تخلیق کیVirgin Territory کی سیاحت، عصر حاضر کے بہت ہی کم فنکاروں کا مقدر بنی ہے، غیر ممسوس منطقے کی سیر کے لئے جس آشفتگی، دیوانگی، جرأت، بے خطری اور عصری آگہی کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے بہت سے تخلیق کار محروم ہیں۔ فریاد آزر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظر عطا کرنے کی جد و جہد میں اس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میں کامیاب ہوئے ہیں جو بہت حد تک کنوارا اور قدرے غیرمستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میں وہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصر حا ضر کی بیشتر تخلیق سے غائب ہو گیا ہے۔
آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میں تازگی، تحیر اور تابندگی آتی ہے۔ انہوں نے ’تخلیقی اجتہاد‘ سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچا لیا ہے جس میں اکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میں مدتوں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ’تا قیامت کھلا ہے باب سخن‘۔۔ فریاد آزر کی شاعری میں باب سخن کے نئے نئے در کھلتے جا تے ہیں اور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی و مشینی عہد میں آزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریں ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں۔ فریاد آزر کی شاعری میں جو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں ’گذشتہ‘ مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیں مگر مستنیر ضرور ہے۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approach ہے۔ آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے۔ ان کے یہاں اس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ’گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکا ہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔ بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی داخلی، خارجی صورتحال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوں کے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورتحال میں ان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی، اقتصادی، سماجی، تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔
جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات، تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہے۔ فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیں انہوں نے احساس و اظہار کے جو صنم کدے تعمیر کئے ہیں، اس میں ان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میں گم نہیں ہیں بلکہ گرد و پیش پہ ان کی گہری نظر ہے:
اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں یا کہ جنت میں ہیں
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
جو ہم یہاں نہیں آتے تو آج بھی شاید
تمام شہر گپھاؤں میں رہ رہا ہوتا
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطح ’اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے
اندر کا شیطان مجھے اب بھی اکساتا رہتا ہے
جس نے مجھ کو گالی دی تھی میں بھی اس کو گالی دوں
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑ کیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
غفلت میں گزری تھی عمر
نیند کھلی تو آنکھیں بند!
بدن صبا کا بھی یکسر دھوئیں میں لپٹا ملا
نسیم بھی لئے گرد و غبار گزری ہے
بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزر
سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
جو تھے مخصوص کبھی اور ہی قوموں کے لئے
کچھ عذاب ایسے بھی امّت پہ اتر آئے ہیں
دلِ عزیز پہ دعوا ہے آج بھی اس کا
اسے وہ مسئلہ کشمیر کا بتاتا ہے
خدا کا شکر ہے توفیق اس نے بھولنے کی دی
وگرنہ میں ہی کیا سب لوگ پاگل ہو گئے ہوتے
مسئلوں نے بھی عجب طور سے ہڑدنگ کیا
مینکا بن کے رشی دھیان مرا بھنگ کیا
اسے حالات نے کچھ کہہ دیا کیا؟
وہ آنکھیں کھول کر سونے لگا ہے!
لوگ یوں ہی نہیں بدنام سمجھ بیٹھے ہیں
ہم خرافات کو اسلام سمجھ بیٹھے ہیں
سفید ہونے کا نقصان اس قدر تھا اسے
کہ اپنے بچوں کی شکلیں سیاہ کرنے لگا
وہ جس طرف بھی خصوصی نگاہ کرنے لگا
قبول جرم ہر اک بے گناہ کرنے لگا
یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست، سماج اور دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لئے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جام جہاں نما‘ ہے جس میں پوری انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اکثر شعروں میں حیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں، ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتہ چلتا ہے ان کے یہاں تخلیق کی علمی، عرفانی، وجدانی سطح بہت بلند ہے اور سماجی، سیاسی، سائنسی شعور بالیدہ۔
فکریات کی سطح پر جہاں انہوں نے بہت سے نئے تجربے کئے ہیں یا پرانے تجربوں کی ’تقلیب‘ کی ہے، وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیں ہے۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کر دے خواہ اس کا تعلق کسی زبان، مذہب، ملک سے ہو اس کا استعمال سے حذر نہیں کرتے، یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جمہوری آوازیں ہیں جو جلجامیش، سقراط، سرمد، اور منصور کے ’حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے سیاسی، سماجی، سفاکیت، آمریت، مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ فرقہ واریت، فسطائیت کے خلاف بھی انہوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے:
تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریّت کا
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
دورِ حاضر میں زلیخائے سیاست کے عوض
کون یوسف ہے جو بے وجہ گرفتار نہیں؟
وقت کے چہرے پہ پھر کتنی خراشیں آ گئیں
پھر ضرورت اک صلاح الدین ایوبی کی ہے
حکومت جو ہو اکثریت پرست کی طرف مائل
وہ چنگیزی تو ہو سکتی ہے جمہوری نہیں ہوتی
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیہ
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفرادیت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعور بھی ہے، ژرف نگاہی اور باطنی روشنی (Inner Light) بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انہوں نے اپنی شاعری میں سمو لیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کر دئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیں گے اور انہیں منزل مراد تک پہنچا دیں گے۔
فریاد آزر کا تہذیبی، سماجی، سیاسی، شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط اور منسلک ہیں۔ اسکائی اسکریپر کلچر کے اس عہد میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے:
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلو بل گاؤں سے اکتا گیا ہوں
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر نے انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذمہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انہیں ’احساس زیاں‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی، سماجی، اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے با خبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لئے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچیدگیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں یا فسانۂ شب ہائے دراز پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آج کی سفاک جاں گسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے ’طوافِ کوچۂ جاناں‘ کے بجائے ’غم دوراں‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔
فریاد آزر کی شاعری میں یہی ’’غم دوراں، عذاب جاں، آشوب عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق، معروضیت اور فنی، فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے۔
٭٭٭