وفورِ سَرما، شِدّتِ بَرْد دَشت و کُہسار میں۔ کیفیت باہم کے جلسے کی،
ترقّی شراب کے نشے کی۔ خیالاتِ فاسد آنا، توتے کا سمجھانا،
پھر شہ زادے کا پچھتانا
نا گاہ ایک روز گُذرِ مَوکِبِ با حشمت و جلال، فَرّ و شوکت سے، ایک صحرائے باغ و بہار، دَشتِ لالہ زارِ بے ملال میں ہوا۔ فِضائے صحرا قابلِ تحریر۔ کیفیت دشتِ گُلشن آسا لائقِ تقریر۔ بوٗ باس ہر برگ و گُل کی رشکِ مشکِ اَذْفَر۔ صفحۂ بیاباں مُعَنْبَر و مُعطَّر۔ چشموں کا پانی صفا میں آبِ گُہر سے آب دار تر، ذائقے میں بِہ اَز شیر و شکر۔ چِلّے کے جاڑے، کڑاکے کی سردی تھی، گویا کہ زمین سےآسمان تک یَخ بھر دی تھی۔ پَرِند چَرِند اپنے اپنے آشیانوں اور کاشانوں میں جمے ہوئے بیٹھے، بھوک اور پیاس کے صدمے اُٹھاتے تھے، دھوپ کھانے کو باہَر نہ آتے تھے، قصد سے تھرتھراتے تھے۔ سردی سے سب کا جی جلتا تھا، دَمِ تقریر ہر شخص کے مُنہ سے دُھواں دھار دُھواں نکلتا تھا۔ آواز کسی کی کان تک کسی کے کم جاتی تھی، مُنْہ سے بات باہَر آئی اور جم جاتی تھی۔ مارِ سیاہ اُوس چاٹنے باہَر نہ آتا تھا، سردی کے باعث دُم دَبا کے بانبی میں دبکا جاتا تھا۔ زمانے کے کاروبار میں خلل تھا، ہر ایک دست دَر بَغَل تھا۔ عاشق و معشوق بھی اگر ساتھ سوتے تھے؛ گھٹتے تھے، مگر گھٹنے پیٹ سے جُدا نہ ہوتے تھے۔ اَشکِ شمعِ انجمن لگن تک گرتے گرتے اُولا تھا، پروانوں نے گرد پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا۔ شعلہ کانپتا تھا، فانوس کے لحاف میں مُنہ ڈھانپتا تھا۔ شمع کا جسم برف تھا، پگھلنے کا کیا حرف تھا۔ ہر سنگ کے سینے میں آگ تھی، گواہِ شرعی شَرَر تھا، لیکن سردی کو بھی یہ لاگ تھی اور جاڑے کا ایسا اثر تھا کہ سِلیں کی سِلیں جَمی پڑھی تھیں، فَولاد سے زیادہ کڑی تھیں۔ تَنورِ فلکِ چارُم کی چھاتی سرد تھی۔ گلخَن میں یہ بُرودَت تھی کہ کشمیر گَرد تھی۔ لُنجوں نے بٹیر پکڑے، لَوِے لولُوں کے ہاتھ آئے، لنگڑے ہِرَن باندھ لائے۔ سَر زمینِ ہند میں مُردے نہ جلتے تھے، زِندوں کے ہاتھ پاؤں گلتے تھے۔ آتش رُخسارِ گُل شبنم نے بُجھائی تھی، باغ میں بھی جاڑے کی دُہائی تھی۔ اُوس برگ و بار کی،صنعت پروردگار کی دِکھاتی تھی، مُرصَّع کاری یک لَخْت نظر آتی تھی۔ دانہ ہائے اشکِ شبنم، خواہ بڑے یا رِیزِے تھے، ہر شجر کے برگ و بار میں اَلماس اور موتیوں کے سَبُک آوِیزِے تھے۔ عِذارِ لالۂ حمرا رشکِ زعفراں تھا۔ طلائی درختوں کی ٹہنیاں، کہرُ بائی پتّے، بہار میں رنگِ خِزاں تھا۔ اِس سردی کا کہیں ٹھور ٹھکانا ہے، حَمَّام پر یہ پھبتی تھی کہ بَرف خانہ ہے۔ آگ پر لوگ جی نثار کرتے تھے، زَر دُشْت کا طَریق اِختیار کرتے تھے۔ اُسی سردی کا یہ وُفور ہے کہ آج تک بُتوں کی سرد مہری مشہور ہے۔ آفتاب عازِمِ بُرجِ حَمَل تھا، آتَش پَرَستوں کا عَمَل تھا۔ زیست سَمَنْدَر کے عُنوان تھی، آگ میں خلقت کی جان تھی۔ عاشق تو کیا، معشوق ٹھنڈی سانْس بھرتے تھے، گرمی نہ کرتے تھے۔ دانْت سے دانْت بجتا تھا۔ ہونْٹ نیلم کو شرماتے تھے، پان کے لاکھے میں سُوسَن کی پنکھڑی سے نظر آتے تھے۔ عاشق تن، پریوں کو ساتھ لے کے سوتے تھے، اِس پر بچھونے گرم نہ ہوتے تھے۔ عالَم اللّٰہ کا جاڑے میں اَلْمَسْت تھا۔ جس کو دیکھا، آتَش پرست تھا۔ جاڑے سے اُس دشت میں ایسا پالا پڑا، تمام اہلِ لشکر کو تَپ لرزے کا عالم تھا۔ بانکے تِرچھے خود بہ خود اینٹھے جاتے تھے، ڈھال تلوار کھڑکھڑانے کے عِوَض دانْت کَڑکَڑاتے تھے۔ تپنچے، چقماق، پتھر کَلے؛ لاٹھی سے بد تر تھے۔ بندوق میں لاگ نہ تھی، چانْپ کے پتھروں میں آگ نہ تھی۔ اور تُوڑے دار کا یہ حال تھا: بُوجھ کندھا توڑتا تھا، قدم اُٹھانا مُحال تھا۔ تُوڑاہر ایک، گُل تھا؛ توتے کی جگہ شُورِ بلبل تھا۔ ملائم لوگوں کے حواس جم گئے تھے، جُگنو کو چنگاری کے دھوکے میں اُٹھانے کو تھم گئے تھے۔ اور ہوش ایسے کانْپتے تھے؛ کیچوے کی مِٹّی کو الاؤ سمجھ، پھونکتے پھونکتے ہانپْتے تھے۔ سردی بس کہ کارفَرما تھی، ایک کو دوسرے کی تمنّا تھی۔ یہاں تک جاڑے کا زور شور عالم گیر ہوا تھا کہ کُرَۂ نار، زَمْہَریر ہوا تھا۔
جانِ عالم نے فرمایا: آج خیمہ ہمارا یہیں ہو۔ جس دم تمام لشکر نے مِثْل دَر مِثْل قیام کیا، خود مُتَوجہ سامانِ عیش و نَشاط ہوا۔ ملکہ اور انجمن آرا سے پری پیکر محبوب۔ توتا مُصاحِبِ بے بدل، بہ دِل مرغوب۔ گردش میں دَورِ شرابِ ناب آیا، ساغر میں آفتاب آیا؛ اِلّا، کشتی شراب کی، نہ بَطِ مَے چلتی تھی؛ نہ کباب بھنتے تھے، نہ آگ جلتی تھی۔ گلاس شراب کا برف کی قفلی کو شرماتا تھا، قطرۂ مَے اُس میں گرتے ہی جَم جاتا تھا۔ مینائے بے زَباں کے مُنْہ پر روٗئی تھی، ایسی سردی ہوئی تھی۔ گلا بیٹھا تھا؛ جب بہت غُل کرتی، تب قُلقُل کرتی۔ لَبِ ساغر خُشک، جِسم پر پسینا تھا؛ پانی کا پیالہ فخرِ آبگینہ تھا۔ جاڑے کا لشکر میں ہر طرف شُور و غُل تھا۔ بازار میں روٗئی کا لین دین بِالکل تھا۔
جب دَورِ آفتاب ماہ جبینوں میں چمکا؛ عالَمِ سُرور میں، نشے کے وُفور میں جانِ عالم کو خیالِ نزدیک و دور آیا۔ دل میں سوچا کہ اِتنے عرصۂ دراز، زمانۂ دِیریاز تک ملکہ اور انجمن آرا کو ہم سےفُرقت، غیروں سے قُربت رہی؛ رنڈی کا اِعتِبار کیا ہے، یہ قوم قدیم سے بے وفا ہے۔ فِردَوسی:
اگر نیک بودے سَر انجامِ زن
زناں را “مَزَن” نام بودے نہ “زَن”
یہ نشیب و فَراز جو ذہن میں آیا؛ جَلی کَٹی باہم ہونے لگی، کج بحثی صحبت کا لطف کھونے لگی۔ وہ سبز پُوش، خانہ بدوش، موقع شَناس، مزاج داں، دِل سُوز، ادب آمُوز، بے زَباں بلبلِ ہزار داستاں دل کا حال جانتا تھا، اُڑتی چِڑیا پہچانتا تھا؛ سمجھا: جانِ عالم کی طبیعت کبیدہ ہوئی۔ قریب وہ وقت آیا چاہتا ہے کہ ایسی گفتگو آغاز ہو، جس کا انجام یہ صحبت دَرہَم و بَرہَم کرے۔ زندَگی سب کی تلخ ہو، ہر کلمہ نبات کا، کارِسَم کرے۔ بات کو کاٹ، طبیعت کو اُچاٹ، کہنے لگا: شہ زادۂ عالَم! نشہ اِس کیفیت سے حرام ہے کہ اِس کی ترقی میں عقل کو تنزل ہوتا ہے۔ خیالِ بیہودہ، لاطائل آتے ہیں، احسان بھول جاتے ہیں۔ فقط گُمانِ بے جا اور خیال، وہ بھی نشے کے حال کا؛ اُس پر حق خدمت ناحق بھول جانا، روکھے ہو کے بگڑنا، مُنْہ بنانا، گویا اِن تِلوں میں تیل نہ تھا، کبھی میل نہ تھا؛ آدمیّت سے بعید ہے۔ اِن میں کوئی آپ کی زر خرید ہے؟ ایک ساعَت اِدھر مُخاطَب ہو جیے۔ اِس مدّتِ مُفارَقَت میں بہت سانِحے دیکھے، افسانے اپنے بیگانے کے سُنے؛ اگر بہ گوشِ ہوش انھیں سُنیے تو یہ تخیلات فاسِددور ہوں۔ جانِ عالم نے کہا: ایسی بات اس وقت واجبات سے ہے، جلد کہہ۔