آغاز داستانِ اعجاز بیاں سلطنت فیروز بخت کی اور تلاش
اُس کو وارثِ تاج و تخت کی۔ خوش قسمتی سے حاجت کا بر آنا،
گوہرِ دُرجِ شہریاری صَدَفِ تمنّا سے پانا
اُستاد:
مَثل ہی سے، نہ الفاظِ تَلازُم سے یہ خالی ہے
ہر اک فِقرہ کہانی کا گواہِ بے مِثالی ہے
لا اعلم:
یادگارِ زمانہ ہیں ہم لوگ
سن رکھو تم،فسانہ ہیں ہم لوگ
گِرہ کُشایانِ سلسلہ سخن، تازہ کُنِندَگانِ فسانہ کہن، یعنی مُحرّرانِ رنگیں تحریر و مُورِّخانِ جادو تقریر نے، اَشہبِ جَہِندَہ قلم کو میدانِ وسیع بیاں میں، با کرشمۂ سحر ساز و لطیفہ ہائے حیرت پَرداز گرم عِنان و جَولاں یوں کیا ہے کہ سرزمینِ خُتَن میں ایک شہر تھا مِینو سواد، بہشت نژاد، پسندِ خاطِر محبوبانِ جہاں، قابلِ بود و باشِ خوبانِ زماں۔ شمیمِ صفت اُس کی مُعَطَّر کُنِ دماغِ جاں، مُسکّنِ التہابِ قلب، دافِعِ خَفَقاں۔ زمین اُس کی رشکِ چرخِ بریں۔ رفعت و شان چَشمک زَنِ بَلندیِ فلکِ ہفتُمیں۔ گلی کوچے خجلت دِہِ گُلشن۔ آبادی گُلزار، بَسانِ تختۂ چمن۔ بازار ہر ایک بے آزار، مُصفّیٰ، ہموار۔ دکانیں نفیس۔ مکان نازک، پائیدار۔ خلقِ خدا با خاطرِ شاد اُسے فُسحَت آباد کہتی تھی۔ سب طرح کی خلقت، ہر طور کی رعیّت رغبت سے اُس میں رہتی تھی۔
والیٔ ملک وہاں کا شاہِ گَردوں وَقار، پُر تمکین، با افتخار، سکندر سے ہزار خادم، دارا سے لاکھ فرماں بردار، قُباد شوکت و کاؤس حَشم، مالکِ تاج و تخت، والا مَرتَبَت، عالی مَقام، شاہنشاہ فیروز بخت نام۔ موجِ بخشش سے اُس بحرِ جود و عطا کی، سائلانِ لب تشنہ سیراب اور نائرہ غَضَب کے شعلے سے، دشمنِ بد باطن جگر سوختہ، بے تاب۔ دبدبۂ داد دہی، غُلغُلۂ عدالت سے، دشمن دوستِ جانی۔ چور مسافر کے مال کا نگہبان، ڈکیتوں کو عہدۂ پاسبانی۔ ملک وافِر۔ سِپاہ افزوں از قیاس۔ خزانہ لا انتہا، بے کراں۔ وزیر، امیر جاں فشاں۔ تاج بخش و باج سِتاں۔ محتاج اور فقیر کا شہر میں نام نہیں۔ داد فریاد، آہ و نالے سے کسی کو کام نہیں۔ رعیّت راضی۔ سپاہ سَر فروش، جاں نثار، شاداں۔ دشمن خائف۔ شمع کا چور سرِ محفل لرزاں۔ اِس نام سے یہ ننگ تھا کہ امیروں کا چور محل نہ ہونے پاتا تھا۔ دُزدِ حنا کا رنگ نہ جمتا تھا، سرِ دست ہاتھ باندھا جاتا تھا۔ آنکھ چُرانے سے ہم چشم چشمک کرتے تھے۔ کارِ خیر سے اگر کوئی جی چُراتا تو نامردی کی تہمت اس پر دھرتے تھے۔
