دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا اِس گھر کا فرد تھا مہمان تو نہ تھا
چوکھٹ پہ جا کے اس کی جھکاتا میں کس لئے وہ اک امیر شہر تھا بھگوان تو نہ تھا
دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے یارو سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
باہوں میں جب لیا اسے انجان تھا ضرور جب چھوڑ کر گیا مجھے انجان تو نہ تھا
دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
تھی جن کے دم سے رونقیں شہروں میں آ بسے ورنہ ہمارا گاوں یوں ویران تو نہ تھا
دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا