دِل کے معاملات سے اَنجان تو نہ تھا اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دم سے رونقیں شہروں میں جا بسے ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
دِل کے معاملات سے اَنجان تو نہ تھا اِاِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے یارو سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
دِل کے معاملات سے اَنجان تو نہ تھا اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
غم ہائے روزگار کو ڈھالا ہے شعر میں دُنیا کا مجھ پہ قرض تھا اِحسان تو نہ تھا
دِل کے معاملات سے اَنجان تو نہ تھا اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
رَسمن ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دل کچھ اِس میں اُس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا
دِل کے معاملات سے اَنجان تو نہ تھا اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا