حکایتِ پُر عبرت، جاں سوز، حیرت اَفزا، غم اندوز؛
یعنی سانِحۂ برادرانِ تَواَم
جانا شکار کا، دامِ قضا میں پھنسنا طائرانِ پُر اعجاز، عجائبِ روزگار کا۔
پھر ایک نے سلطنت پائی، دوسرے کے ہاتھ بہ صد خرابی شہ زادی آئی
جوگی نے کہا: ایک شہر میں دو بھائی تھے تَواَم، پرورش یافتۂ ناز و نِعَم، رُوزگار پیشہ، نیک اندیشہ۔ سوائے رشتۂ برادری، سَر رِشتۂ دوستی و اِتّحاد وہ نیک نِہاد باہم مُستَحکَم رکھتے تھے؛ مگر دونوں کی طبیعت متوجہِ سیر و شکار، ہمّت مصروفِ سیّاحِیٔ دِیار دِیار تھی۔ ایک روز شکار کھیلتے جنگل میں جاتے تھے، ہِرَن سامنے آیا۔ چھوٹے بھائی نے تیر لگایا، کاری نہ لگا۔ ہِرَن کَنَوتِیاں اُٹھا کے بھاگا۔ دونوں نے تَعاقُب کیا۔ تمام دن رَوان و دَواں، اُفتان و خیزاں چلے گئے۔ قریبِ شام موقع پا کے بڑے بھائی نے جو تیر مارا، ہِرَن ڈگمگا کر گرا۔ یہ گھوڑوں سے اُترے، ذَبح کیا۔ دن بھر کی دَوڑ سے گھوڑے شَل، خود بھی مضمحل ہو گئے تھے۔ تمام روز کے بے دانہ و آب، بھوک پیاس سے بے تاب تھے۔ لَکڑیاں چُن کر، پانی بہم پہنچا کر کباب لگائے، بہ خوبیٔ تمام دونوں نے کھائے؛ مگر اُس روز جو کیفیت اور لذّت خُشک کباب میں پائی، مُرغ کی زِیر بِریانی تَرتَراتی کبھی ایسی نہ کھائی۔ پانی جو ڈگڈَگا کے پِیا، سُستی معلوم ہوئی اور رات بھی ہو گئی تھی؛ لیکن شبِ ماہ، پورن ماسی کا چاند، اللہ اللہ! جنگل کی فِضا، سبزۂ نَو رُستَہ جا بہ جا۔ انھوں نے کہا: آج کی شب اِس صحرا میں سحر کیجیے، چاندی کی بہار، صنعتِ پَروَردگار دیکھ لیجیے۔ پھر دل میں سوچے کہ تنہائی کی چاندنی گور کے اندھیرے سے بد تر ہے۔ سچ ہے: جب ماہ روبَر میں نہ ہو تو نور نظر میں نہ ہو، اندھیر اُجالا آنکھ میں برابر ہے۔ ناسخ:
دھوپ بہتر، پر شبِ فرقت کی بد تر چاندنی
صاعِقے کے طَور سے پڑتی ہے مجھ پر چاندنی
خیر، یہ دونوں ایک درختِ سایہ دار چشمے کے قریب دیکھ؛ شَطرَنجی، چاندنی تو ہمراہ نہ تھی؛ زین پُوش چاندنی کے عِوَض بچھا، چاندنی کی سَیر کرنے لگے۔ باگ ڈُور سے گھوڑے اَٹکا دیے۔ چھوٹا بھائی بڑا متین، ذی شعور، نکتہ سَنج، دوربیں تھا، بڑے بھائی نے کہا: آج ہم تمھاری عقل کا اِمتِحان کرتے ہیں؛ بتاؤ تو اِ س وقت ہمارے شہر کا ہم سے کتنا فاصلہ ہے؟ اور یہ سمت کون سی ہے؟ تیسرے، کباب کی لذّت، پانی کا زیادہ مزہ آج مِلا، اِس کا سبب کیا تھا؟ اُس نے جواب دیا: یہ باتیں سہل ہیں۔ شہر ہمارا یہاں سے سَو کوس ہے اور دلیلِ کامل یہ ہے کہ بار ہا تَجرِبہ کیا ہے، میرا گھوڑا تمام دن میں سو کوس اِسی چال سے پہنچتا ہے۔ اور سِمت، ستاروں سے ثابِت کہ شمال ہے۔ رہا کھانے پانی کا لطف، خِلافِ وقت سے تھا؛ اِلّا، نیا مُقَدَّمَہ یہ سُنیے: یقینِ کامل ہے کہ صبح کو عِنایَتِ خالق اور مَدَدِ طالع سے وہ سامان مُہیّا ہو جو کُدورَتِ سابِق دور ہو، آئندہ آسائش رہے، طبیعت مسرور ہو۔ بڑے بھائی نے اِس کی وجہ پوچھی۔ اُس نے کہا: آج سو کوس کی مسافَت بہ صد آفت طَے کی، بھوکے پیاسے رہے، لیکن دل بَشّاش ہے۔ وہ سُن کے چُپ ہو رہا۔ یہ قصّہ رَفت و گُذشت۔
پھر مشورہ ہوا کہ یہ جنگل سُنسان، ہو کا مکان ہے؛ یہاں دَرِندہ و گَزِندہ، سانپ بچھو، شیر بھیڑیے کے سوا پَرِندَہ، دَوِندَہ نظر نہیں آتا؛ جو ہم تم دونوں سو رہے، تو اَلنَّومُ اَخُـــو المَوتِ، خُدا جانے کیا معاملہ رو بہ کار ہو۔ تین پَہَر رات باقی ہے؛ ڈیڑھ پَہَر ہم جاگیں، پھر تم ہُشیار رہو۔ یہ صَلاح پسندِ خاطِرِ طَرَفَین ہوئی۔ پہلےبڑے بھائی نے آرام کیا، چھوٹے نے جاگنے کا سَر انجام کیا۔ تیر و کماں ہاتھ میں اُٹھا ٹَہلنے لگا۔ جب زُلفِ لَیلائے شب کمر تک آئی؛ اُسی درخت پر دو جانور آپَس میں اپنی اپنی تَوصیف و تعریف زبانِ بے زَبانی میں کرنے لگے اور یہ شخص بہت جانوروں کی بولی سمجھتا تھا، آواز پر کان لگائے۔ ایک بولا: میرے گوشت میں یہ تاثیر ہے: جو کھائے؛ ایک لعل تو پہلے دو پَہَر کے بعد اُگلے، پھر ہر مہینے مُنہ سے نکلے۔ دوسرا بولا؛ جو شخص میرا گوشت کھائے، اُسی روز بادشاہ ہو جائے۔
یہ باتیں سمجھ دل میں نہایت خوش ہوا۔ تیر و کماں تو موجود تھا؛ اِلَّا اللہ کہہ کر، بیر بے تَاَمُّل چِلّے سے جوڑ کر کھینچا۔ لَبِ سوفار کان کے پاس آ، بہ وعدۂ نشانہ سرگوشی کر کے روانہ ہوا۔ قضا نے ہر چند اُن کے سر پر “خبردار” پکارا، کمان کَڑکَڑا کر چِلّائی کہ وہ مارا۔ رات کا تیر سرا سری اُٹَکَّر لَیس؛ مگر مَرگ جو درپئے ہو گئی، کسی گوشے میں جان نہ بچی۔ پَیکان سے تاسوفار دوسار ہوا۔ زمین پر چھد کر دونوں ایک تیر میں گر پڑے۔ اِس نے تکبیر بِلا تاخیر کہہ کے ذَبح کیا، طائِرِ روح اُن کا اُڑ گیا۔ دن کی لَکڑِیاں بچی پھر سُلگا کباب لگائے۔ جس کے گوشت میں سلطنت کا ذائِقہ سمجھا تھا، اُسے کھایا۔ دوسرا، بھائی کے واسطے اُٹھا رکھا اور ایسا خوش ہوا کہ تمام شب آپ پاسبانی کی، بڑے بھائی کو تکلیف نہ دی۔ جَلَّ جَلالُہٗ! مُعاملاتِ قضا و قَدَر سے مجبور بَشَر ہے،انسان کے قبضۂ قُدرت میں نَفع ہے نہ ضَرَر ہے۔مصر؏:
تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ
شعر:
اُنچہ نصیب است، بہم می رسد
وَر نستانی، بہ ستم می رسد
