دورِ جدید میں چند مختلف اور منفرد شعرا ہیں جو اپنے کلام کے مخصوص انداز کی وجہ سے منفرد کہلاتے ہیں۔ ان ہی منفرد شعرا میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹر فریاد آزرؔ کا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے انھیں پڑھتا آ رہا ہوں۔ وہ واقعی متاثر کرنے والی شاعری کرتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر جو میرے ذہن پر نقش ہو گئے ہیں:
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹا رہے ہیں خود اپنی زبان قسطوں میں
یہ دو شعر میرے ذہن و دل پر چسپاں ہو گئے۔ اس کے بعد فریاد آٓزر کا بغور مطالعہ کرنے لگا۔ ان کے مضمون باندھنے کا انداز عمدہ ہے۔ کس طرح کی باتوں کو کس انداز میں پیش کیا جائے، یہ ان کے تخیل کی پرواز سے اندازہ ہوتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آج کے دور کے شعرا سے بالکل الگ ہٹ کر کہنے کا انداز موصوف کا نرالا ہے۔ ان کی شاعری میں جا بجا اسلامی فکر نظر اتی ہے۔ ادبی محاذ کے مدیر جناب سعید رحمانی فرماتے ہیں:
’اس حقیقت سے انکار نہیں جا سکتا کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ جس میں جدید معاشرہ کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔‘
فریاد آزر منفرد طریقہ سے اپنے جذبات، محسوسات، اور مشاہدات کو شعری پیکر میں عطا کرنا خوب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس آئینے میں آپ بھی زندگی کی تصویر دیکھیں:
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزہ پہ سر رکھ دیا گیا میرا
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے
یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں
اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
بدلے میں اس کی موت مرا میں میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
آج کے عہد میں یہ کھیل چل رہا ہے کہ بچی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے، کیا کہتے ہیں آزر صاحب، دیکھئے:
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
دوسری طرف والدین لڑکیوں کی شادی کے لئے پریشان رہتے ہیں، شاید اسی پریشانی کی وجہ سے اسے رحم میں مار دیتے ہیں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے میں جو پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہے شاید اسی کا اثر ہو کیوں کہ جدید دور میں مانگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ والدین کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ آج ہمارا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ ہم خوب صورت لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ آج نیک سیر تی کی تلاش کسی کو نہیں ہے۔ ایک پیارا سا شعر جویہ سارے منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے:
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
فریاد آزر کا شعور بالغ ہے، ان کے منفرد ہونے پر مشہور و معروف شاعر، و ادیب رفیق شاہین صاحب لکھتے ہیں:
’نئے لب و لہجہ میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں، لیکن فریاد آزر کی بات ہی نرالی ہے، ان کی آواز کے سر میں جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پر تو ہے وہ کسی بھی شاعر میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔‘
رفیق شاہین کی بات میں پختگی لگتی ہے کیوں کہ جس انداز سے فریاد آزر شعر کہتے ہیں وہ دیگر لوگوں سے جدا اور نئے طرز کا ہوتا ہے۔ چند شعر پڑھ کر آپ بھی لطف اندوز ہوں:
خدا کا شکر ہے توفیق اس نے بھولنے کی دی
وگرنہ میں ہی کیا سب لوگ پاگل ہو گئے ہوتے
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں
اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
اسے حالات نے کچھ کہہ دیا کیا؟
وہ آنکھیں کھول کر سونے لگا ہے
فریاد آزر کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر عتیق اللہ فرماتے ہیں:
فریاد آزر کے اس طویل تخلیقی سفر کے تمام سنگِ ہائے میل کا مجھے بخوبی علم ہے۔ اطمینان کی خبر یہ ہے کہ کسی بھی سنگِ میل کو انہوں نے مستقل پڑاؤ نہیں بنایا بلکہ ہر سنگِ میل کے وقفے کو انہوں نے ایک تجربے کے طور پرہی اخذ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فریاد آزر کے کلام میں واضح طور پر ایک ارتقا کی صورت نظر آتی ہے۔ اس قسم کا ارتکاز اور یکسوئی جو شاعر کے اعتماد کی دلیل ہے، کم ہی کا مقدر بنتی ہے، اس کے لئے اپنے آپ سے بڑی جنگ لڑنی پڑتی ہے، اپنے آپ کو بار بار رد کرنا پڑ تا ہے، بار بار اپنی باطن کی چھان پھٹک کرنی پڑ تی ہے، اپنے لمحاتی جذبوں اور ان کے وفور پر قدغن لگانی پڑتی ہے جب کہیں ارتکاز اور یکسوئی کی وہ صورت پیدا ہوتی ہے جو شاعر کے قدم بقدم پیش روی کرتی ہے۔
فریاد آزر نے کس کس نظر سے زندگی کو دیکھا ہے، زندگی کے نشیب و فراز کا Analysis خوب صورت انداز میں کیا ہے، زندگی کو استعارہ بنا کر بات کہنے کا انداز بھی ان کا مختلف ہے۔ پروفیسر ابنِ کنول کہتے ہیں:
’’فریاد آزر اس عہد کے ایسے انوکھے شاعر ہیں جن کا ایک ایک شعر نئے موضوع پر مبنی ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو دہراتے نہیں، لیکن جو موضوع انھیں بہت زیادہ متاثر کرتا ہے ان پر مزید اشعار بے شک کہتے ہیں لیکن الگ انداز میں۔ ان کے دو مجموعے ان کی نوجوانی کے دور میں شائع ہوئے اور حیرت ہوتی ہے کہ جس عمر میں نوجوان عموماً حسن و عشق کی شاعری کی حدود سے باہر نہیں نکلتے، فریاد آزر ملکی اور عالمی پیمانہ پر ہو رہی ظلم و زیادتی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے نظر آتے ہیں، بارود اور ملوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں سے ان کا دم گھٹتا نظر آتا ہے اور وہ اس کے خلاف چیخ بھی بلند کرتے ہیں جو اردو غزل میں ناپید ہے، فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی یہاں تک کہ امکانی خلائی آلودگی کے خلاف بھی وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔‘‘
پروفیسر کوثر مظہری صاحب یوں فرماتے ہیں:
’اس قدر آنکھیں کھلی رکھنے والا انسان ہی صحیح معنوں میں شاعری کا حق ادا کر سکتا ہے ورنہ ذاتی مشغلہ کی بنیاد پر اشعار کہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں موجود رہتی مگر وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔ فریاد آزرؔ ایسے شاعر ہیں جنھیں نہ تو غزل کی تاریخ فراموش کر سکتی نہ ہی وقت کا غبار ان کے افکار کو دھندلا کر سکتا ہے۔ بہر حال غزل گوئی میں فریاد آزرؔ کی ریاضت جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی غزلیہ شاعری کے متون میں ان کی زبر دست حصہ داری رہے گی۔‘
واقعی فریاد آزر کی شاعری عمدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بلند خیال رکھنے والے معیاری شاعر ہیں، فریاد آزر پر اسرار کیفیات کو رمز و کنایہ کے ذریعہ پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ موصوف عام روش سے ہٹ کر بھی معنوی و صوری اعتبار سے منفرد ثابت ہوتے ہیں، موضوعات اور مضامین کے خیال کا خاص آداب رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ فریاد آزر ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔
٭٭٭