دونوں ہانپتے کانپتے گھر کے اندر داخل ہوۓ تو پسینے سے شرابور ہو چکے تھے ۔ صمد آغا کے پوچھنے پر رضی نے بتایا کہ وہ چلتے ہوئے ہاؤس کی پچھلی سائیڈ پر نکل گئے تھے ۔ ہم نے دیکھا کہ پچھلی سائیڈ پر دیوار نہیں صرف باڑ لگی ہوئی تھی اور وہاں سے جنگلی جانوروں کے آجانے کا خطرہ ھے ۔ پھر ہماری نظر ایک ایسی جگہ پر پڑی جہاں زمین کو تازہ تازہ کھودا گیا ہو ۔ہم وہاں تک پہنچ گئے اور دیکھا وو چار قبریں کھودی ہوئی تھیں اور ان پر قطبے بھی لگے ہوئے تھے ۔ ان قطبوں پر ہم چاروں کے نام لکھے ہوۓ تھے ۔ رضی بات بتاتے ہوئے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اسکی آنکھوں میں آنسو ا چکے تھے اور اس نے کہا ۔ تایا جی ہمیں یہاں سے جلد نکل جانا چاہئے ۔ پلیز یہاں شادی کا پروگرام ختم کر دیں ۔سرمد آغا نے رضی کی بات مان لی اور واپسی کی تیاری کرنے لگے ۔
انہوں نے اپنا سامان گاڑی میں واپس رکھا اور ملازم کو بلا کر کہا کہ وہ واپس جا رھے ہیں ابھی ۔ تم ہاؤس کا خیال رکھنا ۔
ملازم نے کہا جیسے آپ کی مرضی ویسے شادی کب تک ھے ۔ سب لوگ کب تک پہنچ جائیں گے ۔
صمد آغا نے کہا یہ جگہ کافی دور ھے اور ہم یہاں شادی نہیں کر سکتے ۔ صابر پرسرار ہنسی ہنسا اور کہا ۔ مگر سر یہاں تو تیاریاں مکمل ہیں ۔
کیا مطلب ھے تمہارا تیاری مکمل ھے ۔ رضی نے چڑ کر کہا تو ملازم نے جواب دیا ۔ مہمان تو بس پہنچنے والے ہیں اور آپ واپس جا رھے ہیں ۔
رضی کو غصہ تو بہت آیا پر اسکی بات کو اگنور کر کے سب نے گاڑی میں سامان رکھا اور واپس جانے کیلیے بیٹھ گئے ۔
گاڑی گیٹ سے باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے سے وہی عورت آتی دکھائی دی ۔ اس نے ہاتھ میں دودھ سے بھری ہوئی بالٹی اٹھا رکھی ہوئی تھی ۔ اور وہ گاڑی کے بالکل سامنے آ کھڑی ہوئی اور سبکی انکھوں میں غصے سے دیکھنے لگی ۔ اور کہا ۔ شادی تو یہی ہوگی اور قہقہہ لگاتی ہاؤس کے اندر چلی گئی ۔
سرمد آغا سب سے زیادہ پریشان تھے ۔ یہاں کس طرح پتا چلا کہ ہم شادی کی نیت سے اے تھے۔
اتنا کہنا تھا عورت کا کہ گاڑی رک گئی اور لاکھ چاہنے کے باوجود گاڑی دوبارہ سٹارٹ نا ہو سکی ۔ پیٹرول بھی ختم ہونے کو تھا ۔ صمد آغا نے صابر کو بلایا اور پوچھا یہ عورت کون ھے جو ابھی ابھی اندر گئی ۔
صابر نے لاعلمی سے کہا ۔ صاب یہاں ہم ملازمین کے علاوہ کوئی بھی نہیں اتا ۔ کئی سالوں بعد تو یہاں کی صفائی ہوئی ہے ۔ ہم کبھی کبھی اپنے گھر والوں کو لے اتے ہیں ۔ مگر وہ بھی چند دنوں کیلیے ۔
اچھا یہ بتاؤ ۔پیٹرول کا کیا کیا جاۓ ۔ اور کوئی گاڑی مکینک ھے نظر میں ۔ ۔ صابر نے کہا میں ابھی فون کرکے پیٹرول کا کین منگوا دیتا ہوں ۔
رضی یکدم بولا ۔ کیا تمہارا فون یہاں کام کرتا ھے ۔ ہم سب کے فون کیوں نہیں کام کر رہے ۔
صابر نے اپنا فون نکال کر کہا کہ صاب اس سے کال کر لیں ۔
صمد آغا نے جلدی جلدی گھر کا نمبر ملایا ۔ حنا بیگم نے فون پر سلام کیا ۔ صمد آغا نے کہا کہ ہم واپس آ رھے ہیں آج ہی ۔ مگر حنا بیگم ہیلو ہیلو ہی کرتی رہیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے خبر سنا دی کہ کل صبح سب خواتین اور بچے فارم ہاؤس جانے کیلیے نکل پڑیں گے اور شام تک پہنچ جائیں گے ۔
حنا بیگم کی بات سنکر سرمد آغا نے فون پر بات کرنا چاہی تو حنا بیگم یہی کہتی رہیں آغا جی سرگوشیاں مت کریں اونچا بولیں آواز نہیں آ رھی ۔ بالآخر تنگ آکر سرمد آغا نے فون بند کر دیا ۔ اب تو واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بچے بھی کل پہنچ جائیں گے ۔ سرمد آغا نے انتہائی پریشانی میں کہا ۔ گاڑی کو دھکا لگا کر واپس پورچ میں لگا دیا گیا ۔
مرتا کیا نا کرتا اب چاروں نے گھر کے چپہ چپہ دیکھنے کی ٹھان لی ۔ ہاؤس کے دوسرے ملازمین بھی سامان لیکر واپس ا گئے جس سے سب کو کچھ تسلی ہوئی ۔
ملازمین کے ساتھ تمام کمروں کی لاؤنج واشروم غرض چپہ چپہ دیکھا گیا ۔ جو قبریں رضی اور سعد کو نظر آئیں تھیں وہ بھی غائب ہو گئی تھی ۔ سعد چلتے چلتے ایک کمرے میں گھس گیا ۔ یہاں آ کر اسکا دماغ ماؤف ہو گیا ۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی ۔ وہ پاگلوں کی طرح دیواروں کو گھورتا رہا ۔ رضی بھی اسے دھونٹتے ہوئی ادھر آ نکلا ۔ کمرے میں گھستے ہی رضی کا بھی یہی حال ہو رہا تھا ۔ رضی چاروں طرف گھوم گھوم کر دیواروں پر گھورتا رہا ۔ دونوں ایک دوسرے سے کچھ کہہ نہیں پا رھے تھے کہ ایسے کیسے ہو سکتا ھے ۔
کافی دیر بعد صمد اور سرمد آغا بھی ادھر آ نکلے ۔
ان دونوں کا حال بھی رضی اور سعد سے مختلف نہیں تھا ۔ سرمد آغا نے سر پکڑ لیا اور پاس پڑے ہوئی بیڈ پر گر پڑے ۔
کمرے کی چارو دیواروں پر زرین کی تصویریں بچپن سے لیکر اب تک کی ۔ اور جتنی سالگرہ اسکی زندگی میں آئیں جو اس نے اپنے گھر منائیں سب یہاں لگی ہوئی تھی ۔ حیرت تو اس بات کی تھی کہ زرین کے علاوہ کوئی اور ان تصویروں میں نہیں تھا سوائے ایک دھندلے سائے کے ۔ وہ تقریبا هر تصویر میں دکھائی دے رہا تھا ۔
سرمد آغا نے صمد آغا رضی اور سعد سے کہا ۔ یار کوئی ترکیب سوچو کہ ہم گھر والوں کو یہاں انے سے روک سکیں ۔ مجھے لگتا ھے کہ کچھ برا ہونے والا ھے ۔ مجھے یوں لگتا ھے کہ میں نے یہاں شادی کرنے کا فیصلہ کیا نہیں مجھے سے کروایا گیا تھا ۔ مجھے خود بھی محسوس ہو رہا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ۔ سب نے ایک مرتبہ پھر گھر فون ملانے کی کوشش کی ۔ پھر وہی کہ سگنل کا مسلہ ۔
سعد نے مشورہ دیا کہ اب تو تمام ملازم واپس آ چکے ہیں ان میں سے کسی کا فون لیکر بات کر لیتے ہیں ۔
اب یہاں کے پرانے ملازم کو بلایا گیا ۔ اس کے فون سے نمبر ملایا گیا ۔ بیگم سلمان نے فون رسیو کیا تو آواز بلند اور صاف تھی ۔ صمد آغا نے خوشی خوشی بات کی اور صاف الفاظ میں منع کیا کہ آپ لوگ کل فارم ہاؤس میں مت آئیے ۔ پوری بات کرنے کے بعد جب بیگم سلمان کا کوئی جواب نہیں آیا تو انہوں نے کان سے فون ہٹا کر دیکھا تو مکمل ڈیڈ ہو چکا تھا ۔ بار بار آن کرنے کے باوجود موبائل دوبارہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا ۔ ملازم نے پرسرار سی مسکراہٹ میں کہا ۔ صاب فون کافی پرانا ھے خراب رہتا ھے زیادہ تر ۔اور پیلے پیلے دانت نکال کر مسکرانے لگا ۔
رضی کو اسکی مسکراہٹ کافی کھٹکنے لگی ۔ رضی خاموشی سے اٹھا تاکہ دوسرے ملازم سے فون لیکر بات کی جائے ۔ اور دبے قدموں ملازموں کے احاطے میں گھس گیا ۔ رضی کو عجیب سی بدبو محسوس ہوئی ۔ وہ جیسے جیسے اگے بڑھ رہا تھا بدبو تیز ہوتی گئی ۔ رضی نے ہاتھ دبا کر منہ پر رکھ دیے ۔بدبو قریب ایک کمرے سے آ رھی تھی ۔ رضی نے کمرے میں جھانک کردیکھا کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اس نے موبائل کی ٹارچ روشن کی تو کمرے کی سائیڈ پر ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ غور کرنے پر رضی کا دماغ گھوم گیا ۔ اس نے دیکھا یہ ہڈیاں انسانی جسم کی تھیں ۔ قریب کچھ کٹے پھٹے کپڑے جو لازمی ان تمام بدنصیبوں کے تھے جنکی ہڈیاں یہاں پڑیں تھیں ۔ رضی نے جلد دو چار تصویریں کھینچ لیں اور رضی بھاگتا ہوا واپس اپنے کمرے میں پہنچا تو وہی ملازم اسے دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنسا اور واپس چلا گیا ۔
رضی نے تمام ماجرا سبکو سنایا اور کہا ۔ تایا جی ہم مکمل پھنس چکے ہیں ۔ بجاۓ اس کے کہ ہم بےبسی کی موت مریں ۔ ڈٹ کر مقابلہ کرنا ھے اور کیسے کرنا ھے ہمیں سوچنا پڑے گا ۔ اس نے موبائل سے کھینچی ہوئی تصویر سبکو دکھائی تو رضی چاروں کی سٹی گم ہو گئی ۔ انہوں نے دیکھا پہلی تصویر میں ہڈیوں کے ڈھیر کے پاس کوئی عورت بیٹھی ہوئی تھی ۔اسکے منہ میں بھی ہڈی تھی ۔دوسری تصویر میں وہ ڈر کر دیوار کے ساتھ ایسے چپکی ہوئی تھی کہ اس کی ٹانگیں زمین سے تقریبا دو فٹ اونچی تھیں اور اسکے منہ کے ساتھ خون لگا ہوا تھا ۔
رضی نے کہا ۔اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں شائد اس طرف کا رخ بھی نہیں کرتا ۔ اور میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تمام ملازمین بھی انسانوں کے روپ میں جن ہی ہیں ۔ رضی کی بات سے سب نے اتفاق کیا سعد کے آنسو خوف و ہراس سے لگاتار نکلنا شروع ہو گئے ۔
جیسے جیسے رات قریب آتی گئی سب کی بے چینی بڑھنے لگی کہ صبح سب لوگ ا گئے تو کیسی سنبھال پائیں گے ۔ اتنے میں صابر کھانا لیکر پہنچ گیا ۔ چاروں نے صابر کا سر سے تک جائزہ لیا ۔ چاروں نے یہ بھی محسوس کیا کہ صابر زیادہ تر خاموش رہتا تھا ۔ ٹھنڈ اور دن بھر کی تھکن سے بھوک کافی محسوس ہو رھی تھی ۔ کھانا میں دال اور تنور کی روٹیاں پکی تھیں ۔ سعد نے کہا کہ یہاں تنور بھی ھے ۔ حیرت ھے ہمیں نظر کیوں نہیں آیا ۔
صابر نے مسکرا کر کہا ۔ فارم ہاؤس سے باہر نکل کر تھوڑا گھومیں پھریں آپ کو نظر آ جاۓ گا ۔ سبکو شدید بھوک محسوس ہو رھی تھی اور کھانا کھانے لگے ۔ رضی کو کھانا کھانے کے دوران منہ میں کوئی سخت چیز محسوس ہوئی تو ہڈی تھی ۔ اسنے بے دہانی سے ہڈی کو پلیٹ کی ایک سائیڈ پر رکھ دیا ۔ اچانک صمد آغا کی نظر پڑی تو وہ انسانی ہاتھ کی انگلی کی ہڈی تھی ۔ انہوں نے ہڈی کا بغور جائزہ لیا اور یکدم کھانے سے ہاتھ روک کر ابکاییاں لینے لگے ۔ باقی تینوں بھی سمجھ چکے تھے کہ انہیں انسانی گوشت کھانے کو دیا گیا۔ صمد آغا غصے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ صابر کی خبر لینی چاہئے ۔ انہوں نے صابر کو آواز دی لیکن وہ واپس نہیں آیا ۔ چاروں ایک ساتھ پر عزم ارادے سے اٹھے کہ اس طرح سے سسک سسک کر نہیں مرنا ۔ اگر کل گھر والوں کا آنا نا ہوتا ہم پیدل ہی گھر کو نکل جاتے ۔ خیر ابھی تو صابر کی خبر لیتے ہیں ۔ چاروں صابر کے کمرے کی جانب گئے ۔ پورا فارم ہاؤس چھان مارا کوئی ملازم صابر کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور نا ہی کچن میں کچھ پکانے کے اثرات نظر آ رے تھے ۔