انسان کی تخلیقات خواہ عمارت ہو یا فنونِ لطیفہ کے شاہکار یا مختلف اوزار یا مشین، سب مادی کلچر کا جز ہیں۔ کسی قوم یا طبقہ کی بنائی ہوئی چیزوں پر نظر ڈالنے سے ہم اس قوم یا طبقے کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا ایک خاص کام یہ ہے کہ وہ مادی Relics کی دریافتوں کی بنا پر نا پید سماج کے اطوارِ حیات کو از سرِ نو شکل دیں۔ کرداری عمل کچھ ایسے اثرات و نتائج پیدا کر سکتا ہے جو ذہنی رویوں یا عقیدوں کی شکل میں زندہ رہتے ہیں اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ گو اس عمل کے دوران وہ تغیر کی زد سے محفوظ نہیں ہوتے۔ یوں کسی سماج کے مقاصد و اقدار بھی اس کے کلچر کا جزو قرار پاتے ہیں۔ اس میں کھیل کود کا شوق، جانوروں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ، مذہبی عقائد اور ادب کی تخلیق بھی شامل ہے۔
ادب کی تخلیق میں شاعری خصوصاً غزل کا اکتساب عمل میں آتا ہے۔ ہمارے چاروں طرف جو کچھ چیزیں بکھری ہوئی ہیں وہ محض فریبِ نظر ہیں یا یہ زندگی جو ہمارے اندر ہے وہی ان چیزوں میں بھی ہے اور آگہی در اصل مماثلت پہچاننے کا نام ہے۔ جب ہم اپنی ذات سے باہر کی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا ہی ہے جیسے ہم اندر کی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔ فن کار اس چیز کی نقل کرتا ہے جو کسی شے کے اندر ہے اور جو پیکر اور موسم کے ذریعہ فعال ہوتی ہے اور علامتوں، تشبیہوں سے گفتگو کرتی ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس صورت میں فن پارہ تخلیق کرنے کی امید میں ہے جو معروضی طور پر صحیح معنوں میں فطری ہے اور تاثرات کے لحاظ سے انسانی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اظہار کے بغیر اصل کی حقیقت انکشافی نہیں ہوتی اور پر جوش اظہار شاعری سے ہی ممکن ہے۔
فریاد آزر بھی شاعر ہیں اور بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں نفس مضمون کے اعتبار سے اعلا درجہ کی صداقت اور سنجیدگی کی خصوصیات رکھتی ہیں۔ فریاد آزر کا رویہ زندگی پر ان کی تنقید، وسعتِ نظر، آزاد خیالی، فراخ دلی، ہوش مندی اور اعلا سنجیدگی ان کے تصورات حیات میں موجود ہیں:
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں
اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں
ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھا جس کا رکھ رکھاؤ
زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا
بدلے میں اُس کی موت مرا میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
وہ آدمی جوان رہے گا تمام عمر بچپن میں جی چکا ہے جو بوڑھے کی زندگی
فریاد آزر کی غزلوں میں امکانی بیداری اور شعوری جد و جہد سے آگاہی ملتی ہے۔ ان کے تصورات کی وسعت اور احساس کی بے پناہ شدت میں ان کا فن مضمر ہے:
منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا، ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں
یاس، محرومی، محبت، کرب، خوش فہمی، انا
اتنے ساماں تھے، مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
نئی رُتوں نے ہوا کی رَو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ
یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا
آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا
جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس
جسم کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا
پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں
فریاد آزر روشن ذہن اور دردمند دل رکھتے ہیں وہ اپنی غزلوں میں تنگ نظری، تعصب، رجعت پسندی، مصلحت کوشی اور مفاد پرستی سے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ انھوں نے آئینہ خانے سجائے ہیں اور سنگ خاروں کو اچھالا ہے۔ روایتی اصولوں کی زنجیریں انھیں مقید نہیں کرتیں اور خیال کی رو سے وہ ایک نئی دنیا تعمیر کرتے ہیں جس میں لفظیات ان کے اپنے ہیں اور کہنے کا لہجہ ان کا اپنا ہے۔ فکر فن کے ادراک و آگہی کی رچی بسی کیفیت دیکھئے:
سب میں کرایے داروں کے پایے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
زہر کا رنگ اس کے بھی ہو جاتا حیرت سے سفید
گر کبھی نیلا سراپا میرا، شنکر دیکھتا
میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا لیکن
زمانہ خوش ہوا دیوار پر سجا کے مجھے
