تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں، پھر گود میں، پھر سفر در سفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آ گیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمیں سے ہم لخت لخت اگنے لگے
یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود
کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر
مذکورہ بالا اشعار فریاد آزر کے شعری مجموعے ’خزاں میرا موسم‘ اور ’قسطوں میں گزرتی زندگی‘ سے ماخوذ ہیں جو آج دنیا میں ہر سو پھیلی ایک قوم مسلمان کی ازل سے اب تک کی سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی تشخص کی کہانی کہہ رہے ہیں۔ کربلا کی خوں ریزی، شہر کوفہ کی مکاری اور ان پر کڑی نگاہوں کے پہرے انہیں اکثر فرات اور اپنے پیاس کی شدت سے یاد دلاتے رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد کے شعرا اور بالخصوص ۸۰ کے بعد کے اردو شعرا کے یہاں اقلیتی مخاطبے کا وفور اسی پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر جانے سے انکاری مسلمانوں کو یہاں کے ایک طبقہ نے اسی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا، جس نگاہ سے وہ پاکستانی مسلمانوں کو دیکھا کرتا ہے۔ لہٰذا یہاں کے مسلمانوں کو خود کے اقلیت میں ہونے کا احساس شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی نیز اقتصادی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی طبقے میں بھی احساس کمتری پیدا ہو گیا اور اس طبقے کے فکشن اور شاعری حتیٰ کہ غزل میں بھی اقلیت و اکثریت جیسے جوڑے دار ضدین میں تبدیل ہو گئے۔ ادب کی ایک بڑی تحریک ترقی پسندی اور مارکسی آئیڈیولوجی کی ہزار دہائیاں دینے کے بعد بھی ہندوستان میں غیر مذہبی ذات پات سے عاری لبرل معاشرہ قائم نہ ہو سکا اور تیزی سے ہندوستانی سیاست نے علیحدگی پسندی، ذات پات کی سیاست اور مذہبی جنون کو فروغ دیا۔ سیاست کے لیے اس ملک کی بڑی اقلیت مسلمان ووٹ بینک سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہو سکی اور بدلتے وقت کے ساتھ مسلمانوں میں احساس کمتری کے ساتھ احساس محرومی دن دونی رات چوگنی بڑھتی چلی گئی۔ بقول آزر:
کچھ بھی کہہ دیتا ہے وہ گزرے دنوں کے نام پر
آج ماضی کا بھی سینہ چاک ہونا چاہئے
مدتوں سے مرا ہوا ہوں میں
مجھ کو پھر ایک بار زندہ کر
ایسا لگتا ہے کہ فریاد آزر نے اپنی شاعری کو اقلیت کتھا میں تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے شعر میں ’وہ‘ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اکثریتی جبر ہے۔ اقلیت کے اندر پل رہے غم و غصہ اور خوف کی نفسیات اس شعر میں ماضی کا سینہ چاک کرنے جیسے فقرے سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے۔ ماضی اس شعر میں کسی خاص فرقے کے لیے رقیب کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک خاص قوم کے پیچھے مصائب کے بھوت پڑ گئے ہیں۔ اس کی وجہ آزر کے نزدیک یہ ہے کہ:
ہمارا حال ماضی کا پتہ دیتا نہیں یکسر ہماری عظمتِ رفتہ پہ کس کو اعتبار آئے
جدیدیت کے رجحان کے تحت تنہائی اور ذات کے کرب نیز زندگی کی بے معنویت جیسے منفی قدریں شعر و ادب میں 1960 تا 1975 قارئین کو جس حد تک بھی اپنے درد کا درماں معلوم ہوئی اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ وجودیت کے فلسفے پر گہری نگاہ رکھتے تھے (جیسا کہ مغرب کے قارئین نے اسے اپنے مسائل کی رو سے اسے اپنے ذہن کا حصہ بنایا تھا) اس نوع کے ادب سے ان کی تھوڑی سی دلچسپی ہندوستانی سیاست کے زیر اثر (اس طبقے میں جو اردو جانتا تھا) ان میں سیاسی طور پر یتیم قوم ہونے کے شدید احساس نے پیدا کی تھی۔ گویا جدیدیت اقلیتی احساس کمتری جیسے مرض کا علاج نہیں تھی بلکہ یہ فقط ان کے زخموں کو سہلانے کا کام کر رہی تھی۔ بعد کے ادوار میں یعنی۸۰ کے بعد اردو شعر و ادب میں ہندوستانی سیاست کی پیدا کردہ اقلیتی و اکثریتی مخاطبے کے اظہار نے شعر و ادب میں مرکزیت حاصل کر لی۔ ذات پات کی سیاست، علیحدگی پسندی کی تحریکوں کے شور، عام آدمی کی بے روزگاری، اپنے عقیدے اور اپنی ثقافت کے تحفظ کے جذبے کا فروغ اور ان جیسے اور بھی مسائل جیسے ماحولیاتی آلودگی، زبان کی سیاست وغیرہ جیسے مسائل۸۰ کے بعد کے شعر و ادب کی فکر مندی قرار پائے۔ اردو غزل نے بھی اپنی شعریات کی شرطوں پر نئے مضامین اور سابقہ جملہ غزلیہ اسالیب کو اپنائے ہوئے غزل کی زبان کو حتی الامکان اپنے عہد کے روزمرہ کے قریب کیا۔ اس عہد کی غزل کے اختصاص کو متعین کرنے میں کچھ جدیدیت کے شعرا کے ساتھ ساتھ جن شعرا نے اس دور کے بعد مابعد جدید غزل کی منفرد آواز کو وقار بخشا ان میں فرحت احساس، منظور ہاشمی، اسعد بدایونی، عنبر بہرائچی، منور رانا، انیس انصاری، اظہر عنایتی، عبد الاحد ساز، شارق عدیل، مہتاب حیدر نقوی، راشد انور راشد، شین کاف نظام، کرشن کمار طور، سلیم انصاری، شاہد کلیم، پروین کمار اشک، عشرت ظفر، عین تابش، جمال اویسی، خالد محمود، شہپر رسول، عذرا پروین، طارق نعیم، راشد طراز، ملک زادہ جاوید، شہباز ندیم ضیائی، عالم خورشید، خالد عبادی، کوثر مظہری، مشتاق صدف، اقبال اشہر، خورشید اکبر، رئیس الدین رئیس، رسول ساقی، ابراہیم اشک اور بھی کچھ شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں فریاد آزر نے خود کو منفرد رنگ کی شاعری پیش کرنے میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔
فریاد آزر نے ماقبل شاعر اقبال کے مخاطبے کو ہم عصر سیاق اور اپنی طرح کی زبان میں پیش کیا ہے یعنی اپنے مذہب، قوم اور اپنی ثقافت کی زبوں حالی کا ماتم کرنے کے بجائے اس پر غور کرنے کی طرف قاری کی توجہ مبذول کی ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں اقلیتی مخاطبہ نہیں ہے۔ آزر نے اقلیتی مخاطبہ اور مسلمانوں کی پسماندگی اور عالمی سطح پر ان پر اور ان کے خلاف کی جانے والی سیاست پر آنسو بہانے کے بجائے ان میں حوصلہ پیدا کیا ہے اور ان مسائل کا تجزیہ کیا ہے۔ ہاں اقبال وہاں یاد آتے ہیں جہاں جہاں آزر نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی واپسی کی تمنا کی ہے لیکن اس احساس کے ساتھ کہ:
