بنارس کی سرزمین جہاں صنعت و حرفت اور سیاحت کے سبب عالم گیر شہرت کی حامل ہے، وہاں اس کی ثقافتی، تہذیبی نیز ادبی سرگرمیوں کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر بین الاقوامی اہمیت کی حامل شخصیات نے جنم لیا اور اپنے اپنے کمالات و جوہر کا لوہا بھی منوایا۔ موسیقی اور رقص جیسے فنون لطیفہ کے ضمن میں بسم اللہ خاں، گرجا دیوی، پنڈت کشن مہاراج، ستارہ دیوی اور ایم راجن کا تعلق بھی اسی شہر سے رہا ہے۔ ہندو مذہب کے علم برداروں نے ویدانت، فلسفہ اور بھکتی کا گیان بھی یہیں پر حاصل کیا۔ کبیر داس، پریم چند، غالب، فراق اور قرۃ العین حیدر نے بھی اس سرزمین سے کسی نہ کسی صورت سے تعلق رکھا۔ نامور ڈرامہ نگار آغا حشر بھی بنارس میں آ کر بس گئے تھے۔ عہد حاضر میں یہاں کے بہت سے مخلص خدام شعر و ادب سرگرم عمل ہیں اور اعلیٰ تخلیق ادب میں مصروف ہیں۔
دبستان بنارس کے بالغ اور بیدار مغز شاعر فریاد آزر دہلی میں مقیم ہیں تازہ فکر اور تازہ کار غزل گو ہیں۔ ان کی شاعری کئی دہائیوں پر محیط ہے اور ان کا ادبی سفر نہایت خلوص و لگن کے ساتھ جاری ہے۔ وہ اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے شاعر ہیں۔ انہوں نے عہد حاضر میں اقدار کی شکست و ریخت، تہذیب و اخلاق کے عروج و زوال، زندگی کی افرا تفری، نے ہمواریوں اور نامسائد حالات کو دیکھا ہے اس لیے ان کی شاعری میں معاشرتی، تہذیبی و تمدنی موضوعات کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ شعری بصیرت کے ساتھ سماجی و سیاسی مسائل و نکات کا بھی بھرپور شعور رکھتے ہیں جس کا اظہار ان کی شعری کائنات میں بکثرت مل جاتا ہے۔
فریاد آزر کی شاعری میں جدت، ندرت، اختراع اور اچھوتا پن نمایاں ہے غزل اس تہذیب کا نام ہے جس کی دلکشی اس کی رمزیت و اشاریت میں مضمر ہے۔ یہ عناصر تاریخی تلمیحات کے ساتھ ان کی شاعری کے سرور و تلذذ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے اس نوع کے اشعار ملاحظہ ہوں ؎
پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر
وہ لمحہ سرور عالم کو جب ملی معراج
اسی کے صدقۂ جاں سے سنبھل گئیں صدیاں
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب ہاتھ میں تیر و کمان لیتا ہوں
عہد حاضر مادیت کا دور ہے۔ ہر شخص معاشی نقطہ، نگاہ سے سوچتا ہے۔ بے اطمینانی ہر شخص کا مقدر ہے۔ غیر محفوظیت، قنوطیت اور مایوسی کے ماحول میں انسان اپنی زندگی قسطوں میں بسر کرنے پر مجبور ہ۔ ان موضوعات کا اظہار آزر کے اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے:
کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی
اے مری جانکاہ قسطوں میں گزرتی زندگی
ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں
پہلے تو سر سے سایہ اٹھا آسمان کا
پھر پاؤں کے نیچے سے زمیں بھی کھسک گئی
ضد کرتا نہیں سستے کھلونوں کے لیے بھی
یہ بچہ مرا مجھ سے بھی بوڑھا نظر آیا
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لذتیں
نہ جانے کیوں وہی عذاب مانگتی ہے زندگی
شکست و ریخت کے نوحوں کے علاوہ ان کی شاعری میں زندگی درد مندی کا احساس بھی ہے۔ فریاد آزر جس زمانی اور مکانی حدود میں رہتے ہیں ان میں در پیش مسائل کو اپنی شاعری میں بڑی مہارت اور سلیقہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کے شاعری اپنے قاری کو انوکھے کیف و سرور سے سرشار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ کسی ایک نہج پر گفتگو نہیں کرتے بلکہ اپنے شعری اظہار سے وہ انسانی زندگی سے وابستہ مختلف موضوعات پر بات کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع ان کے نظام فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے جذباتی و ذہنی تجربات کی نقش گری میں مکمل حسیت کے ساتھ صنف غزل کے فنی التزام اور ڈسپلن کو بھی ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا، تاہم وہ محنتی شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور صلاحیت کی بنیاد پر کئی غر مانوس اور اجنبی قوافی کا بھی استعمال تجربے کے نام پر کیا ہے میری رائے میں اسے شعری
وسعت میں نیک شگون اس لیے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ غزل کے مطلع کے ساتھ ہم صوت قوافی والے اشعار درج ذیل ہیں ؎
آزما کر عالم ابلیس کے حربے جدید
ہو گئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید
کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید
محل نظر ہے کہ لمحے جدید، حرب جدید کے ساتھ حرف اضافت کے ساتھ دور جدید کو محض صوتی ہم آہنگی کے باعث ہم قافیہ بنایا گیا جو قابل قبول نہیں۔ قوافی کے صوتی نظام میں اس جارحانہ دخل اور غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کے عمل سے گریز بہتر تھا۔ خوش بیانی، پرکاری اور معنی آفرینی کلام آزر کی قابل ذکر خصوصیات ہیں۔ عملی طور پر انہوں نے روایت سے قطعی انحراف نہیں کیا ماسوائے مذکورہ بالا غیر صحیح اور ناگوار ضابطہ شکنی کے، جو تجربے کے نام پر ان کے کلام میں گاہے بگاہے در آئی ہے۔ بلکہ انہوں نے جدید فکری نظام کی شجر کاری کی ہے۔
فریاد آزر نہایت شریف الطبع انسان ہیں۔ کاہلی اور سست رفتاری ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ در اصل عملی طور پر وہ جس کام کو کرتے ہیں اسے اطمینان اور سکون سے کرتے ہیں۔ ان کے شعری موضوعات کے تنوع کی رنگا رنگی ان کی شعری کائنات۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
تمام عمر ہمیں منزلیں نہیں ملتیں
ہم اہل درد سدا راستے میں رہتے ہیں
اس سادہ دل سے مل کے مجھے بھی یہی لگا
اب تک میں جی رہا تھا دکھاوے کی زندگی
ملی تھی جب اسے جنت تو خوش نہ تھا اتنا
وہ جتنا خوش ہے مجھے دیکھ کر جہنم میں
وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے
کہ اس کے پاؤں جنت میں، سر جہنم میں
تجھ سے بچھڑے تو آغوش مادر میں، پھر پاؤں پر، پھر سفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھا جس کا رکھ رکھاؤ
زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا
اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہیں
سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری
ہیں پستیاں ہی مقدر، بلند ہوتے ہوئے
میں خواب دیکھوں حقیقت پسند ہوتے ہوئے
یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے
رہائی مل تو جاتی ہے، سزا پوری نہیں ہوتی
حصہ درد وراثت سے زیادہ ہی ملا
مجھ کو شاید مری قسمت سے زیادہ ہی ملا
لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ، نہ آنگن، نہ دریچہ کوئی
غموں کی قید بھی کتنی عجیب ہے، جس سے
فرار ہوتے ہیں قیدی، بری نہیں ہوتے
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزر
سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
اہل صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
کسی بھی قصہ کا کردار وہ نہیں تھا مگر
بغیر اس کے ہر اک داستاں ادھوری تھی
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
ضمیر کہتا ہے ایمان ہے تو سب کچھ ہے
زمانہ کہتا ہے پیسہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
جی زرق برق کپڑوں سے اس کا اچٹ گیا
آنکھوں میں بس گئی تھی کفن کی جمالیات
راکشس کی جان طوطے میں تھی اور ہم جیسے لوگ
دم بدم اگ آنے والا سر قلم کرتے رہے
مجموعی طور پر یہ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ فریاد آزر کی شاعری روشن امکانات کی حامل ہے۔ وہ زرخیز تخلیقی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے تخلیقی عمل میں ہم عصر زمانہ کی نمائندگی اور ترجمانی ہے۔ وہ عصری مسائل کا عرفان رکھتے ہیں اور انسانی نفسیات و احساسات پر گہری نظر، جو ان کی شاعری کو مقصدیت عطا کرتی ہے۔ فریاد آزر نہایت لگن، توجہ اور دل جمعی کے ساتھ شعری ریاضت میں مصروف ہیں۔
٭٭٭