فریاد آزر کا تجربہ غزل کے سانچے میں ڈھلتا ہے اور احساس کی شدت کا اظہار قدم قدم پر نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی غزلیں داخلی دروں بینی اور خارجی مسائل کی طرف ذہنوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ سحر انگیزی، رعنائی و زیبائی، سوچ کی وسعت اور ذخیرۂ الفاظ کی افضلیت فریاد آزر کو اپنے ہم عصروں میں نمایاں کرتی ہیں۔ متحرک اور فعال پیکر اور واقعے کی آشنائی، معنی خیزی اور شناسائی ان کی غزلوں میں جیتی جاگتی نظر آتی ہیں:
جانے کس سمت سے آئی تھی ہوائے سازش
آگ میں وادیِ کشمیر نظر آنے لگی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود
کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر
میں اپنی لاش اکیلے ہی دفن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ، سبھی لوگ گھر گئے اپنے
اب مناظر جنگلوں کے بھی ڈسیلے ہو گئے
مبتلا جدت پرستی میں قبیلے ہو گئے
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹا رہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں
یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہم ایسے لوگ ہوئے تھے جوان قسطوں میں
آج کے مشینی دور میں طاقت آزمائی اور نئے اقتصادی نظام کی ہلچل نے فرد کی ذات کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور وہ اس شور و شغب سے بھر پور دنیا میں خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔ تنہائی کے کرب نے اسے بے چین اور بے زار کر دیا ہے، اسی لئے درد کی چیخ پرسکون فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی ہے۔ فریاد آزر زندگی کا محور تلاشتے ہیں اور زائیدہ جہت کے معانی کے ابعاد کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان انگنت رنگ کی مصوری اس طرح سامنے آتی ہے:
میں اپنی روح لیے دربدر بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا
جی رہا ہے وعدۂ فردا پہ تیرے اے خدا
ورنہ اس بندے کو تیرا یہ جہاں چھوٹا لگا
نہ جانے کن خواہشوں کی شدت کا شور کمرے میں گونجتا تھا
نہ جانے کیا کہہ گئی ہوا، ہو گیا وہ خالی مکان بھی چپ
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمان سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
کس کی خاطر اوڑھ رکّھی ہے ردائے انتظاراں
اس نئی رُت میں کسی کا منتَظر کوئی نہیں ہے
بہت اکتا کے آیا تھا وہ خالی پن سے اندر کے
جو دیکھا غور سے اس نے تو کچھ باہر نہیں پایا
صنعتی ترقی نے فضا کو ہی دھوئیں سے بھر دیا ہے بلکہ خود انسانی روح بھی اس عفریت سے متاثر ہوئی ہے اور برابر ہو رہی ہے۔ انسانی زندگی اور جذبات سے بھرے پرے دل پر کالے دھوئیں کی موٹی تہیں چڑھی ہوئی ہیں جن کو کھرچنے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ جب تک ایک تہہ کو کھرچیں اس کے اوپر کئی اور پرتیں جم جاتی ہیں۔ فریاد آزراس سچائی سے کماحقہٗ واقف ہیں، اسی لئے واضح اسلوب میں عصری حسیت کو برتتے ہیں اور شاعرانہ حسن کے ساتھ اپنے درد کے مرقعوں میں خونِ جگر سے رنگ بھرتے ہیں اور زندگی کی نیرنگی اور کلفت کا احساس دلاتے ہیں:
بدن صبا کا یکسر دھوئیں سے لپٹا ملا
نسیم بھی لئے گردو غبار گزری ہے
یہ اور بات کہ ہم جنگلوں میں رہتے تھے
مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی
شہر کی سمت بڑھے آتے ہیں صحرا والے
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
وقت سے پہلے نہ آ جائے قیامت آزر ’’گرین ہاؤس‘‘ کو بخارات سے آزادی دے
فریاد آزر نے لفظیات سے معنی کے نئے اسرار کھولے ہیں اور تکمیلِ احساس و جذبات کو نیا روپ دیا ہے۔ وہ اساطیر سے بھی کام لیتے ہیں اور عالمی سطح پر ہونے والی افادیت پرستی زور زبردستی بلکہ دادا گری کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ اکتشافاتِ حاضرہ نے عمل و خیال کی ڈکشنری ہی بدل دی ہے۔ بڑی طاقت یا پاور ہاؤس اور اس کی پشت پر سوار مطلب پرست ممالک کی نگاہ اسلامی ممالک اور وہاں کے تیل پر ہے جس کے حصول کے لئے وقت کے بے حس بنا دیا گیا ہے۔ اس طرح آتش دل اور شرارِ ادراک کو دو آتشہ نہیں بلکہ تہس نہس کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ عالمی دہشت گردی کا چہرہ سفاک ہے جس کے بارے میں جان کر فریاد آزر یہ کہنے پر مجبور ہوئے:
صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
شہر تھا شہروں میں اک، بغداد کہتے تھے جسے
اور دریاؤں میں آزرؔ ایک تھا دریا فرات
ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے میں سر اٹھا ہی نہ پاؤں زمانا چاہتا ہے
اس نے میرا نام شوریدہ سروں میں لکھ دیا
اور خود کو امن کے پیغمبروں میں لکھ دیا
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا!