لیکن بہ ایں حکومت و ثَروَت، کاشانۂ امید کا چراغ گُل، اولاد بالکل نہ تھی، خواہشِ فرزند دَر دل، نہ ہونے کی کاہِش مُتصِل، حسرتِ پِسر میں رَبِّ لَا تَذَرْنِى فَرْدًا وَ أَنْتَ خَیرُ الوَارِثِیْنَ ہر ساعت بَر زباں و رَبِّ ھَبْ لِي مِنْ لَدُنْك وَلِیّاً وظیفۂ ہر زماں۔ لڑکے کی تمنا میں بادشاہ مثلِ گدا دست دراز، ایسا لاپروا، بے نیاز کی قدرت سے، بانِیاز۔
آخِرش جناب باری میں تضَرُّع وَ زاری اس کی منظور ہوئی، لا ولدی کی بدنامی دور ہوئی۔ ساٹھ برس کے سِن میں، بڑھاپے کے دن میں گَوہرِ آب دار دُرِ شاہوار، صَدَفِ بطنِ بانوئے خُجستہ اَطوَار سے پیدا ہوا۔ چھوٹا بڑا اس کی صورت کا شیدا ہوا۔ اس روح افزا کا، فیروز بخت نے جانِ عالم نام رکھا۔ شب و روز پَرورش سے کام رکھا۔ حُسن اللہ نے یہ عطا کیا کہ نَیّرِ اَعظَم چَرخ چارم پر رُعبِ جمال سے تھرایا، اور ماہ باوجود داغِ غلامی، تابِ مشاہدہ نہ لایا۔ اُس نقشِ قدرت پر تصور مانی و بہزاد حیران اور صنّاعی آزر کی ایسے لُعبَت حقیقت کے رو برو پشیمان۔ کاسۂ سَر سراسر شُورِ جوانی، زورِ شباب سے مَعمُور۔ آنکھیں جھپکانے والی دیدۂ غَزالانِ خُتَن کی،شرابِ عشق کے نشے سے چَکنا چور۔ چہرے پر جلالِ شاہی، شَوکتِ جہاں پناہی نُمایاں، حسنِ دَرَخْشِندَہ کی تڑپ بہ از انجم و اختر تاباں۔ مصحفی:
اُسے دیکھ طِفلی میں کہتی تھی دَایہ
یہ لڑکا طرح دار پیدا ہوا ہے
مرزا قتیل ؏:
پارہ خواہد شدازیں دست گریبانے چند
لکھا ہے کہ جب وہ مہر سپہر سلطنت برج حمل سے جلوہ افروز ہو، زینت بخش کنار مادر و زیب دہ آغوش دایہ ہوا، در خزانہ و محبس کھلا۔ ہزارہا قیدی رہا ہو اپنے گھر آیا اور سینکڑوں لو نڈی غلام نے فرمان آزادی پایا۔ شہر میں محتاج ناپید تھا، مگر اشرفی، روپیہ حاجیوں کے واسطے مکہ معظم اور زائروں کی خاطر کربلائے مکرم میں پیہم بھیجا۔ ایک سال کا خراج رعیت محتاج کو معاف ہوا۔ شہ زادے کے نام کے گنج آباد ہوئے۔ مسجدیں، مدرسے، مہمان سرا، مسافر خانے تعمیر ہوئے۔ اہل شہر دل شاد ہوئے۔
نجومی، پنڈت، جفر داں حاضر ہوئے۔ بہت سوچ بچار کر برہمنوں نے عرض کی: مہاراج کا بول بالا، جاہ و حشم ہر دم بڑھے، مرتبہ دو بالا، اعلیٰ رہے۔ ہماری پوتھی کہتی ہے: بھگوان کی دیا سے شہ زادے کا چندرماں بلی ہے۔ چھٹا سورج ہے۔ جو گرہ ہے وہ بھلی ہے۔ دیگ تیگ کا مالک رہے۔ دھرم مورت یہ بالک رہے۔ جلد راج پر براجے۔ پرتھمی میں دھوم مچے، ایسی شادی رچے۔ استری تین ہو۔ دو کا پر، مان، ایک کی بین ہو۔ مگر پندرھویں برس مشتری بارھویں آئے گی، سنیچر پاؤں پڑے گا۔ ایک پنکھیرو سُوے کے برن میں ہاتھ آئے گا۔ تِریا کی کھٹ پٹ سے وہ بچن سنائے گا کہ راج پاٹ چھڑا، دیس سے بدیس لے جائے گا۔ ڈگر میں شاہ زادہ بھٹکے گا، کوئی مانس پاس نہ پھٹکے گا۔ ساتھی چھٹیں۔ اپنے ڈیل سے ڈانوا ڈُول رہے۔ پھر ایک مَنُکھ، ٹھاکر کا سیوک کرپا کرے، راہ لگائے۔ کوئی کلنکن، لُوبھی ہو، کشٹ دکھائے۔ وہاں سے جب چھٹے، رانی ملے مہا سندر، وہ چرن پر پِران وارے، پِتا اس کا گیانی، گُن کی تکھتی دے، اُس سے کئی ملچھ مارے، دکھ میں آڑے آئے، بگڑے کاج بنائے۔
