حکایَتِ ہوش رُبا، نقلِ عبرت خیز، حیرت افزا
قاضیٔ متشرِّع اور مُفتی صاحبِ وَرع کی
قاضی کا ایمان کھونا، بھاوج پر فریفتہ ہونا۔ اس کا انکار کرنا، قاضی کا مفتی میں بے گناہ سنگسار کرنا۔ اس کی جان بچ جانا، بادشاہ کا آنا۔ سب حال ظاہر ہونا، عورت کی پاک دامنی سے ماہر ہونا
توتے نے کہا: جناب امام جعفرِ صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا مُتدَیِن، نیک طینت، باصفا، سخی، شجاع، عابد، پارسا۔ اس کے عہدِ دولت میں دو بھائی تھے: ایک تو شہر کا قاضی، دوسرا مفتی۔ بہ ظاہر مردِ مسلماں، صاحبِ ایماں۔ مفتی کی بی بی نہایت شکیلہ، بہت جمیلہ تھی۔ اتفاقاً عِندَالضَّرورت مفتی کو بادشاہ نے کہیں دو چار منزل بھیجا۔ وہ اپنی عورت، دمِ رخصت بھائی کو سونپ گیا۔ قاضی گاہ گاہ خبر کو اس عورت کے پاس جاتا تھا۔ پردہ اسی واسطےخوب ہوتا ہے۔ جتنا دنیا کا قصہ بکھیڑا ہے، سب آنکھوں سے دیکھا سنا ہے۔ وہ تو بہ درجہ حسین تھی؛ شیطان عَلَیه اللَّعن نے ورغلانا؛ قاضی کی آنکھ پڑی، فریفتہ ہوا۔ چند روز میں ولولۂ طبیعت حد سے فُزوں، بلکہ قریبِ جنوں ہوا؛ مگر وہ عورت جیسی خوب صورت تھی، اس سے زیادہ عِصمت و عِفّت رکھتی تھی۔ ایسا حسن حسنِ اتفاق سے ہوتا ہے۔
قاضی نے ایک روز اس سے سوالِ وِصال کیا۔ اس نے اس اَمرِ بد سے اَزحد انکار کرکے، خوشامد کا کچھ نہ خیال کیا۔ قاضی سمجھا: یہ راضی نہ ہوئی اور نہ ہوگی۔ خِفَّت میں دو اندیشے ہوئے: ایک تو محرومیٔ وِصال، دوسرے اِفشائے راز کا ملال؛ گھبرا کر بادشاہ سے عرض کی: دمِ رخصت میرا بھائی اپنی جورو مجھے سونپ گیا تھا؛ اس فاحشہ نے اس کی غَیبت میں زِنا کیا، مجھے ثبوتِ کامل ہوا۔ بادشاہ نے مردِ متَشَرع سمجھ، صاحبِ زُہد و وَرع جان کر اختیار دیا۔ قاضی نے اس کو تنہا لے جا کر سمجھایا کہ اب تک خیر ہے، مجھ سے راضی ہو؛ نہیں، بڑا شَر ہو گا، بے سود تیری جان کا ضَرَر ہو گا۔ دل پر جبر اِختیار کروں گا، تجھے سنگسار کروں گا۔ وہ عورت شیر صفت اس کی گیدڑ بھبکی سے نہ ڈری، مرگ پر راضی ہوئی۔ اس کم بخت شہوت پرست نے شہر کے باہر لے جا، اس کو سنگسار کیا۔ خلقِ خدا عبرت کناں، خائف و لرزاں اپنے اپنے گھر پھری۔ وہاں حافِظِ حقیقی نے شیشۂ حیات اس نیک صِفات کا سنگِ ستمِ قاضی سے بچا لیا، ٹھیس نہ لگی۔ خواہشِ بے جا میں ایسا ہی ہو جاتا ہے، عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ شب کو عورت پتھر سَرکا، ایک سمت پِیادہ پا روانہ ہوئی۔