کچھ تو ہو گا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب
یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کوئی نہیں
وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے کہ اس کے پاؤں ہیں جنت میں، سر جہنم میں
یعنی ماضی سے لگاتار رشتہ بنائے رکھنے کا رجحان آزر اور ان کے معاصرین میں اکثر و بیشتر نظر آتا ہے اور یہیں پر اقبال کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ فریاد آزر نے اپنی شاعری میں کوڈ کے طور پر کربلا اور اس کے متعلقات صحرا وغیرہ کا وافر مقدار میں استعمال کیا ہے اور یہ بھی کہ ماضی کی شاندار روایتوں کو یاد کرنے اور یاد دلانے کا ایک فنی حربہ ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ فریاد آزر کی غزلوں میں عشقیہ رموز اور اس کی تخلیقی و تہذیبی رنگ کی پیش کش کا فنی انداز و اسلوب بھی نظر آتا ہے لیکن فریاد آزر کی شاعری کی سب سے بڑی فکر مندی سبز آدمی کی تلاش ہے جو بیک وقت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی حکومت، ان کی زندگی، مذہبی اسلوب، انسانیت پسندی کی معراج اور انسانیت نوازی کے اس سنہرے دور کے آدمی کی واپسی کا ساختیہ معلوم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی سبز آدمی کی اس تلاش کے عقب میں وہ سوچ بھی فنی طریقے سے بلند ہوتی ہے جسے ہم سبز انقلاب (Green Revolution) کہتے ہیں۔ آزر کے غزلیہ متن کا ایک بڑا حصہ ماحولیاتی آلودگی سے دنیا کیونکر بربادی کے دہانے پر ہے، اس نوع کی فکر مندی اور انتباہ پر مبنی ہے۔
آزر کے اب تک پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’خزاں میرا موسم‘ (1996) دوسرا مجموعہ بچوں کا مشاعرہ ( (1998 جسے حکومتِ دہلی نے خود شائع کیا اور اب تک جس کے متعدد ایڈیشن آ چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ ’قسطوں میں گزرتی زندگی‘ (2005) چوتھا مجموعہ ’کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘ (2009) اپنے عنوان سے ہی مقصدی شاعری یا مسائل پر مبنی شاعری کا پتہ دیتا ہے۔ ’خزاں میرا موسم‘ کا میرا فسانہ مسلمان قوم ہے جس پر خزاں یعنی زوال کا عرصہ صدیوں سے طاری ہے۔ مجموعے کا عنوان اسی امر کا کنایہ معلوم ہوتا ہے۔ تیسرا مجموعہ ہندوستان ہی کیا پوری دنیا میں تجارت کے لیے قرض، تعلیم کے لیے قرض، گھر خریدنے اور بنانے کے لیے قرض حتیٰ کہ موٹر خریدنے اور ٹی وی اور فریج کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور آج کا آدمی اور نئے ساہوکاروں کی چکی میں پستا ہوا عام آدمی کے المناک انجام کا کوڈ معلوم ہوتا ہے۔ چوتھا مجموعہ ’کچھ دن گلوبل گاؤں‘ میں جو ان کے دو سابقہ مجموعوں کا انتخاب ہے، شاعر کی اپنی ہی شاعری کی قرات کی ایک صورت معلوم ہوتا ہے۔ یعنی یہ سیدھے گلوبلائزیشن پر طنز ہے مگر اس ایقان کے ساتھ عام آدمی اس سلوگن سے کچھ ہی دنوں کے لیے متاثر ہوا ہے۔
مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلوبل گاؤں سے اکتا گیا ہوں
ہر ایک ملک ہے میرے ہی خون کا پیاسا
تو کیا لہو میں مرے ذائقہ زیادہ ہے
آزر کا پانچواں مجموعہ ’’ایلیئن‘‘ جو ایک طویل وقفہ کے بعد یعنی 2016 میں منظرِ عام پر آیا۔ واضح رہے کہ ایلیئن سے مراد دوسرے سیارے کا آدمی یا غیر ملکی لیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ کنہیں غیر ملکی کہنے لگے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ فرقہ پرستوں نے اپنے علاوہ سبھی کو غیر ملکی مان رکھا ہے حالانکہ تاریخ کی نظر میں وہ بھی غیر ملکی ہیں لیکن وہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک صرف وہ ہی وطن پرست ہیں باقی لوگ وطن پرست ہو ہی نہیں سکتے، کیوں کہ وہ غیر ملکی ہیں۔
ذکر یہ کیا جا رہا تھا کہ ان کی شاعری میں سبز آدمی کی اساطیر کا ایک سیاق بلکہ زیادہ تر سیاق ’مرد مومن‘ یا اسلام کا پسندیدہ رنگ سبز ہے جو شانتی اور امن کی علامت ہے۔ اگر سبز آدمی سے متعلق مباحث کی اساطیر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ منکشف ہوتا ہے کہ وہ آدمی جس کی تصویر پیڑ کے پتوں کی ہیئت میں بنائی گئی ہو۔ اب ذرا اس خیال سے ملتی جلتی ایک صورت آزر کے مندرجہ ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیں:
خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت
کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اگنے لگے
شعری کردار ماحول دوست ہے۔ سوکھے درخت کو بوڑھا شجر کہا ہے۔ یہ بوڑھا شجر اپنی ہی شاخوں پہ کچھ پتے اگتے دیکھ کو خوش ہے لیکن برگ کو نیک بخت قرار دینے سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسی طرح ہمارے معاشرے کے بزرگ جب اپنے نونہالوں میں اچھے گن دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ شعر پڑھتے ہی آدمی کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جس کی تصویر پیڑ کے پتوں کی ہیئت میں بنائی گئی ہو۔ اشارہ اس جانب ہے کہ فطرت اور انسان دو ہے ہی نہیں۔ راشٹریہ سہارا اخبار کے ایک کالم ’’مسلمانوں کا عالمی منظرنامہ‘‘ میں واشنگٹن کے مسلمانوں کے حوالے سے سہارا گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے ایک دلچسپ معلومات فراہم کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’۱۴سو سال پہلے قرآن کریم میں کائنات کے ہر راز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ماحولیات کی تباہی ایک خطرناک عمل ہے ان نظریات کے تناظر میں زمین کے تحفظ اور اسلام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اس طرح واشنگٹن میں اسلام کے سائنسی نظریات اور انسانیت کی خدمات کے تحت اس کا ایک بلاگhttp: /Dc Green Muslims blogspot.comپر دستیاب ہے۔ اسی طرحDc Green Muslims اس بات کو سمجھتا ہے کہ زمین پر آلودگی کے ان اثرات کا معاملہ اسلام کے لیے کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔‘‘ (روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، 30 مئی، 2014، ص: 10 مسلمانوں کا عالمی منظر نامہ، سید فیصل علی)
در اصل اسلام کا علامتی نشان ’سبز‘ ہے جو امن اور شادابی اور تر و تازگی کی طرف اشارے کرتا ہے جس کا ایک سیاق ماحولیات کے تحفظ میں اس سبز رنگ یعنی ہریالی کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ فریاد آزر اور اس عہد کے بیشتر شعرا ماحولیات کے تحفظ کا شعور اور ماحول دوست مزاج کی تشکیل پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ فریاد آزر کے متن میں یہ فکر مندی شدت کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے جس کا ایک اہم سیاق اساطیر یعنی انسان کا آرکی ٹائپی شعور ہے۔
ان کے معاصرین نے اسے اپنے متن کا بنیادی ساختیہ نہیں بنایا ہے جبکہ فریاد آزر نے لفظ سبز کا تواتر کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نیز اس کی اساطیری اور لاشعوری جہتوں کے اظہار کے ذریعے اپنے متن کو معنی آفریں بنایا ہے۔ آئیے پہلے خالص ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں کائنات پر خطرات کے بادل کیونکر منڈلا رہے ہیں اس سے متعلق فریاد آزر کے انتباہ کا فنی اظہار ملاحظہ فرمائیں:
درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن
مرے بدن پہ ابھی میرے سر کا سایہ ہے
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
وقت سے پہلے نہ آ جائے قیامت آزر
’’گرین ہاؤس‘‘ کو بخارات سے آزادی دے
سبز لمحات سے جب ہو گی ملاقات اس کی
خود پہ روئے گا بہت عہد مزائیلوں کا
اے زمیں تری کشش کیوں اس قدر کم ہو گئی ہے
دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں
میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی
مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو
بارِ گناہ سے زمیں جس وقت تھک گئی پھر دیکھنا کہ شمس کی جانب لڑھک گئی
زمین کانپنے لگتی ہے ٹھنڈ سے تو فلک
سنہری دھوپ کی چادر اتار دیتا ہے
اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہ کہیں
سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری
کیسے آلودہ فضاؤں سے بچے بادِ نسیم
کیسے مسموم نہ ہو جائے صبا بے چاری
بدن صبا کا بھی یکسر دھوئیں سے لپٹا ملا
بہار بھی لئے گرد و غبار گزری ہے
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
مذکورہ بالا اشعار کے خط کشیدہ الفاظ و تراکیب پر غور کرنا لازمی ہے۔ سطح اوزون، گرین ہاؤس، زمین، سبز لمحات، زمین کی خوشبو، سنہری دھوپ وغیرہ یہ کسی امر کا استعارہ نہیں، سفاک حقیقتیں ہیں۔ البتہ سبز لمحات، سبز ہاتھ، زمین کی خوشبو وغیرہ کو گہرے ماحولیاتی کوڈ یا نشان ضرور بنایا گیا ہے۔ ان اشعار میں فطرت کا لذت آمیز بیان ہے ہی نہیں جیسے کہ بادل محبوب کی زلفیں ہوں، ندی کی لہریں محبوب کی بلکھاہٹ ہو، یہاں فطرت بجائے خود شاعری کا معروض ہے۔ راوی کا ماحولیات سے عشق اور اس کے تحفظ کی فکر مندی اس پر دھیان دینے اور فطرت میں مضمر تحیر اور زندگی کے سر بستہ رازوں سے آگہی حاصل کرنے کے احساس نے ہی ان اشعار کو خلق کیا ہے۔ یہاں ایک فطرت دوست یا ماحول دوست کردار سامنے آتا ہے۔ شعر نمبر۱، ۲، ۳، ۴، ۵، اور ۸ کو ممکن ہے ادبیت کی تلاش کرنے والے نقاد شعریت سے خارج قرار دیں لیکن اسے پڑھتے وقت جس قسم کا لمحۂ فکریہ ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے وہی اس شعر کو ہمارے ذہن سے چپکا دیتا ہے اور یہی ان اشعار کے ہونے کا جواز ہے۔ یہ اشعار ہمیں ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے سد باب کے لیے چلائی جا رہی تحریکوں سے جوڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ سید فیصل علی کے مضمون اور واشنگٹن کے Green Muslims سے بھی۔ ’سبز لمحات‘ اور ’سبز ہاتھ‘ استعاراتی جہت سے زیادہ اساطیری اور لاشعوری آرکی ٹائپی جہت رکھنے والے مرکبات معلوم ہوتے ہیں۔ سبز پری اور گلفام کی اساطیر اگر ذہن میں ہے تو آپ بڑی آسانی سے فن کار آزر کے شعر میں زمانے کے بدلنے کے احساس کے ساتھ اساطیر کیونکر معاصر ذہن سے جھانکتی ہے، اس وقت جب ہمعصر صورتحال کی سنگینی اور پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ایسی گھڑی میں اساطیر ہمارے مسائل کے حل کی طرف ہمارے ذہن کو لے جاتی ہے۔ آج ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ زمین رہے گی یا نہیں، اس کی کوئی گارنٹی اب نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول دوستی کی تشکیل پر شعر و ادب میں آج توجہ زیادہ دی جا رہی ہے۔ پہلے شعر میں اساطیر کی دیوی جن سے گلفام عموماً سیاست نہیں آنے کی وجہ سے ہار جاتے تھے، کی یاد دلاتے ہوئے آج کے دیوؤں کی طرف توجہ مبذول کی گئی ہے۔ آج کے دیو آلودگی، نیوکلیر بم، کل کارخانے اور خلا میں ہونے والے ریسرچ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ گلفام کو یا سبز پری کو پریشان کرنے والے دیو آج کے ان دیوؤں کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔
دوسرے شعر میں گلفام اور سبز پری دونوں اساطیری کردار استعمال کیے گئے ہیں۔ اس شعر کا متکلم ماحول دوستی ہے جس نے گلفام کی قسمت چرا لی ہے۔ یہ در اصل صحت اور خوشحالی کا کنایہ ہے۔ سبز پری اسے ہی مل سکتی ہے جو گلفام یعنی ماحول دوست ہو۔ سبز پری در اصل متکلم کو ’بن‘ میں ملے گی۔ کیا خوب رعایت ہے۔ بن بھی سبز ہی ہوتا ہے گویا سارا بن سبز پری ہے۔ یعنی سبز پری اور بن در اصل سبز انقلاب کا منبع ہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ اگر سبز پری یعنی ایک خوشحال انسانی زندگی مطلوب ہے تو اس کے لیے سبز انقلاب یعنی بن کے وجود اور اس کے تحفظ پر ہمیں زور دینا ہو گا۔ یہ شعر مقصدی شاعری کا کامیاب نمونہ ہے جس میں تخلیقی نشان پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کا انتہائی اکہرا اظہار بھی آزر نے کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے
مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی
کوئی قاری یہ سوال کر سکتا ہے کہ سبز پری یا لفظ سبز کا ماحولیات سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ اس رنگ کا Ripening life پختہ زندگی اور زرخیزی سے تعلق ہے۔ اس رنگ کو ارتقا کے نئے اسلوب اور فوقی فطری یعنی دوسری دنیا کا کوڈ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مزید برآں اسے حقیقی دنیا کی توسیع کی علامت بھی قرار دیا گیا ہے۔ آئیے اب آزر کے یہاں اس نوع کے چند اشعار پر ایک بار پھر نگاہ ڈالیں:
نئی رتوں نے ہوا کی رو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ
سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے
سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا
جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس
روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا
ہوائے شفقت چھری بھی والد سے چھین لیتی
پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی
’سبز لمحات‘ سے مراد اسلام کی وہ امن پسند صدیاں ہو سکتی ہیں جس نے عورت، پیڑ، بوڑھا اور بچوں کے لیے انوکھی انسانیت پسند آئیڈیولوجی کو جنم دیا تھا۔ ’سبز ہاتھ‘ انہیں کرداروں کا کوڈ معلوم ہوتا ہے جنہوں نے اس آئیڈیولوجی کے نفاذ میں حصہ لیا حتیٰ کہ اپنے ملک او حکومت کے جھنڈے پر سبز رنگ کو ہی جگہ دی اور ایسی صحرائی ثقافت کی تشکیل ہوئی جہاں فطرت دوستی کو مرکز میں رکھا گیا تھا۔ آزر کے یہاں زمین یعنی دھرتی 'GIA'‘‘ سے متعلق اشعار میں بھی یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس زمین پر پھر اسی طرح ہریالی چھائے گی جس طرح کہ جنگلوں میں ہوتا ہے۔ زمین کی کشش کے ختم ہونے کے ملال کے ساتھ زمین کی خوشبو یعنی اس سے انسان کے لاشعوری رشتے کی طرف توجہ منعطف کر کے زمین کے تحفظ کے جذبے کو ابھارا گیا ہے۔ فریاد آزر کے یہاں ماحول دوستی اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے اور بھی اہم اور قابل غور اشعار ان کے شعری مجموعوں میں آپ کو ملیں گے طوالت کے خوف سے کچھ ہی اشعار پر یہاں گفتگو کی گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان کے یہاں وافر مقدار میں سبز لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مغرب میں Lady Raglan نے سبز آدمی کی اصطلاح 1939 میں استعمال کی تھی۔ سبز آدمی کے بال اور داڑھی پتے نما ہوتی ہے۔ کبھی سر پوری طرح پتوں سے ڈھکا ہوتا ہے اسی طرح فنطاسیوں میں سبز آدمی کچھ اسی طرح کے حلیے میں نظر آتے ہیں۔ ہندوستان کے جین مندروں میں اس نوع کی تصویریں کھدائی کے بعد ملی ہیں حتیٰ کہ عراق میں بھی جن کے لباس اور گہنے حتیٰ کہ سر پر نباتات ہی نباتات دیکھے جا سکتے ہیں۔
Tom Cheethan (جو اسلامی تصوف کا بڑا اسکالر تسلیم کیا جاتا ہے) نے ’خضر کو‘ سبز آدمی قرار دیا ہے۔ کچھ لوگ ابن عربی کو سبزآدمی کا تصور دینے والا پہلا اسکالر مانتے ہیں۔ ہندوستانی اساطیر میں سبز آدمی کو شیو کی لیلا قرار دیا گیا ہے۔ فریاد آزر نے بھی لاشعوری طور پر شیو کے نیلے کنٹھ کا بار بار ذکر کیا ہے:
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
زہر کا رنگ اس کے بھی ہو جاتا حیرت سے سفید
گر کبھی نیلا سراپا میرا شنکر دیکھتا
سبز آدمی جسے شیو کی لیلا بھی قرار دیا گیا ہے آزر نے شیو اور اس کے زہر کے حوالے سے کئی اشعار کہے ہیں جس کا سیاق آج کی مسموم فضا ہے جس میں ہر نوع کا زہر گھل چکا ہے اور اس آلودگی کو ہر دور میں شیو ہی ختم کر سکتا ہے یعنی سبز کو برقرار رکھنے کے لیے شیو کو زہر پی کر نیلا ہونا پڑتا ہے:
ہزاروں ابرہا لشکر سجا رہے ہیں تو کیا
ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے
یہ قیامت کی علامت ہے یا کوئی انقلاب
سبز پیڑوں کے ہرے پتے بھی نیلے ہو گئے
گذشتہ دور کی بو باس لے کے آئی تھی
میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا
تمام سبز بدن پیڑ بھاگ جائیں گے
یہاں جو شہر کے لوگوں کو میں بلا لوں گا
وہ سبز ہاتھوں میں لے کر کتاب اترے گا
اب اس زمیں پہ حسیں انقلاب اترے گا
سر سبز موسموں میں ہی مانند برگ خشک
اندھی ہوا کی شہہ پہ بکھرنا پڑا مجھے
دی گئی لا منظری کی سبز آنکھوں کو سزا
ان پہ موتی رولنے کا جرم عائد ہو گیا
فریاد آزر نے جنگل کے امیج کو بار بار قاری کے ذہن میں لانے کی کوشش کی ہے اور استعارے کی شکل میں نہیں خالصتاً ماحولیات کے منبع کے طور پر اسے پیش کیا ہے کیونکہ جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہی در اصل صحیح معنوں میں سبز آدمی (Green Man) تھے اور عورتیں سبز پری یا عورت اس لحاظ سے سبز، خوشی، ارتقا اور شگفتگی و شادابی کا کوڈ رہا ہے:
حسین شہر کا منظر اسے بلاتا رہا
مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا
آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت
بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پودے معصوم
الغرض سبز لفظ کا استعمال جن اشعار میں آزر نے کیا ہے ان میں ایک ایسا راوی یا کردار نظر آتا ہے جس کے اپنے کچھ تعصبات ہیں یا تحفظات ہیں۔ یہ اقلیتی طبقے کا ایک انقلابی ذہن یا احتجاج پر آمادہ ذہن ہے جس نے سبز لفظ کو عموماً اسلامی روایات یا اسلام کے اصولوں کا کوڈ بنایا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا اشعار میں سبز صدیاں، سبز موسم، ہوائے سبز، سبز ہوا، یہ ساری اردو تراکیب اسلام کے شاندار ماحول دوست انسانیت پسند اصولوں یا آئیڈیولوجی کا کوڈ بن جاتے ہیں۔ انہیں اپنی شاعری میں بروئے کار لانے کی ایک وجہ آزر کے نزدیک یہ ہو سکتی ہے کہ شعری کردار سبز پسند یعنی انقلاب کا متلاشی ہے اور اسلام کی آئیڈیولوجی اسے سبز انقلاب کے اہم حوالے کے روپ میں نظر آتی ہے۔ اس بہانے ان کی غزلیہ شاعری میں اسلام کی عصری معنویت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً خزاں میرا موسم جو ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے کے مذکورہ بالا اشعار میں ابرہہ کے لشکر کا ذکر، ’ہوائے سبز‘ جو ابابیل ہونے والی ہے کا مژدہ سنانا در اصل ماضی کی اسی شاندار روایت کی واپسی کا سیاق سامنے لاتا ہے۔
آزر کے نزدیک سبز پیڑوں کے پتوں کے نیلے ہونے کا مطلب ہے قیامت کے آنے کا اشارہ۔ یعنی قیامت نام ہے ماحولیات کی آلودگی کا۔ ’خزاں میرا موسم‘ کے تیسرے شعر میں سبز ہوا سے لپٹ کے رونے کا ذکر اور آخری شعر میں شہروں کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ قرار دینا یعنی شہر کے لوگ جیسے ہی کہیں کسی گاؤں میں پہنچتے ہیں سبز بدن پیڑ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہنے کی یہ سعی کی گئی ہے کہ شہروں کی تشکیل ہی نے ماحولیاتی آلودگی کو جنم دیا ہے کیونکہ ترقی کے نام پر ہم جنگلوں کو کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح ’قسطوں میں گزرتی زندگی‘ سے ماخوذ اشعار کے پہلے شعر میں کس نوع کے انقلاب کے آنے کا مژدہ سنایا گیا ہے؟ ترقی پسند لوگ لال انقلاب کی دہائی دیتے تھے آج کے شاعر کے نزدیک اس سے زیادہ ضروری سبز انقلاب قرار پایا ہے۔ دوسرے شعر میں ماحولیاتی پیکروں کو انسان کی اپنی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ آخری شعر میں آج کے انسانوں کی محرومی کی وجہ بنجر پن ہے جن کی آنکھیں حسین منظروں کے لیے ترس رہی ہیں۔
سبز لفظ پری سے وابستہ رہا ہے۔ سبز پری کا عالمی ادب میں بالخصوص اسکاٹ لینڈ کے ادب میں پری کو کنائے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان رہا ہے۔ ہمارے یہاں اندر سبھا میں سبز پری (نسوانی کردار) اور گلفام کا کردار ملتا ہے۔ فریاد آزر نے بھی سبز پری کو کنائے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ فریاد آزر نے اسلام کی ایک ایسی خوبی کو اپنے شعری جہان کے ذریعے ہمارے ذہن کا حصہ بنایا ہے جو فی زمانہ دنیا کے ہر ملک اور ہر انسان کی فکر مندی بن گئی ہے یعنی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے لیے سبز انقلاب لانے کا جتن کرنا آج کے ہر بیدار مغز انسان کے لیے عبادت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ اسلام کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر فریاد آزر نے اپنی شاعری میں اسلام کی اس انوکھی خوبی کو سامنے لا کر اسے غزل کی شاعری میں جس خوبی سے شعری صداقت کا حصہ بنایا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اسلام سبز رنگ کو یونہی پسند نہیں کرتا اس کے عقب میں ماحولیات کے تحفظ کا ایجنڈا کار فرما ہے۔ فریاد آزر کی شاعری کا یہ لفظ جو اساطیری استعاریت کی صورت میں ایک اہم ساختیہ بن گیا ہے، ہماری شعری روایت کا حصہ رہا ہے اور اس شعری روایت کا حصہ ہے جس کا راست تعلق اردو سے ہے۔ میرا اشارہ فارسی شاعری کی جانب ہے۔ خسرو کی غزل سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ازیں ہر دو نکو تر رنگ سبز است
کہ زیب اختر از اورنگ سبز است
(ان دونوں سے بہتر سبز رنگ ہے۔ آگے گندمی سیاہ رنگ کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جس سے تاروں کی زینت ہے وہ آسمان بھی سبز ہوتا ہے)
برنگ سبز رحمت، ہا سرشت است
کہ رنگ سبز پوشان بہشت است
(سبز رنگ میں رحمتیں گوندھ دی گئی ہیں دیکھ لو کہ جنتی لوگوں کا لباس سبز ہوتا ہے)
(ظ انصاری، خسرو کا ذہنی سفر، انجمن ترقی اردو ہند، پہلا ایڈیشن (1977) انتخاب کلام مع ترجمہ: مولانا حسن عباس فطرت شاعر پونہ)، ص: 17)
فریاد آزر نے اپنی شاعری میں سبز رنگ کی معنویت کو مزید آشکار کرنے کے لیے زندگی کے دوسرے رنگوں کو بھی پیش کیا ہے۔ نیلا رنگ جو زہر نگل جانے کے بعد نمودار ہوتا ہے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سنہرے رنگ کا ذکر اپنے شعروں میں اس کے اپنے اساطیری سیاق میں کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
سنہرے شہر کی تعلیم تھی بہت دلچسپ
کہ بے حسی بھی وہاں شامل نصاب رہی
سنہرے نازوں میں پل رہی ہیں بہک نہ جائیں
ذرا حنا خواہشوں کی بھی دیکھ بھال رکھنا
جب ملا تبدیلیِ تاریخ کا موقع اسے
نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا
جب چاند تارے جگنو سبھی نور کھو چکے
مانند آفتاب ابھرنا پڑا مجھے
رفاقتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا
میں زندگی کا سنہرا نصاب لاؤں گا
تمہارے چہرے سے اچھی کتاب لاؤں گا
لفظ ’سنہرا‘ کا استعمال سبز ہی کی طرح تواتر کے ساتھ فریاد آزر نے اپنی غزلوں میں مختلف سیاق و سباق میں کیا ہے۔ سورج کی اساطیر اور آریائی تصور کے مطابق سورج کے بال سنہرے ہوتے ہیں۔ سنہرا لفظ کا تعلق سونا سے بھی ہے۔ صبح کی سنہری کرنیں رات کی قربانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ رات صبح کی بہن ہے جسے سنہرے زیور پہننے کا شوق ہے۔ در اصل سوریہ رات یعنی اپنی ماں کا سینہ چاک کر کے یعنی اندھیرے کو کاٹ کر دنیا کو روشن کرتا ہے۔ ان سنہری کرنوں کے ساتھ سورج در اصل سحر کی تلاش میں صدیوں سے بھٹک رہا ہے اور اس طرح دنیا کو خوشحالی اور سنہری صبحیں عطا کرتا چلا جا رہا ہے۔ در اصل سنہرے رنگ میں پیلے کا ہونا زندگی کی علامت ہے۔ اگر اس موقع پر رابرٹ فراسٹ کی مندرجہ ذیل لائنیں بھی ذہن میں رہیں تو آزر کے یہاں مستعمل لفظ ’سنہرے‘ اور ’سبز‘ کے فنی معنیاتی تعلق تک رسائی حاصل کرنے میں اور آسانی ہو جائے گی۔ رابرٹ فراسٹ کو سنیے:
''Nature's first green is gold,
Her hardest hue to hold
Her early leafs a flower;
But only so and hour;
Nothing gold can stay"
(Robert Frost)
فراسٹ نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ سنہرے اور سبز کے وصال کو فطرت کا پہلا سبز قرار دیا ہے۔ اس کی پہلی پتی کو پھول کہا ہے۔ یعنی فطرت کی پہلی سنہری روشنی کی تمنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے سبز کی زندگی ہے۔ اس تناظر میں یہاں آزر کے کم از کم ایک شعر پر نگاہ ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے:
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں، کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ بالا سنہرے لفظ کی توضیح و تشریح اور سورج کی اساطیر اس شعر کا آرکی ٹائپی نقش ہے جس کا ذکر ابھی کیا گیا ہے۔ سورج سحر کی تلاش میں نا معلوم زمانوں سے سفر میں ہے۔ رات نا معلوم زمانوں سے سورج کو اپنے گربھ میں رکھتی آئی ہے اور سفر میں ہے۔ ستارے، چاند اور خود سحر بھی۔ کیا خوب مصرعہ ہے، ’سب سفر میں ہیں کسی کا ہم سفر کوئی نہیں ہے‘ ۔ سحر آتی ہے تو رات چلی جاتی ہے، شام آتی ہے تو دن چھپ جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعر میں اس المیہ کو سامنے لا کر شعری کردار نے کیا کہنا چاہا ہے۔ شاید یہ کہ اشارہ ایک ایسی شاندار قوم اور اس کے کارواں کا پوری دنیا میں پھیلنا ہے جس کی پہچان اجتماعیت تھی۔ یعنی آج کے مسلمان جو نماز جمعہ، با جماعت نمازوں، عیدین اور نہ جانے ایسے کتنے ہی موقعوں پر وہ ایک ایسی جماعت کی صورت میں نظر آتے ہیں جن میں احساس اجتماعیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ دم توڑ چکا ہے۔ معنی کا ایک اور قرینہ اس شعر سے سامنے آتا ہے جو عصر حاضر کے انسانوں میں اپنی ذات کے خول میں بند ہو جانے جیسی منفی قدر کی نشان دہی کرتا ہے۔ اجتماعی زندگی کا یعنی مل جل کر رہنے کا صدیوں پرانا انسانی وصف آج کے صارفی سماج میں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کی صورت میں بکھر گیا ہے۔
رنگ سبز اور ماحولیاتی تحفظ آج کی اتنی اہم بحث بن چکی ہے کہ تنقید کا ایک نیا اسکول سبز تنقید (Green Criticism) وجود میں آ گئی ہے۔ اردو میں اس حوالے سے راست طور پر پہلا متن فریاد آزر نے ہی خلق کیا ہے۔ علاوہ ازیں لفظ ’خلا‘ بھی ان کی شاعری میں بار بار استعمال ہوا ہے جس سے نہ کہ ماحولیات بلکہ ہم عصر زندگی کے تضادات، خطرناکیوں کی نشان دہی میں مدد ملی ہے:
(۱) کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی
مگر وہ ملتا ہے مجھ سے خلا کے لہجے میں
(۲) میں تھک چکا ہوں اور آخری صدا میری
انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے
(۳) عجب جستجو ہے خلاؤں میں بھی زندگی ڈھونڈتا پھر رہا ہوں
سمندر کی لہروں پہ میں نقش دریا دلی ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں
(۴) حصار کائنات سے نکل کے ڈھونڈتے تجھے
مگر خلا سے آگے کوئی راستہ نہیں ملا
(۵) ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کر دے گی
خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہوا جھیلوں کا
(خزاں میرا موسم)
(۱) تخیلات میں پھر تاج و تخت اگنے لگے
زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اگنے لگے
(۲) خلاؤں میں کبھی پھرتا ہوں آزر
کبھی میں چاند پر دیکھا گیا ہوں
(۳) خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
(قسطوں میں گزرتی زندگی)
’خلا‘ کا استعمال بطور ماحولیاتی فکر مندی خزاں میرا موسم کے شعر نمبر (۲) (۳) میں ہوا ہے اور یہ تو اب واضح ہو چکا ہے کہ آج کا انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے اور آخری سانسیں گن رہا ہے۔ تباہی کے بعد وہ خلا میں آواز کی صورت محفوظ رہ جائے گا یہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ انسان کی خواہشیں لا مختتم ہیں۔ زمین تا خلا وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ تیسرے شعر میں طنز ہے اور وہ یہ کہ انسان کی یہ کون سی تحقیق ہے کہ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پاتا کہ بعض اشیا کی تحقیق اسے بجائے فائدے کے نقصان پہنچائے گی اس خیال کو شعر کے دوسرے مصرعے میں سمندر کی لہروں پہ نقش دریا دلی ڈھونڈھنے جیسے واقعے سے واضح کیا گیا ہے۔ یہاں دریا دلی اور لہروں میں مناسبت قابل داد ہے۔ قسطوں میں گزرتی زندگی کے شعر (۱) میں انسان کی ہوسناکی اور خواہش بے جا کا مضمون قلم بند ہوا ہے۔ دوسرے شعر میں بھی انسان کی لگاتار کوششوں اور فطرت کو مسخر کرنے کا سیاق ابھارا گیا ہے اور تیسرے شعر میں بھی انسان کی اسی ہوسناکی اور بے جا ترقی اور اس نام پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اب تو خلا کو آلودہ کرنے میں سائنس دانوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ یہاں ٹھہر کر ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ آزر نے فطرت کے ایک وسیع و عریض منظر ’صحرا‘ کو اپنی شاعری کا اہم ساختیہ بنایا ہے۔ صحرا کی خوبی یہ ہے کہ اس پر ثقافت کی کائی بہت جلد نہیں جمتی۔ یہ زمانوں تک رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ماحولیاتی مفکرین اسے خالص فطرت کے ذیل میں رکھتے ہیں لیکن آج یہ بھی گلوبل وارمنگ سے اثر انداز ہو چکا ہے۔ ایسا فکشن کہ جس میں زندگی کے گہرے رازوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہو یا ایسی شاعری جس میں تقدیر کے المیے کو پیش کیا گیا ہو صحرا وہاں اظہار کا ایک گہرا ساختہ بن جاتا ہے۔ دنیا کے نبی، اوتار عبادت کے لیے صحرا میں گئے اور انہیں زندگی کے راز سر بستہ سے آگہی حاصل ہوئی۔ اس امر کا احساس اقبال کو بھی تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی
اقبال کے اس شعر کا مطلب اتنا ہی ہے کہ صحرائی انسان ہی فطرت کے مقاصد کی سمجھ رکھتے ہیں۔ اس لفظ کا ایک سیاق اسلام اور اس کے ذریعے دنیا میں قائم ہونے والی ثقافت سے متعلق تلازمہ بھی ہے:
اب تو وحشت بھی بدلنے لگی منزل اپنی
شہر کی اور بڑھے آتے ہیں صحراؤں کے لوگ
صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یوں ہی آنسو رواں نام ان کو دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات
(قسطوں میں گزرتی زندگی)
پہلے شعر میں وحشت اور صحرا ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ ما بعد جدید غزل میں شہر اور دیہات کا تقابل اظہر من الشمس ہے۔ ما بعد جدید غزل کا راوی شہر سے نفریں اور گاؤں کے ختم ہونے پر حد درجہ فکر مند نظر آتا ہے۔ اس امر کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ کیونکر اب صحرا بھی اپنی فطرت بدلنے لگا ہے۔ اس بات کی طرف فنی طریقے سے فریاد آزر نے بھی اشارہ کیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے شعر میں ماضی کے لوٹ آنے کی طرف صحرا کے حوالے سے ایقان کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہم اگر فریاد آزر کا غزلیہ متن پڑھیں اور اب تک کی گفتگو کو دھیان میں رکھیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فریاد آزر نے ما قبل بیانیہ یعنی اساطیر کی رد تشکیل کا متن بنانے میں اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ دلچسپی لی ہے۔ ان کے زیادہ تر اساطیر اسلامی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اس اساطیر کے ذریعے حال کے تضادات کو پرانے اور نئے کے فرق کو واضح کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نوحؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور
خواہشوں کا ایک بحر بیکراں جلتا ہوا
ذرا سی دیر میں دیوار قہقہہ آزرؔ
فصیل گریہ میں تبدیل ہونے والی ہے
کوئی ہابیل صفت شخص نہ بچنے پائے
یہ ہے اعلان مرے شہر کے قابیلوں کا
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے
ندائے کن میں سنوں ابتدا کے لہجے میں
پرندے لوہے کے اب کنکری گرانے لگے عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہا کے لہجے میں
کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی
آج سیتا کی خاطر جنک بک گیا
کس نے دل میں آگ لگائی
کون آیا لنکا کے اندر
طوفان نوح اور نوح کے ذریعے بنائی گئی کشتی کا قصہ کسے معلوم نہیں۔ حد درجہ گہرا شعر ہے۔ طوفان نوح میں نوح کی کشتی رواں دواں ہے۔ اس میں تب دنیا کے جانداروں کے ہر جوڑے سنبھال کر رکھے گئے تھے۔ آج کی دنیا ہی طوفان نوح بن گئی ہے اور کشتی میں خواہشوں کا طوفان لہریں لے رہا ہے۔ اشارہ انسان کی بے لگام خواہشوں کی طرف کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر دنیا تباہی کے دہانے پر ہے لیکن اس بار نہ نوح کی امت سبک کشتی میں ہے اور نہ امت کی فکر کرنے والے نوح۔ اسی طرح دوسرے شعر میں دیوار قہقہہ کی اساطیر کے سہارے زندگی میں اچانک ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ تیسرے شعر میں ہابیل جسے قابیل نے مار دیا تھا اور جسے دفن کرنے کا طریقہ فطرت (کوا) نے سکھایا تھا در اصل قابیل کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس نے ہابیل کا قتل کیا ہے۔ آج کا قابیل سب کچھ جانتے ہوئے نہ کہ اپنے بھائیوں کو مار رہا ہے بلکہ وہ ہابیل صفت کوئی انسان اس دھرتی پر نہ رہے اس فکر میں بھی مبتلا ہے۔ اسی طرح سے ندائے کن، بدن کے نیزے، لوہے کی کنکری کا گرانا، سویمبر، سیتا، جنک اور آخری شعر جس کا سیاق اردو غزل کا اہم ایجنڈا عشق ہے اس ناقابل بیان اور ناقابل تفہیم جذبے کی تصویر کشی کے لیے جس طرح سے اساطیر کو آرکی ٹائپی پیکر میں بدلا گیا ہے اس کی داد جتنی دی جائے کم ہے۔ اس شعر میں غزل کا روایتی رنگ سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔ تجاہل عارفانہ نے کہ ’کون آیا لنکا کے اندر اور کس نے دل میں آگ لگائی‘ کمال کا شعری اظہار ہے۔ لنکا کو دل کہنا جدت کی عمدہ مثال ہے۔ در اصل دل لنکا ہے نہیں کیونکہ لنکا تو راون کی نگری ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ لنکا کی یاد آ گئی ہے کیونکہ محبوب جیسے ہی دل میں آیا ایسی آگ لگی کہ دنیا ہی بدل گئی۔ ویسی ہی آگ جیسی ہنومان نے لنکا میں سیتا کی خاطر لگائی تھی۔ اس شعر پر جتنی بھی گفتگو کی جائے کم ہے۔
آئیے فریاد آزر کے کچھ ایسے اشعار پر نظر ڈالیں جن کی تعداد قابل ذکر ہے اور جن میں معنی آفرینی اور تہہ داری کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے یا جسے قاری اپنے اپنے طور پر مختلف النوع انداز سے معنی اخذ کرنے میں خود کو لطف محسوس کرتا ہے۔ ایسے اشعار اور ان کے مضامین ہر نوع کے ہیں۔ آئیے کچھ عشق کے تہذیبی و تخلیقی رنگ میں ڈوبے اشعار اور کچھ غم زمانہ کو سمجھنے اور سمجھانے والے گہرے اشعار پر ایک نگاہ ڈالیں:
ہزار چاہا کوئی اور صنف اپناؤں
میں شاعری کو غزل سے جدا نہ کر پایا
اپنے ہی معنی کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے
مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے
مجاز کا سنہرا حسن چھا گیا نگاہ پر
کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہو گیا
یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مسدود
کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر
ہوا وجود مٹا دے گی ایک لمحے میں
یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے
تنفس اک مسلسل خود کشی کا نام ہے شاید
میں جتنا جیتا ہوں اتنی نفی محسوس ہوتی ہے
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یاد آیا نہیں دروازہ کھلا کس سے تھا
کچھ تو پانی کی لکیروں پہ لکھا ہے، کیا ہے؟
زندگی آگ ہے مٹی ہے، ہوا ہے، کیا ہے؟
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پانْو سے آگے نکل گئیں صدیاں
وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے
مجھے اک بار پھر سونا پڑے گا
اسی لئے مری قسمت خفا زیادہ ہے میں کچھ نہیں ہوں سو مجھ میں انا زیادہ ہے
پہلے شعر پر نظریاتی بحث گھنٹوں چھڑ سکتی ہے کہ کیوں ہزار کوششوں کے بعد ایک شاعر یا ایک قاری غزل ہی پسند کرتا ہے۔ دوسرا شعر ساختیاتی اور پس ساختیاتی تناظر میں لفظ و معنی کی تھیوری کی طولانی بحث کا متقاضی ہے۔ شاعر کو علم ہے کہ کسی لفظ کے اس کے اپنے معنی ہوتے ہی نہیں کیونکہ ہر لفظ کے معنی ایک لفظ ہے۔ تیسرا شعر وجود اور شہود کی صدیوں پرانی بحث کو نئے طریقے سے قاری کے ذہن میں لایا گیا ہے۔ وجود اور شہود کا فرق تبھی تک ہے جب تک سالک وجود کی منزلوں میں یعنی مجاز کے سنہرے حسن کے اثر میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی سالک مسلوک سے جا ملتا ہے جلوۂ شہود ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی بندے اور خدا کا فرق اعتباری ہے حقیقی نہیں۔
چوتھا شعر پڑھتے ہی ذوق کی یاد آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ
’اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘
لیکن آزر نے اس شعر میں ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جس کا تجربہ یہ ہے کہ دنیا ایک ایسا قید خانہ ہے جس میں انسان چاہے نہ چاہے رہنا ہی پڑتا ہے۔ کائنات سے بچنے کے لیے کسی پانچویں سمت کی تلاش بے سود ہے۔ کہا یہ ہے کہ دنیا سے نفرت اس سے بھاگنے کی کوشش بے سود ہے۔ ہر حال میں دنیا کرنی پڑتی ہے۔ آٹھویں شعر کو پڑھ کر بیک وقت غالب اور فانی یاد آتے ہیں۔ فانی کے نزدیک زندگی دیوانے کا خواب ہے، آزر کے نزدیک زندگی کے بارے میں اگر کچھ کسی نے بیان دیا ہے یا لکھا ہے کہ زندگی کیا ہے تو افسوس کہ اس نے کاغذ کے بجائے یہ باتیں پانی پر لکھی ہیں۔ غور کیجئے کہ بھلا پانی پر تحریر کی گئی کسی حقیقت کو بھلا کون پڑھ سکتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں سوال کی تکرار زندگی کی بے معنویت کی طرف نہیں ہمیں زندگی کی گہرائیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ چھٹے شعر میں تنفس کو یعنی آتی جاتی سانسوں کو خود کشی کا نام دینا بلیغ استعارہ ہے۔ کیونکہ زندگی کی ہر سانس ہمیں موت کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان ہر لمحہ نفی کے غار میں لڑھکتا ہوا خود کو محسوس کرتا ہے۔ ساتویں شعر کو پڑھ کر علی بابا اور مرجینا کی اساطیری کہانی کی یاد آتی ہے۔ جسے اس شعر میں گوندھ کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب شعر ہے جس کی تعبیر کی کوشش کسی ایک طور پر ممکن نہیں۔ شعر میں لفظ دروازہ آیا ہے۔ کہانی میں یہ خزانے کا دروازہ تھا جسے کھولنے کے لیے ہر شخص کو کھل جا سم سم کہنا پڑتا تھا۔ کہانی کے کردار کو اس لفظ کے بھول جانے کی وجہ سے کیا کیا پریشانیاں ہوئی تھیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس اساطیری کہانی کی رد تشکیل کرتے ہوئے شاید یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم دنیا میں آتے ہیں اور یہاں کے طرح طرح کے عیش و آرام میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم وہ ایک لفظ بھول جاتے ہیں۔ وہ لفظ در اصل دنیا کا بنانے والا ہو سکتا ہے، انسان کا ضمیر ہو سکتا ہے، انسان کی انسانیت ہو سکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کی اور بھی امور اس شعر کے حوالے سے قارئین سامنے لا سکتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے آخری شعر پر اپنی گفتگو ختم کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ جس میں وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے کے ’وہ‘ کو ڈی کوڈ کرنا ضروری ہے اور ’مجھے ایک بار پھر سونا پڑے گا‘ میں فعل ’سونا‘ کو سونا پر غور کرنا از حد ضروری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ غزل کا بنیادی ایجنڈا عشق و محبت اور احترام آدمی اور روحانی ہم رشتگی ہے۔ ’وہ‘ واحد غائب کون ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ محبوب ہے۔ چونکہ ہجر کی راتوں میں محبوب سے ملنے کا وسیلہ خواب ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اس خواب کی وجہ سے انسان جاگ بھی جاتا ہے۔ یعنی ہجر کا مارا عاشق حقیقت کے بجائے خواب میں ہی جینا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ’مجھے ایک بار پھر سونا پڑے گا‘ مصرعے کے ذریعے یہی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غزل کی اشاریت اور رمزیت اور اس میں کچھ کھو جانے اور کچھ پا لینے کا انداز اشعار میں لطیف ایمائیت پیدا کر دیتی ہے۔
شعر میں معنی کے اور بھی قرینے ڈھونڈے جا سکتے ہیں اور یہی زندہ اور تہہ دار اشعار کی پہچان ہوتی ہے۔
اخیر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ فریاد آزر نے اپنی شاعری میں رنگوں کے استعارے کے ذریعے ہم عصر زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا ہے۔ اساطیری استعاریت کے ذریعے ماضی اور حال کی کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی ہے۔ ان کے عشقیہ رنگ کی شاعری میں زمینی اور مقامی رنگ کو نمایاں مقام عطا کیا گیا ہے۔ معاصر ثقافتی صورتحال اور عام آدمی کا شہر میں کیسا برا حال ہو گیا ہے اس دکھ کو زبان دینے کی کوشش کی گئی ہے اور فطری انسان کی معصومیت کی تلاش کے جذبے نے فی زمانہ ماحولیاتی آلودگی کو انہیں ہم عصر زندگی کا سب سے بڑا خطرہ تصور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں بارود کے ڈھیر پر بیٹھی اس دنیا کے تحفظ کے لیے شانتی اور امن کے پجاری یعنی ایک ایسی سبز آدمی کی تلاش پر حد درجہ زور دیا گیا ہے۔ اردو میں مقصدی شاعری کرنے والے شعرا ہمیشہ ناقدین کے نشانے پر رہے ہیں۔ آزر کی شاعری کی ایک اہم موقف اپنے مذہب اور قوم کی زبوں حالی کا تجزیہ ہے۔ اس لحاظ سے آزر کی شاعری بھی مقصدی شاعری کے خانے میں چلی جاتی ہے لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فی زمانہ جس نوع کی شاعری ہو رہی ہے اس میں فریاد آزر ایک اہم غزل گو شاعر کی حیثیت سے ۸۰ کے بعد کی غزلیہ شاعری میں ناقابل فراموش شاعر کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام بن چکے ہیں۔
٭٭٭