جب اُس نگر پہنچے، جس کی چِت میں گھر چھوڑے، تو لاب بہت ہو، دَرَب، گہنے ہاتھ آئیں۔ دور سب کَلیس ہو جائیں۔ پر ایک ہِتی، من کا کپٹی، اِستری پر دُچِت، کھٹائی کرے۔ جُنجھ پڑیں، نر ناری لڑیں۔ اور کچھ جل میں بھی ہل چل پڑے۔ پریتی لوگ چھٹ جائیں۔ نگر نگر کھوج میں پھر آئیں۔ سب بچھڑے مل جائیں۔ ماتا پِتا کے ڈِھگ آئیں۔ بڑا راج کرے۔ دَیا دھرم کے کاج کرے۔ گُسَیّاں کی کرپا سے جان کی کھیر ہے۔ بڑی بڑی دھرتی کی سیر ہے۔
یہ سن کے بادشاہ گونہ ملول ہوا۔ پھر مستقل مزاجی سے یہ کلمہ فرمایا: فِعل الحکِیم لَا یَخلُو عَنِ الحِکمة، ان سب کو بقدرِ حال، فراخور کمال مالا مال کیا۔ خلعت و انعام دیا۔ بہ بشاشت تمام سرگرم پرورش صبح و شام رہا۔ کوئی تو برسوں میں بڑھتا ہے، وہ نہال نَو دمیدہ بُستانِ سلطنت گھڑیوں میں بلند بالا ہوتا تھا۔ چند عرصے میں، بہ حَول و قوتِ الٰہی، وہ ہاتھ پاؤں نکالے، دس برس کے سِن میں اس غزال چشم نے ہِرن کے سینگ چیر ڈالے۔ دست و بازو میں یہ طاقت ہوئی کہ درندۂ فیل مست ہوا۔ جوان رعنا، چہرہ زیبا، رُستم شوکت، اِسفند یار سے زبردست ہوا۔ جو اُس کا روئے منوّر دیکھتا، یہ کہتا، لا اَعلم:
مُنہ دیکھو آئنہ کا، تری تاب لا سکے
خورشید پہلے آنکھ تو تجھ سے ملا سکے
تصویر تیری کھینچے مُصوِّر تو کیا مجال
دستِ قضا تو پھر کوئی تجھ سا بنا سکے
تحصیلِ علم و فَضل میں شہرۂ آفاق ہوا۔ جتنے فنِ سپہ گری ہیں، اُن کا مَشّاق۔ جَمیع عُلوم، ہر فن میں طاق ہوا۔ جَلَّ جَلالُہ! باپ ویسا، بیٹا ایسا محبوب، مَحبّت میں بَسانِ یوسف و یعقوب علیہما السلام۔ جب وہ ہِلالِ سپہرِ شَہر یاری بہ فضلِ باری بدرِ کامل ہوا اور چَودھواں بَرس بھر گیا، جوانوں میں شامل ہوا۔ بہ صَلاح و صَواب دیدِ اَرکانِ سلطنت و ترقّی خواہانِ دولت شادی کی تجویز ہوئی۔ بہ تلاشِ بے شمار و تجسس بِسیار ایک شہ زادی پری پیکر، خوب صورت، نیک سیرت، حور نِژاد، گُل اَندام، سیمیں بَر، رشکِ سَرو، غیرتِ شمشاد، ماہ طلعت نام، دود مانِ والا سے مُقرّر ہوئی۔ وہ جو آئینِ بادشاہی، طریق فرماں روائی ہے، اُسی طرح اُس کے ساتھ اُس اَخترِ تَابِندۂ فلکِ شاہی کو ہَمقِراں کیا، نکاح پڑھوا دیا۔