جنگل میں ایک ویرانی رہتا تھا، مرد خدا پرست۔ بستی کو چھوڑ، اہلِ دُنیا سے منہ موڑ دَشت بسایا تھا، ویرانے میں گھر بنایا تھا۔ یہ جب وہاں پہنچی، اس حق پرست نے اس کی غریبُ الوطنی پر رحم کھایا۔ لڑکا اس کا خُرد سال تھا؛ اس کی خبرگیری، خدمت کو اپنے پاس رکھ لیا۔ اس ویرانی کا ایک غلام سخت نُطفۂ حرام تھا، بدذات، گیدی۔ مَثل مشہور ہے: لَا خیر فِی عَبِیدی۔ رنڈی جوان دیکھ کر عاشق ہوا۔ بہت سی چاپلوسی کی، وہ ڈَھب پر نہ چڑھی۔ اس شَقی نے ویرانی کا لڑکا ذَبح کرکے، تُہمتِ قتل اُس عورت پر کی۔ اولاد کی محبت مشہور ہے۔ امیر ہو یا فقیر، اس میں مجبور ہے۔ ویرانی کو بہ شِدّت رنج ہوا؛ لیکن وہ صابر و شاکر تھا، عورت سے کچھ نہ کہا، بجز رَضِینا بِالقَضَا۔ اور بیس دینار زادِ راہ دے کر رخصت کیا۔
وہ بے چاری مصیبت کی ماری چل نکلی۔ ایک شہر میں وارِد ہوئی۔ بازار میں بھیڑ دیکھی، شور و غل برپا تھا، اور ایک شخص کو زنجیر و طوق میں پھنسا، کَشاں کَشاں لوگ لیے جاتے تھے۔ عورت نے پوچھا: اس سے کون سا جرمِ قبیح سرزد ہوا، جو ایسی آفت میں مبتلا کیا۔ لوگوں نے کہا: یہ بیس دینار کا قرض دار ہے، ادا کی طاقت نہیں؛ اس کے بدلے یہاں کے سردار نے دار کا حکم دیا ہے۔ عورت کو رَحم آیا، وہی ویرانی کے دینار دے کر قید سے چھڑایا۔ وہ مّکار، بدباطن، عَیّار تھا۔ رنڈی جو خوب صورت دیکھی، جی بُھربُھرایا، کہا: تو تو میری محسنہ ہے، میں تیرے ہمراہ رہوں گا، خدمت گزاری کروں گا۔ اس حیلے سے ساتھ ہوا۔
کچھ دور شہر سے نکلی تھی، راہ میں دریا ملا۔ یہ مدت سے نہائی نہ تھی، کپڑے بھی کثیف ہو گئے تھے؛ ایک طرف لباس دھو کر، نہا رہی تھی۔ ناگہاں ایک سمت سے دو جہاز وہاں آئے۔ اہلِ جہاز نے دیکھا: عورت قمر طَلعَت ہے، اسی حرام زادے سے حال پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اس نے اپنی لونڈی بتایا۔ مول تول درمیان آیا۔ غَرض کہ مَبالِغِ خطیر پر بیچ کر، کسی بہانے سے جہاز پر چڑھا دیا، روپے لے کر چل نکلا۔ وہ دو سوداگر تھے، دونوں اس پر مائل ہوئے، قصے فساد حائل ہوئے۔ پھر یہ صلاح ٹھہری کہ بِالفِعل مال کے جہاز پر یہ رہے۔ جب اسباب بِک چکے، اس وقت عورت جسے قبول کرے، وہ لذّت حُصول کرے۔ جھگڑا مٹا دیا، اسے مال کے جہاز پر بٹھا دیا۔ ایک روز آندھی چلی، طوفان آیا۔ جس جہاز پر سوداگر تھے، وہ تو ڈوب گیا؛ مال کا جہاز اور یہ جاں باز سلامت رہی، مالک ہوئی۔ چند عرصے میں جہاز اس شہر میں آیا جہاں سے یہ سنگسار ہو کر نکلی تھی۔
دو کلمے یہ سنو: جس شخص نے اس کو بیچا تھا، کسی تقریب سے وہ یہاں کے بادشاہ کا بخشی ہوا۔ اور ویرانی کا غلام، بہ مَدَدِ اَیّام پایۂ وِزارت پا گیا۔ اور مفتی صاحب سفر سے پھر کر، مفت جورو کے الم میں مبتلا تھے۔ جس دن جہاز اس شہر میں پہنچا، وہاں کے پیمبر کو حکمِ الٰہی آیا کہ ہمارا ایک خاص بندہ جہاز پر آیا ہے، یہاں کا بادشاہ؛ وزیر، بخشی اورقاضی و مفتی کو لے کر اس کے پاس جائے، اور اس سال جو گناہِ صغیرہ یا کبیرہ ان سب سے عمداً اور سہواً سرزد ہوئے ہوں، اس کے رو بہ رو بیان کریں۔ جو وہ خطا معاف کرے، تو ہم بھی درگزریں؛ وگرنہ بلائے آسمانی، آفتِ ناگہانی اس زمین پر نازل کروں گا۔
پیمبر نے بادشاہ سے کہا۔ وہ سب کو ہمراہ لے کر، نبی کو گواہ لے کر جہاز پر آیا۔ عورت پردہ چھوڑ کر آ بیٹھی۔ تقریر شروع ہوئی۔ پہلے بادشاہ نے کہا: میں سِیَہ کار، اَز سَرتاپا گنہگار، معصیت کا پُتلا ہوں؛ مگر یہ خدشہ تازہ ہوا ہے کہ قاضی کے کہنے سے مفتی کی جورو کو بے تحقیقات رَجم کا حکم دیا۔ عورت بولی: غَفَرَ اللہُ لَكَ۔ یعنی بخشے خدا تجھے۔
پھر مفتی نے کہا: مجھے جورو کی طرف سے گمانِ بد ہے۔ اس نے کہا تو ابھی چُپ رہ، بیٹھ جا۔ پھر قاضی نے بیان کیا: مجھ سے بدولتِ نفسِ امّارہ یہ حرکتِ ناکارہ ہوئی کہ بے جرم و خطا ایک بے گناہ کو سنگسار کیا۔ اس نے کہا: اللہ تیری مغفرت کرے۔ بعد اس کے وزیر، وہ ویرانی کا غلام آیا؛ ندامت سے سر جھکایا، کہا: بہ تحریکِ شیطان اور جوشِ شَہوت، غلام سے جرم قبیح ہوا کہ آقا کا لڑکا مار ڈالا، صاحبِ عِصمت کا قصور ٹھہرایا، بوجھ اپنا اس پر ٹالا۔ وہ بولی: غفورُ الرّحیم تجھ پر رحم کرے۔
جب بخشی آیا اور بیچنے کا ماجرا زبان پر لایا، عورت نے کہا: تو مُحسن کُش ہے، خدا تجھے نہ بخشے گا۔ اَلغرض بخشی کی جُرم بخشی نہ ہوئی۔ پھر وہ پردہ اٹھا کے باہر آئی، مفتی سے کہا: یہ سب بکھیڑا تو نے سنا، تو نے مجھے پہچانا؟ یہ سب قصہ میری عفت کا ہے۔ آج تک خدا کے حِفظ و عِنایت سے میری عزت و آبرو بچی، اب خُلع کی امید وار ہوں۔ یہ مال و متاع تو اپنے صرف میں لا، میں تنہا گوشۂ عُزلت میں بیٹھ کے عبادتِ معبود کروں گی، اسی شغل میں مروں گی۔ یہ ماجرا دیکھ کر حاضرینِ صحبت، ناظرینِ جلسہ تھرائے۔ بادشاہ سلامت مُنفَعِل گھر آئے۔ وہ عورت تو حُجرہ بنا کے طاعتِ یزداں میں مشغول ہوئی، دولتِ کونین حصول ہوئی۔
توتا یہ قصہ تمام کرکے بولا: جانِ عالم! جو لوگ ثابت قدم ہیں، ان کا ہر وقت اللہ یار ہے۔ ہر بحرِ بےکَنار سے ان کا بیڑا پار ہے۔ فرد:
نہ ہر زن، زن است و نہ ہر مرد، مرد
خدا پنج انگشت یکساں نکرد
یہ نقل سن کر شاہ زادے کا نشہ ہِرن ہوا۔ دونوں کی مَشَقّت اور ایذا اٹھانی، خانہ ویرانی، بادیہ پیمائی، عزیزوں کی جدائی یاد آئی۔ خوفِ خدا سے مِثل بِید کانپا۔ نَدامت سے عُذر کیا کہ حالتِ نشے میں جھک مارا، قصور ہوا، اب یہ خدشہ دل سے دور ہوا۔ پھر ہنسی خوشی وہاں سے کوچ کیا۔