سرمد آغا نے بتایا کہ فارم ہاؤس میں کچھ ملازم ہیں تو سہی پر انھیں کیا معلوم کہ ہم یہاں آ رھے ہیں ۔ ایسا کیا ماجرا ھے کہ فارم ہاؤس اتنا سجا ہوا ھے ۔
رضی نے کہا کہ ایسا نا ہو کہ ہمارے فارم ہاؤس میں کوئی ہماری غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر فنگشن کر رہا ھے۔ ہو سکتا ھے کسی جن کی شادی ہو رھی ہو ۔
چلو دیکھتے ہیں پہنچ تو گئے ہیں ہم ۔ سرمد آغا نے گیٹ کے پاس جا کر زور زور سے ہارن دیا تاکہ کوئی ملازم قریب ہو تو گیٹ کھول دے ۔ کچھ دیر بعد ہی گیٹ کھل گیا اور گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے سب نے دیکھا کوئی ملازم نظر نہیں آیا ۔ گیٹ کھولتے ہی غائب ہو چکا تھا ۔ سبکو برا بھی لگا اور حیرت بھی ہوئی ۔
چاروں نے اپنا سامان گاڑی سے نکالا اور صدر دروازے سے اندر جانے کیلیے جیسے ہی اگے بڑھے دروازہ خود بخود کھلتا چلا گیا ۔
سب نے اندر داخل ہونے کے بعد ادھر ادھر دیکھا یہاں بھی دروازہ کھولنے والا نظر نہیں آیا ۔
سعد کافی خوفزدہ ہو گیا ۔اور بولا یہ جن نے دروازہ کھولا ہوگا تبھی تو نظر نہیں آیا ۔ اس نے مشورہ دیا کہ ہمیں واپس چلے جانا چاہئے کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی جن کی شادی ہو رھی ہو یہاں ۔
سعد نے کیا تو مذاق تھا مگر اس کی بات سنکر کسی کے ہنسنے کی آواز صاف سنائی دی گئی ۔
چاروں چلتے ہوئے مردوں والے حصے میں پہنچ گئے ۔ یہاں ایک پرانا ملازم نظر آیا جس نے فورا گڑ بڑا کر سلام کیا جیسے غیر متوقع آمد پر حیران ہو گیا ہو ۔ اور سبکو آرام کا کہہ کر چائے پانی کا بندوبست کرنے چلا گیا ۔
اتنی دیر میں سب نے دیکھا کمرے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے تھے ۔ تازہ تازہ دیواریں پینٹ کی گئی تھیں ۔ تمام کمروں میں نیا سامان بھی رکھا گیا تھا۔ لاؤنج میں ایک بہت بارہ فانوس جس میں سو کے بھی زیادہ بلب لگی تھے ۔چلتے ہوئے عورتوں والی سائیڈ آ گئی ۔
یہی حال زنانہ سائیڈ پر تھا ۔ تمام کے تمام کمرے سجے ہوۓ ۔ هر کمرے میں بھاری پردے لٹک رھے تھے ۔
سرمد آغا نے کہا مجھے نہیں لگتا کہ یہ فارم ہاؤس ہمارا ھے ۔ ہم کہیں غلط گھر تو نہیں آ گئے ۔ اتنے میں ملازم چائے اور کچھ کھانے کیلیے چیزیں بھی لے آیا۔ چاروں نے ملازم کی لائی ہوئی چائے پی کچھ پوچھنے کی سکت نہیں تھی پھر بھی انہوں نے ملازم سے پوچھا ۔
ہاں بھئی سناؤ یہ فارم ہاؤس اتنا سجا ہوا کیوں ھے ۔ ملازم جواب دیے بغیر واپس چلا گیا ۔
صمد آغا نے مشورہ دیا کہ صبح ہم اس بات کا پتہ چلا لینگے ابھی تو اتنی سکت نہیں بات بھی کر سکیں اور چاروتھکن سے نڈھال سو گئے ۔
صبح دروازہ بجنے کی آواز سے سبکی آنکھ کھلی تو سعد نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے وہی ملازم کھڑا تھا ۔
صاب ناشتے میں کیا کھانا پسند کرینگے ۔ ملازم نے پوچھا ۔ سرمد آغا نے کہا فلحال جو ھے لے اؤ ۔ اور جلدی آنا ۔
ملازم نے حکم کی تعمیل کی اور جلد ہی بڑی بڑی ٹرے میں آملیٹ پراٹھے اور چائے لیکر ا گیا ۔
ناشتے سے فارغ ہو کر صمد آغا نے پوچھا باقی کے ملازم کہاں ہیں سبکو بلا لاؤ کچھ باتیں کرنی ہیں ۔ ۔ ملازم صابر نے کہا سرکار باقی سب آج ہی دوسرے گاؤں گئے ہیں ۔ ہمارے کریانہ سٹور کا سامان ختم ہو چکا تھا ۔ کل صبح تک سب واپس آ جائیں گے ۔
اچھا یہ بتاؤ ۔ یہاں کوئی آیا تھا کیا ۔ رضی نے پوچھا ۔
نہیں جناب یہاں تو سالوں سے کوئی بھی نہیں آیا ۔ نا ہی آپ لوگوں میں سے کوئی آیا ۔ صابر نے جواب دیا ۔
اچھا تو پھر یہ فارم ہاؤس اتنا سجا ہوا کیوں ھے ۔ رضی نے پھر پوچھا ۔
جناب جی آپ کے بندے نے ہی کیا ھے چند گھنٹے پہلے ۔ صابر نے کہا ۔
کونسے بندے نے اب سعد نے بھی تحقیق شروع کر دی ۔
جناب جی شہر سے ایک بندہ آیا تھا ۔ اس نے بتایا تھا کہ سرمد آغا نے بھیجا لائٹین لگا کر سجانا ھے کیوں کہ انکی بیٹی کی شادی ھے ۔
چاروں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا اور خاموش رھے ۔
اسی نے سارا فارم ہاؤس صاف کیا ۔ نیا سامان رکھا اور پرانا باہر پھینک دیا ۔ حیرت تو یہ ھے کہ اس نے سارا کام آپ کے انے سے چند لمحے پہلے ہی کیا ۔
بس اسکا کام ختم ہوا اور آپ داخل ہونے ۔ صابر نے بتایا ۔
اچھا ابھی تم جاؤ جب ضرورت ہوگی بلا لینگے ۔
صابر کے جاتے ہی آغا صاحب نے کہا کہ ہو سکتا ھے کہ سلمان آغا نے سرپرائز دیا ہو بندہ انہوں نے بھیجا ہو ۔
یہ سوچ کر صمد آغا نے فون ملایا ۔ سگنل نا ہونے کی وجہ کال نہیں لگ سکی ۔ باری باری چاروں نے کوشش کی مگر بے سدھ ۔
صمد آغا نے سوچا پورے ہاؤس کا چکر لگا کر جائزہ لیا جاۓ ۔ کہ یہاں شادی کرنا مناسب ھے بھی یا نہیں ۔ہاؤس کے اندرونی حصہ کافی سنوارا ہوا تھا ۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد سب گھر فون کرتے رہے مگر وہی سگنل پرابلم اتا رہا ۔ ہاؤس کو حیرت انگیز طور پر سجایا گیا تھا ۔
کافی زیادہ خرچہ کیا گیا ھے ۔ صمد آغا نے بغور جائزہ لینے لے بعد کہا ۔ پر مجھے ایسا نہیں لگتا کہ سلمان آغا نے یہ سب کیا ہو ۔
اندرونی جائزہ لینے کے بعد سب باہر نکل آئے ۔ رضی اور سعد تیز تیز پورے حصے کو دیکھ لینا چاہتے تھے ۔ صبح کی روشنی میں فارم ہاؤس کسی پیلس سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔ اب انکا خوف بھی ختم ہو چکا تھا ۔ بس ایک ہلکی سی بے چینی کہ اسے اتنا سجایا گیا ۔ کب اور کیوں ۔
ان سبکو یقین تھا کہ یہ سلمان آغا نے ہی سرپرائز دیا۔ اور فون پر بات کرنے کے بعد مطمئن ہو جائینگے ۔
چلتے چلتے سعد اور رضی ہاؤس کی بالکل پچھلی سمت تک پہنچ گئے ۔ یہاں لائن سے گھنے درخت لگے تھے ۔ خاردار جھاڑیاں بھی موجود تھیں ۔ یہ سائیڈ انتہائی خوفناک منظر پیش کر رھی تھی ۔ اس سائیڈ پر کوئی حد نہیں تھی اور سامنے گھنے جنگلات صاف نظر ا رھے تھے ۔
درمیان میں صرف ایک باڑ تھی جسے آسانی سے پھلانکا جا سکتا تھا ۔
رضی اور سعد چلتے ہوئے اس حصے پر پہنچ گئےاور اپنا اپنا خیال ظاہر کرنے لگے کہ یہ سائیڈ خاصی خوفناک ھے یہاں سے جنگل کے جانوروں کا انے کا اندیشہ ہے ۔ لہٰذا اس جگہ مضبوط دیوار بنا لینی چاہئے ۔
ابھی یہ جائزہ لے ہی رھے تھے کہ رضی کی نظر کچھ کھودی ہوئی زمین پر پڑی جیسے تازہ تازہ کھودا گیا ہو ۔
دونوں جب اس جانب بڑھے تو حیرت سے آنکھیں کھل گئیں ۔ زبان گنگ ہو کر رہ گئی دونوں نے ایک دوسرے کو بے یقینی سے دیکھا اور کہا ۔کیا تم بھی وہی دیکھ رہے ہو جو مجھے نظر آ رہا ہے ۔ سعد نے رضی کی ہاں میں ہاں ملائی اور وہاں سے سرپٹ دوڑ لگا دی ۔