روپ والے ہو نام کر جاؤ گے ہم فقیروں کے کام کر جاؤ
کیسے گذرے گی ہجر کی گھڑیاں کُچھ نہ کُچھ اہتمام کر جاؤ
اور ہم فقیروں کے جونپھڑون میں بھی چند لمحے قیام کر جاؤ
طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے
جب بھی ہم کو یاد کرو گے چیخو گے فریاد کروں گے کب رکھے اُمید کرم کی کب کوئی بےدار کرو گے
دل کی بستی بےرونق ہے کب اسکو آباد کرو گے ہم جِس دِن موجود نہ ہوں گے ہم کو اُس دِن یاد کرو گے
بس یہی یادیں بنیں گی رابطوں کا ایک پُل
خواب ہی کچھ تیرے میرے درمیان رہ جائیں گے
دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے
طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے
نہ بدحواس ہو اے شمع اِن کی وحشت سے یہ جلنے والے بہت پارسا بھی ہوتے ہیں
ہماری حُسن پرستی پہ اعتراز نہ کر صنم پرست خدا آشنا بھی ہوتے ہیں
اور عدم میں بھول گیا تھا نگار سے مل کر کہ ملنے والے اصولاً جدا بھی ہوتے ہیں
آپ کے زیر نگین ساری زمین آ جائے گی
میرے حصے میں فقط کُچھ آسماں رہ جائیں گے
دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے
طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے
ہم نے تُم سے پیار کیا ہے اور دیوانہ وار کی ہے کیوں ہم سے ناراض ہو اِتنے کیا ہم نے سرکار لیا ہے
دِل بھی حاضر جان بھی حاضر کب ہم نے اِنکار کیا ہے تُم کو ہی کل دُکھ یہ ہو گا کیوں مجھکو بیمار کیا ہے
تیری پلکوں پر کبھی میں ترتراؤں گا ضرور
تیرے رخساروں پہ سوچوں کے نشان رہ جائیں گے
دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے
طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے
پھیلتے سایوں کی ظُلمت اِس قدر ہو گی مُحیط آدمی اُٹھ جائیں گے کُچھ صاحباں رہ جائیں گے
دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے
یاد کی ہر راہ گذر گُل پوش تو ہو گی مگر چند کانٹے بھی نصیبے دُشمناں رہ جائیں گے
دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے
ہم کُچھ اِس ٹھک سے تیرے گھر کا پتہ دیتے ہیں خِدَر بھی آ جائے تو گمراہ بنا دیتے ہیں
تُوں تو سرمایا ہستی ہے تیرا ذکر ہی کیا ہم تو دُشمن کو بھی اے دوست دعا دیتے ہیں
زِندگی دے جائے گا فاروق اپنے عہد کو
ساحتیں ہوں گی امر لمحے جوان رہ جائیں گے
دوستوں کے پاس کل پتھر کہاں رِہ جائیں گے
طنز کے اِلفاط ہی نوکِ زبان رہ جائیں گے