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
وہ یہاں ندیاں بہا سکتا ہے لیکن خوں کی
اُس کو ہر رنگ میں صحرائے عرب جانتا ہے
دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فساد کا ننگا ناچ ہندستان میں بھی ہوتا رہا ہے۔ بھاگل پور کا جب فساد ہوا تو ایک سو تین گاؤں میں یہ فساد پھیلا۔ نتیجے میں بڑے پیمانہ پر مار کاٹ کا سلسلہ چلا۔ ایک سو نو لاشوں کو کھیتوں میں گاڑ کر گیہوں کی فصل اگا دی گئی تھی۔ لوگائی گاؤں کے اس انسانیت سوز بربریت پر بہت لکھا گیا۔ فریاد آزر کا درج ذیل شعر شاید اسی خونیں واقعہ سے جڑا ہوا ہے۔
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
محبت اور رفاقت کو تہہِ تیغ کر کے سوندھی مٹی کی سرزمین گجرات میں جیسا فرقہ وارانہ فساد ہوا اسے دیکھنے اور بھوگنے والوں کی کیفیت دیکھئے:
فضائے آتشِ گجرات سے جو بچ نکلے
پرندے پھر نہ گئے لوٹ کر جہنم میں
ایسا خون آلود کھیل سیاست داں اپنے فائدے کے لئے کھیلتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں یہ ناچ نچواتی ہیں۔ فریاد آزر بلا جھجھک کہتے ہیں:
سروں کی فسل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
فریاد آزر بیکری میں زندہ جلانے کو بھی یاد کرتے ہیں لیکن خوف اور بے بسی میں جینے والوں کی کیفیت بھی بیان کرتے ہیں:
اچھا ہوا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے
بھن جاتے ورنہ وہ بھی کسی ’بیکری‘ کے ساتھ
لیکن فریاد آزر نا امید نہیں ہیں۔ باطن کے پر اسرار نہاں خانے کی گتھیوں کو تعمیم و تاثیر کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا تخلیقی شعور آگاہی لئے ہوئے ہے جو تطہیر کے مرحلے سے گزر کر شعری پیکر میں ڈھلتا ہے:
ظلم سے یکسر زمیں کو پاک ہونا چاہئے
ظالموں کو اب سپردِ خاک ہونا چاہئے
اس نے بھی نہریں بہائی ہیں ابلتے خون کی
خاتمہ اس کا بھی عبرت ناک ہونا چاہئے
فریاد آزر مسلم قوم کی بے بضاعتی اور بے بسی کو بے حسی مانتے ہیں کہ ذات کے عرفان کے بغیرسماجی حقیقت کے راز وہ نہیں پا سکتے۔ وہ اخلاقی ابتری کے شکار ہیں اور چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خلاقانہ تصرف کے لئے فریاد آزر سیاق و سباق کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
ہیں لوگ اپنے اپنے ہی خیموں کی فکر میں
اور سازشوں میں قوم بٹی جا رہی ہے پھر
جدا جدا رگِ ظالم پہ وار کرتے ہیں
ستم زدہ کبھی وحدت میں کیوں نہیں آتے
آج اپنی حیثیت کا جائزہ لیتے نہیں
عظمتِ رفتہ کا بس ہم کو فسانہ یاد ہے
شاہی محلوں سے مٹا کر مجھ کو بے حس وقت نے
جا بہ جا سہمے، شکستہ مقبروں میں لکھ دیا
آج اکیسویں صدی میں مخصوص ذہنیت پوری دنیا کی نصابی کتابوں میں اور تاریخی کتابوں میں بھی اسلام کے ابو اب حذف کرنے، اس میں تصرف کرنے اور زہر آلود مواد بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔ فرضی کہانیوں یا فرضی واقعے کو تاریخی حقائق کے نام پر پیش کر کے سماج کو ایک مخصوص ڈگر پر ڈالنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ اقلیتوں کے خلاف نفرت و ناراضگی کا بھرم پیدا کر کے معاشرے کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کر رہے ہیں۔ فریاد آزر نے فکری وابستگی کے ساتھ احتجاج کیا ہے:
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
آج مسلمانوں کو ہر طرح بدنام کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے مسلمانوں کو اشتہاری مجرم بنایا جاتا ہے، انھیں جیلوں میں بھر دیا جاتا ہے اور طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں، غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے، اشتعال انگیزی کی جاتی ہے، غیظ و غضب کا اظہار کیا جاتا ہے اور مبالغہ آرائی کو ہوا دے کر زہر اگلنے کا کرتب دکھایا جاتا ہے۔ فریاد آزر آفاقی شعور رکھتے ہیں، ژرف نگاہی سے کام لیتے ہیں، سچائی کی بصیرت سامنے لاتے ہیں، استعماری نظام کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور معاشرہ کی متضاد گمراہی کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسی لئے لگتا ہے کہ ہم تاریخ کش اور ضمیر کش عہد میں جی رہے ہیں:
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
اسے قبول مجھے بار بار کرنا پڑا
بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر
ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہو گیا
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی میری آستین لگے
جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں
کسی بہانے وہ مجھ کو دبانا چاہتا ہے
مرے وجود سے اس درجہ خوف ہے اس کو
کہ میرا نام و نشاں ہی مٹانا چاہتا ہے
فریاد آزر کا وژن کرب و اذیت سے بھرا ہوا ہے۔ معاصر عہد کے انسان کی بے جہتی اور بے راہ روی ساتھ ہی انتشار اور ابتری کا اظہار وہ مخصوص پیرائے میں کرتے ہیں، ان کا لہجہ، ان کا اسلوب بے حد واضح ہے۔ استعاری کی پیچیدگی بالکل نہیں ہے البتہ لسانی جست و کشاد میں اشارے ضرور ہیں۔ انھوں نے لفظیات کو کثیر الجہت بنایا ہے اور برتتے وقت اس کا خیال رکھا ہے کہ تنوع برقرار رہے۔ لطیف جذبات کے اظہار میں وہ منفرد پہچان رکھتے ہیں اور لب و لہجہ کے اچھوتے پن کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں الگ شخصیت کے مالک ہیں۔ زبان پر گہری دسترس کی وجہ سے الفاظ کو نت نئے انداز میں بھی استعمال کرتے ہیں جس سے مفاہیم کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے۔ فریاد آزر نفسیات کے بھی ماہر ہیں۔ وہ شاعرانہ حسن اور صناعانہ کمال کے ساتھ انسانی فطرت کی گہری واقفیت کو تاثیر کا پیکر بناتے ہیں اور سادہ پر سوز آہنگ کے ساتھ ساتھ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں:
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بھول جاتا مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزما کے مجھے
خامشی اس کی جان لیوا تھی
اور باتوں میں تلخیاں تھیں بہت
فریاد آزر نے دنیائے کیف و رنگ کو تخلیقی توانائی عطا کی ہے۔ وہ غزل کے مزاج کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور اس شعور و احساس کو سلیقے سے برتنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی غزلیں تازہ کار، نکتہ آفریں اور عصری حسیت سے بھرپور ہیں۔ وہ زمینی تجربہ کو جذب کر کے جاں گسل بناتے ہیں اور سوز کے ساتھ ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے حرکی پیکر حقیقی احساسات کے آئینہ دار ہیں۔
٭٭٭