جس وقت زاغِ شب نے بَیضہ ہائے انجم آشیانۂ مغرب میں چھپائے اور صَیّادانِ سحر خیز دام بَر دُوش آئے اور سیمرغِ زَرّیں جَناح، طِلا بال، غیرتِ لعلِ بدخشاں بہ صد عُظم و شاں قفسِ مشرق سے نکل کے گلشنِ زَنگاری میں جلوہ افروز ہوا، یعنی شب گُزری، روز ہوا؛ بڑا بھائی نیند سے جو چَونکا، چھوٹے نے وہ کبابِ پَس ماندۂ شب، رات کے بچے رو بہ رو رکھے؛ وہ نُوش کر گیا، اور حال کچھ نہ کہا۔ دو گھڑی دن چڑھے جب لعل اُگلا، تب سمجھا: ہم نے بہت تدبیر کی، مگرسلطنت بڑے بھائی کی قسمت میں تھی۔ پھر وہ لعل بہ طریقِ نَذر رو بہ رو لایا اور رات کا فَسانہ مُفَصّل سب کہہ سُنایا، کہا: اللہ کی عِنایَت سے جلد آپ کو سلطنت کا حُصول ہو، یہ نَذر غُلام کی قبول ہو۔ اُس کو اِس کی سعادت مندی سے خُرسَندی حاصل ہوئی؛ پھر کہا: سامنے آبادی معلوم ہوتی ہے؛ ہم جا کر اِس لعل کو کسی دَلّال کے ہاتھ بیچ آئیں، تم گھوڑوں کے پاس رہو۔ اگر اپنے شہر چل کر یہ اَمر کریں گے؛ حاکم کا خوف مانِعِ کار ہو گا، مفلسی کے باعِث کس کو ہمار اعتبار ہو گا۔ یہ کہہ کر سمت شہر چلا۔
جس دم شہر کے دروازے پر پہنچا، خَلقَت کا اَنبُوہ نظر پڑا۔ اُس ملک کا یہ مَعمول تھا: جب وہاں کا بادشاہ دارُ السَلطَنَتِ عَدَم کا تخت نَشیں ہوتا؛ وَضیع و شریف شہر کے، سُوُم کی رَسم کے بعد، وزیر اعظم کے ہمراہ صُبح دَم تخت لے کے دروازے پر آتے تھے؛ جو اُس روز پہلے مسافر باہَر سے آتا، اُسے بادشاہ بناتے تھے۔ قَضارا، وہاں کا بادشاہ قَضا کر گیا تھا، لوگ تخت لیے مُنتَظِر تھے، یہ داخل ہوا۔ سب نے تخت پر بِٹھا نَذریں دیں۔ نَوبت و نشان، جُلوس کا سب سامان موجود تھا، دھوم دَھڑَکّے سے دیوانِ خاص میں داخل کیا۔ مُنادی ہوئی، بہ قَولِ مشہور: اِن کی رائی دُہائی نزدیک و دور ہو گئی۔ اِس کو سُرورِ سلطنت اور اَحکامِ مملکت کے باعِث اُس دن بھائی کا خیال نہ آیا۔ دوسرے روز جب تخت پر رونق اَفروز ہوا اور سامنے لعل آیا، تب بھائی کا خیال آیا۔ فوراً جاسوس، ہَرکارے درخت کا پتا بتا روانہ کیے، کہا: اِس صورت کا جوان اور دو گھوڑے وہاں ہیں، جلد حُضور میں حاضر کرو۔
وہ سب دوپَہَر تک تمام جنگل کی خاک چھان، حیران و پریشاں پھر آئے، عرض کی: تمام دَشت میں پِھر کر پاؤں تُوڑے، نہ آدمی ملا نہ گھوڑے۔ وہ کچھ رنجیدہ ہو سلطنت کے شُغل میں مَشغول ہوا، بھائی بے چارے کو بھولے سے بھی کبھی یاد نہ کیا؛ مگر وہ لعل جسے بیچنے کو لایا تھا، جس کے بَیعانے میں تخت و تاج مُیسَّر آیا تھا؛ فالِ مُبارک اور بے نشان بھائی کی نشانی سمجھ، ہر روز سرِ دربار لاتا، ملازِموں کو دِکھاتا۔ وہ سب بہ خاطرِ شاہ واہ واہ کہتے، یہ سن کر خوش رہتے۔