہے۔ جیسے دبنے سے دبانا وغیرہ۔ اور کبھی الف کو درمیان میں بھی لاتے ہیں جیسے دابنا۔ یا نکلنا اور نکالنا اور سنبھلنے سے سنبھالنا اور تھمنے سے تھامنا اور گڑنا سے گاڑنااور اسی طرح کٹنا اور کاٹنا وغیرہ۔
بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے
پہلے مصرع میں چار اضافتیں پے در پے اور دوسرے میں تین ہیں۔ اردو میں اضافت خود ہی ثقل رکھتی ہے۔ نہ کہ اتنی اضافتیں متوالی۔تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیب میں داخل ہے۔
خطر ہے رشتۂ الفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرورِ دوستی آفت ہے ، تو دشمن نہ ہو جائے
’ خطر ہے ‘ یعنی مجھے یہ خطر ہے۔ ’ یہ ‘ کا حذف اس مصرع میں بلا شبہ برا معلوم ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد کافِ بیان بھی محذوف ہے۔
قیامت ہے کہ ہووے مدّعی کا ہم سفر، غالبؔ
وہ کافر، جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
اس شعر میں جس مقام پر مصنف نے ’ نہ ‘ کہا ہے یہاں ’ نہیں ‘ کہنا چاہیے تھا ، یا ’ ہے ‘ کو ترک کیا ہوتا اس سبب سے کہ ’ نہ ‘ کے ساتھ فعل منفی میں ’ ہے ‘ بولنا خلافِ محاورہ ہے اور قدیم اردو میں بھی ایسانہیں دیکھنے میں آیا۔ مثلاً’ مجھ سے مارے ضعف کے نہ بولا جاتا ہے ‘غلط ہے۔ اور ’ نہیں بولا جاتا ہے ‘ صحیح ہے۔ ہاں ، جہاں ’ نہ ‘ عطف کے لیے ہو وہاں ’ ہے ‘ کے ساتھ جمع کرنا درست ہے۔ جیسے ’ نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے۔ یا جیسے :’ نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے ‘۔ اورعطف کے مقام پر ’ نہیں ‘ کہنا خلافِ محاورہ ہے۔ مثلاً: نہیں بھاگا جاتا ہے مجھ سے، نہیں ٹھہرا جاتا ہے مجھ سے غلط ہے۔ اور نہ کے ساتھ ہے کو جمع کرنا اس سبب سے غلط ہے کہ ایسے مقام پر نہیں محاورے میں ہے اور نہیں ، نہ اور ہے ،فعلِ ناقص، سے مرکب ہے اور نہیں کے ساتھ جب ’ہے ‘ بولتے ہیں تو وہ فعلِ تام ہو تا ہے۔
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمنا ک ہو گئے
کس رنگ سے اٹھائی؟۔۔۔آیا تشہیر کی ، یا نعش کی توقیر کی کہ خود کاندھا دیا ،یا خود سوگ رکھا۔۔۔ ان دونوں معنوں میں کسی کی تعیین نہ ہونا یہ سبب ہے جو شعر سست معلوم ہوتا ہے۔شاعر کے لیے ایک فائدے کی بات یہ بھی یہاں ہے کہ اس کو سمجھ لے۔ ’ ی ‘ کا گرنا اردو لفظوں میں سے جائزہے لیکن جہاں فعل میں سے یاے معروف گرتی ہے ثقل وزن میں ضرور ہو جاتا ہے۔اگرایک مصرع میں یاے معروف و یاے مجہول دونوں جمع ہوں اور ان میں سے ایک کا گرانا کافی ہو تو یاے مجہول کو گرانا چاہیے۔ اور یاے معروف کو باقی رکھنا چاہیے۔ مثلاً مصنف کا یہ مصرع : اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش۔۔۔ اس کو یوں کہنا بہتر تھا ، ع ۔۔۔اس رنگ سے کل اس نے اٹھائی اسدؔ کی نعش۔
دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ
نظّارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے
دل نے آنکھ پر یہ نالش کی ہے کہ نہ یہ نظارہ کرتی نہ میرا خون ہوتا۔ دیدہ آنکھ کو کہتے ہیں لیکن ہر جگہ آنکھ کے بدلے دیدہ کہنا برا ہے اس سبب سے کہ اردو کے محاورے میں ڈھیٹھ اور بے شرم آنکھ کو دیدہ کہتے ہیں۔ (محاورے سے متعلق مزید تفصیل ’محاورہ ‘ کے ذیل میں ملاحظہ ہو)
دوسری بحث اس شعر میں یہ ہے کہ فارسی کا واو، اردو میں جب ہی استعمال کرتے ہیں جب مفرد کا مفرد پر عطف ہو اور دونوں فارسی لفظ ہوں۔۔۔۔ یہ مصرع : دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ۔۔۔ اصل میں یوں ہے کہ دل مدعی بنا ، دیدہ مدعا علیہ بنا اور دو ہندی جملوں میں فارسی کا حرفِ عطف لائے ہیں۔
ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری دید کو خوابِ زلیخا عارِ بستر ہے
یعنی زلیخا کی طرح خواب میں دیدار ہونا میرے لیے ننگ اور میرے بستر کے لیے عار ہے ، اس سبب سے کہ یہ وہ بستر ہے کہ ’ بسی ہے بو ابھی تکیوں میں اس زلفِ معنبر کی ‘۔ یعنی کل ہی تو شبِ وصل تھی۔ ایک بات یہ بھی لحاظ کے قابل ہے کہ ’ بالش سے ‘ کی جگہ ’ تکیوں سے ‘ اگر کہتے تو وزن میں کچھ خلل نہ تھا۔ مگر مصنف مرحوم نے تکیہ چھوڑ کر بالش کہا حالانکہ تکیہ محاورے کا لفظ ہے۔ اس سے ان کا طرزِ انشا ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کو ہندی محاورے پر شعر میں ترجیح دیتے ہیں۔
ایک فائدے کی بات یہ بھی ہے کہ ’ اس کی زلفِ مشکیں کی ‘ یعنی ’ کی ‘ ثقل سے خالی نہیں۔ اس کو نہ عیب کہہ سکتے ہیں نہ غلط کہہ سکتے ہیں۔ کوئی شاعر اس سے نہیں بچا۔ لیکن جہاں ایسی صورت ہو کہ دو لفظ مؤنث جمع ہو جائیں اور اضافت ہو، جیسے یہاں ’ بو ‘ بھی مؤنث ’ زلف ‘ بھی مؤنث ‘ تو وہاں ممکن ہو تو دونوں میں سے ایک کو لفظ بدل کر مذکّر کر دیں۔ اور یہاں لفظ کا بدلنا ممکن تھا۔ جیسے ’ ابھی آتی ہے بو بالش سے اس گیسوے مشکیں کی ‘ یا ’ بالش سے اپنے اس کے گیسو کی ‘ دوسری صورت ثقل کے دفع کرنے کی یہ ہے کہ ادیب کو چاہیے ایسے موقع پر ایک اضافت فارسی کی لے آئے۔ یعنی ’ اس کی زلف کی بو ‘ کے بدلے ’ بوے زلف اس کی ‘ کہے۔اور شاعر کے لیے ایک صورت اور بھی ہے ، یعنی دو ’ کی ‘ جمع ہوں تو ایک ’ کی ‘ کو اس طرح نظم کرے کہ ’ ی ‘ گر جائے۔ یہ بھی کسی قدر بہتر ہوگا اور ثقل کم ہو جائے گا۔ اور ’ کی ‘ کے بہ نسبت ’ کے ‘ میں ثقل کم ہے۔ اور یہ کلیہ ہے کہ تکرار ہر لفظ کی ثقیل ہے
ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے
’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ اور ’ شوقِ عناں گسیختہ ‘ سے جوشِ اشک مجازاً مقصود ہے کیونکہ شوق سبب ، گریہ مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ، ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
اس شعر میں ’ نہ ‘ عجب محاورے کا لفظ مصنف نے باندھ دیا ہے۔ بولتے سب ہیں مگر کسی نے نظم نہ کیا تھا۔ لیکن اس ’ نہ ‘ کے کیا معنی ہیں اس کا جواب مشکل ہے۔ قیاسِ نحوی تو یہ کہتا ہے کہ’ آؤ نہ‘ اور ’دیکھو نہ‘ وغیرہ کیوں نہ آؤ اور کیوں نہ دیکھو کا مخفف ہے کہ بے اس کے حرفِ نفی کے کچھ معنی نہیں بن پڑتے۔
غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
ایک عجب نحوی طلسم زبان اردو میں یہ ہے کہ مصنف نے جہاں پر ’ کی ‘ کو صَرف کیا ہے یہاں محاورے میں ’ کے ‘ بھی کہتے ہیں ، مگر قیاس یہی چاہتا ہے کہ ’ کی ‘ کہیں۔ اسی طرح لفظ ’ طرف ‘ جب اپنے مضاف الیہ پر مقدم ہو تو ’ کی ‘ کہنا صحیح نہ ہوگا۔ مثلاً ع پھینکی کمندِ آہ طرف آسمان کے۔اس مصرع میں ’ کی ‘ کہنا خلافِ محاورہ ہے اور پھر لفظِ طرف مؤنث ہے۔ اگر اس لفظ کو مؤخر کر دو تو کہیں گے آسمان کی طرف۔ اور اگر مقدّم کر دو تو کہیں گے : طرف آسمان کے۔ غرض کہ ایک لفظ جب مقدم ہو تو مذکر ہوجائے ، مؤخر ہو تو مؤنث ہو جائے۔ اسی کی نظیر ’ نذر کرنا ‘ بھی ہے۔
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
’ دیا ہے خلق کو بھی ‘ اس جملے میں سے فاعل یعنی ’خدا نے ‘ اور مفعولِ ثانی یعنی ’ عیش‘ محذوف ہے۔ لفظِ عیش میں دو فعل یعنی ’ دیا ہے ‘ اور ’ بنا ہے ‘ تنازع رکھتے ہیں۔
قصائد
کفِ ہر خاکِ بگردوں شدہ ،قمری پرواز
دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ، طاؤس شکار
لفظِ ’ خاک ‘ کو بکسرۂ توصیفی پڑھنا چاہیے اس لیے کہ ’ بگردوں شدن ‘ اس کی صفت ہے نہ خبر۔۔۔۔ حاصل یہ کہ فیضِ بہار نے ہر شے میں جان ڈال دی ہے کہ ہر کفِ خاک قمری بن گئی اور ہر شعلہ طاؤس بن گیا۔
وہ شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمیرِ سرا
چشمِ جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار
اس شعر کی بندش میں نہایت خامی ہے کہ مطلب ہی گیا گذرا ہوا۔ غرض یہ تھی کہ :ڈھیلے جبریل کی آنکھوں کے ہیں خشتِ دیوار۔۔۔موصول کو اگر ’ پئے ‘ کا مضاف الیہ لو تو ’ جس کے ‘ پڑھو۔ اور اگر ’سرا ‘ کی اضافت لو تو ’ جس کی ‘ پڑھنا چاہیے۔ اس قسم کی ترکیبیں خاص اہلِ مکتب کی زبان ہے۔ شعرا کو اس سے احتراز واجب ہے۔
سبزۂ نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام
رفعتِ ہمتِ صد عارف و یک اوجِ حصار
’ سبزۂ نُہ چمن ‘ استعارہ نو آسمانوں سے ہے اور حرفِ عطف دونوں مصرعوں میں معنیِ مساوات کے لیے ہے اور اس شعر میں بلندیِ قصر کی تعریف مقصود ہے۔
صرفِ اعدا اثرِ شعلہ و دود ِ دوزخ
وقفِ احباب گل و سنبلِ فردوسِ بریں
رنگینیِ گل کا شعلے سے اور پیچ و تابِ سنبل کا دھوئیں سے مقابلہ کرمقصودہے۔ صَرف و وقف کاسجع اور اعدا و احباب و دوزخ و فردوس کا تقابل بھی لطف سے خالی نہیں۔
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز او ر ترا انجام
اس شعر میں ’ کہ ‘ کی توجیہ اشکال سے خالی نہیں۔ لیکن ’ کہ ‘ اس مقام پر محاورے میں بول بھی جاتے ہیں۔۔۔۔ اور کاف یہاں تعلیل کے معنی پر ہے۔
پانو سے تیرے مَلے فرقِ ارادت اورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادت اکلیل
سرِ ارادت و جبینِ نیاز و دستِ دعا و پاے طلب و چشم امید و لبِ سوال و دندانِ آز و بازوے جہد و انگشتِ حیرت و گردنِ طاعت و کمرِ خدمت و زانوے ادب و کفِ افسوس وغیرہ میں ویسی ہی اضافت ہے جیسی ادناے ملابست کافی ہو گئی ہے۔اگر یوں کہتے کہ: ’ پانؤ پر تیرے رکھے فرقِ ارادت اورنگ‘ تو معنی الٹے ہو جاتے ہیں۔ اس سبب سے کہ اورنگ پر پاؤں ہوتا ہے نہ کہ پاؤں پر اورنگ سر رکھے۔ مصنف نے اورنگ کا پاؤں کے نیچے ہونا ملحوظ رکھا ہے۔
فکر میری گہر اندوز ِ اشاراتِ کثیر
کلک میری رقم آموزِ عباراتِ قلیل
آموختن لازم و متعدی دونوں معنی کے لیے آتا ہے۔ یہاں رقم آموز میں معنی لازم اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی لکھنا سیکھنے والا۔ اورمتعدی کے معنی اگر لیں تو رقم آموز کو اسمِ مفعول ترکیبی سمجھنا چاہیے ، یعنی جسے لکھنا سکھایا گیا ہے۔ جیسے مرغ کو دست آموز کہتے ہیں۔
اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے
’ مجھے میری اوقات سے نفرت ہے ‘ محاورۂ اردو کی رو سے محض غلط ہے۔ نہ لکھنؤ کی یہ زبان ہے نہ دلّی کی۔ اکبر آباد کی ہو تو ہو۔ اصل میں محاورہ یہ ہے کہ’ مجھے اپنی اوقات سے نفرت ہے‘۔ رہ رہ کے یہی تعجب ہوتا ہے کہ غالبؔکی زبان سے یہ لفظ کیونکر نکلا۔ جن لوگوں کی اردو درست نہیں ہے ان کو اس طرح بولتے سنا ہے۔:میں نے میرا قلم پایا ، تم نے تمھارا قلم پایا۔ ’ اپنے ‘ کے استعمال میں بس وہی لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ اہلِ زبان کبھی بہک کے بھی ’ اپنے ‘ کی جگہ ’ میرا ، تیرا ‘ نہ کہیں گے۔ ضابطۂ کلیہ یہ ہے کہ جو فاعل یا مشبہ فاعل ہو اس کی ضمیر مضاف الیہ ہو کر متعلق نہیں ہو سکتی۔ ایسے موقعوں پر ’ اپنے‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً : ’ زید اس کی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے میری زندگی سے نفرت ہے ‘۔ ان دونوں صورتوں میں یوں کہنا چاہیے کہ زید اپنی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے۔
(نحو کے متعلق بعض نہایت مفید مطالب’ محاورہ ‘ کے ذیل میں نقل کیے گئے ہیں ، ان اشعار کے تحت ملاحظہ ہوں
رات کو آگ اور دن کو دھوپ
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار
میری تنخواہ کیجے ماہ بماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار