دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اس گھر کا فرد تھا کو ئی مہان تو نہ تھا
تھی جن کے دم سے ر ونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں ویران تو نہ تھا
باہوں میں جب لیا اُسے نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا ہم میں نادان تو نہ تھا
رَسمن ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دِل
کُچھ اِس میں اُس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا