پروگرام کے مطابق اگلے اتوار کی صبح آٹھ بجے سرمد آغا ۔ صمد آغا اور صمد آغا کے بیٹے رضی اور سعد کچھ ضروری سامان کے ساتھ فارم ہاؤس نکل پڑے ۔ حنا بیگم اور بیگم صمد نے تین چار سالن بنا دیے تھے ساتھ لیجانے کے لیے ۔ اور روٹیاں راستے میں کسی بھی تنور سے لی جا سکتی تھیں ۔
ویسے تو فارم ہاؤس کے ارد گرد کچھ گھر بھی تھے جہاں مقامی لوگ آباد تھے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے فارم ہاؤس اب اتنا بھی ویران نہیں رہا تھا ۔ لوگوں نے وہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیا جمع کر رکھی تھیں ۔
اندازہ تو یہی تھا کہ بارہ ایک بجے کے قریب وہاں پہنچ جائیں گے ۔ موسم خاصا خوشگوار تھا ۔
دھوپ جسم کو حرارت بخش رھی تھی ۔ جس سے سفر خاصا خوشگوار لگنے لگا ۔ فارم ہاؤس جانے والے راستے بھی صاف ستھرے اور سڑک کشادہ تھی ۔
فارم ہاؤس پہنچ کر کیا کیا کام کرینگے اس موضوع پر چاروں باتیں کرتے ہوئے جا رھے تھے ۔
تینوں بھائیوں کا مشترکہ فارم ہاؤس چھ کنال کے رقبے پر مشتمل تھا ۔ اس میں عورتوں اور مردوں کیلیے الگ الگ پورشن تھے ۔ دونوں اطراف میں بارہ بارہ کمرے ملحقہ باتھ روم ۔ جبکہ ان دونوں پورشن کا لاؤنج مشترکہ تھا ۔ملازمین کیلیے تین کمرے الگ سائیڈ پر بنائے گئے تھے ۔
وہاں پہنچنے کے بعد تمام کمروں کی جھاڑ پونچھ صفائی کروانا پھر پورے فارم ہاؤس میں بتیاں لگانا ۔ بسترے کچن وغیرہ سب کام شامل تھے ۔ گھر سے نکلے ڈیڑھ دو گھنٹے ہو چلے تھے ۔ اب کچھ کچھ بھوک کا احساس ہونے لگا تو راستے میں کسی ایک ہوٹل کے قریب گاڑی کھڑی کرکے سعد نے روٹی لی اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سب نے کھانا کھایا ۔
کھانا کھانے کے فورا بعد پھر اپنی منزل کی جانب گامزن ہو گئے ۔
فارم ہاؤس ابھی کافی دور تھا اور وقت گزارنے کیلیے سعد نے پوچھا ۔ تایا جی کیا واقع ہی اس کمرے کی کوئی کہانی ہے جہاں زرین پیدا ہوئی تھی ۔
کچھ کہہ نہیں سکتا یار ۔ بیس سال گزر گئے اس بات کو اب ۔
پر اتنا ضرور ہوا تھا کہ زرین نے پندرہ دن کچھ کھایا پیا نہیں تھا ۔ پریشانی کا یہ عالِم تھا کہ ہم دونوں میاں بیوی بڑی مشکل سے ایک دو چمچ کھانا کھلاتے تو یہ الٹی کر دیتی اور اس کی الٹی میں مختلف چیزیں نکلتی جو ہم نے پکائی ہی نہیں ہوتیں ۔
پندرہ دن ایک بچہ کھائے پیے بغیر تو نہیں رہ سکتا ۔
ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے کہا ۔ بچی بالکل صحت مند ھے ۔ اور اس کا معدہ خوراک سے بھرا ہوا ہے ۔
یعنی کوئی تھا جو اسے کھلاتا رہتا تھا ۔اور اکیلے بیٹھے کھیلتی رہتی تھی ۔ ہنستی مسکراتی تھی ۔ دن بدن اسکا رحجہان ہماری طرف کم ہوتا جا رہا تھا ۔ پھر ہم نے یہاں سے نکلنے کا سوچا ۔ تب زرین غائب ہو گئی تھی اور بہت ڈھونڈھنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ یہی اسی گھر میں ھے لیکن ہماری نظروں سے اوجھل ھے ۔ ایک اللہ والے نے مشورہ دیا تھا کہ زرین کے کمرے میں آئینے لگا دیں ۔ جب ہم نے چاروں جانب آئینے لگائے زرین ہمیں نظر آنا شروع ہو گئی ۔ تب ہم اسے لیکر شہر منتقل ہو گئے ۔
یہ سن کر رضی بھی خوفزدہ ہو گیااور کہا کہ پھر تو آپ نے غلطی کر دی ۔ یہاں شادی کا پروگرام رکھنا ہی نہیں چاهیے تھا آپ کو ۔ ۔
سرمد آغا نے ہنس کر کہا ۔ یار اب تو کئی سال گزر گئے ۔ وہ بات وہیں ختم ہو چکی تھی ۔
فارم ہاؤس پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ اور درکار تھا ۔ تین گھنٹے باتوں اور سفر میں اچھے گزر گئے پتا بھی نہیں چلا ۔ تمام راستہ بارونق رہا گاڑیوں کی آمدورفت بھی چلتی رہی ۔
اب جس سڑک پر پہنچے یہ سڑک فارم ہاؤس کی طرف مڑنے لگی ۔ یہاں دور دور تک کوئی گاڑی نظر نہیں ا رھی تھی ۔ مقامی لوگ اکا دکا دکھائی دے رہے تھے اور کچھ عورتیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں ۔ سڑک کی دونوں اطراف میں کچھ کچے پکے مکان بھی موجود تھے ۔ چند فاصلوں پر چھوٹے موٹے کریانہ سٹور بھی دکھائی دیئے ۔
یہ سڑک بیشک سنسان تھی لیکن بہت خوبصورت اور کشادہ تھی ۔ رضی اور سعد کو کافی تسلی ہوئی کہ فارم ہاؤس کی اطراف خوبصورت اور کشادہ ہیں ۔ چاروں طرف گھنے جنگلات کا حسن انہیں اور بھی متاثر کر رہا تھا کہ اچانک گاڑی ایک بریک کے ساتھ رک گئی ۔ گاڑی کے بالکل سامنے سے ایک ضعیف عورت گزر گئی سرمد آغا نے بریک لگائی تو عورت نظروں سے اوجھل ہو کر انکی سائیڈ پر شیشے پر دستک دینے لگی ۔
پیلے پیلے دانت نکالے ہنستے ہوئے کہا ۔
صاحب ۔صدقہ تو دیتے جاؤ۔ اب تو آنا جانا بھی لگا رھے گا ۔
سرمد آغا اور صمد آغا نے جب اسکی طرف دیکھا تو حیران رہ گئے ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ صدقہ دیتے اس عورت نے انتہائی غصے سے شیشے پر ہاتھ مارا اور کہا ۔ سنبھال کر رکھ اپنے پاس تجھے کام اے گا ۔ اور بھاگتی واپس چلی گئی ۔ رضی اور سعد کی نظریں کافی دور تک اسکا عورت کا پیچھا کرتی رھی ۔ ایک مقام پر وہ غائب ہو گئی ۔
صمد یاد کرو اس عورت کو اس سے پہلے کہاں دیکھا تھا ہم نے ۔
صمد نے کہا ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ دیکھی ہوئی لگتی ھے ۔ دونوں نے ذہن پر بہت زور دیا مگربے سود ۔
رضی اور سعد بھی انکی باتوں میں حصہ لینے لگے ۔ابھی اسکا ذکر ہو ہی رہا تھا کہ گاڑی ایک جھٹکے سے پھر رک گئی ۔ سرمد آغا کی کوشش کے باوجود گاڑی سٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رھی تھی ۔ رضی کو کافی معلومات تھی کہ گاڑی کے متعلق ۔
اسنے بونٹ کھول کر چیک کیا ۔ انجن بھی صحیح حالت میں تھا بظاھر کوئی خرابی نظر نہیں آ رھی تھی ۔ ایک گھنٹے کا راستہ طویل ہوکر اب کئی گھنٹوں میں بدل گیا ۔
شام کے چار بجنے کو تھے اور گاڑی سٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رھی تھی ۔ رضی سعد اور صمد آغا نے گاڑی کو دھکا لگانے کی کوشش کی مگر بے سدھ ۔
چاروں تھک چکے تھے اور کچھ دیر ایک درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گئے ۔
اچانک انکے سامنے سے وہی عورت گزری ۔ اس کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے بچے انگلی پکڑ کر چل رہے تھے ۔ دونوں کے چہرے ڈھکے ہوۓ تھے ۔
عورت پاس سے گزری اور بولی ۔
کہا تھا نا کہ صدقہ دیتے جاؤ ۔ اتنا کہہ کر وہ ایک بڑے سے درخت کے پاس سے گزری اور درخت کے پیچھے غائب ہو گئی ۔
سرمد آغا ایک دم چونک پڑے ۔ اور بولے ۔
یاد کرو صمد یہ الفاظ ۔ یہ عورت جانی پہچانی ھے ۔ کون ھے یہ ذہن پر زور دو ۔
ابھی یہ باتیں کر ہی رھے تھے کہ گاڑی خود بخود سٹارٹ ہو گئی ۔
چاروں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور گاڑی کیطرف چل پڑے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی رضی نے کہا ۔ تایا جی میری مانیں تو فارم ہاؤس میں شادی کا پروگرام ختم کر دیں ۔مجھے یقین ہو چلا کہ کوئی نا کوئی مسلہ ضرور ہوگا ۔
سرمد آغا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اور چپ چاپ ڈرائیو کرنے لگے ۔ اور دل میں سوچنے لگے رضی صحیح کہہ رہا ھے ۔پر مجھے کیوں ایسے محسوس ہو رہا جیسے مجھے کوئی طاقت کھینچے جا رھی ھے ۔
اب انہیں فارم ہاؤس پہنچنے کی جلدی تھی ۔ تاکہ اندھیرا پھیلنے سے پہلے اپنے ٹھکانے تک پہنچ جایں ۔
سڑک تمام راستہ صاف ستھری اور کشادہ رھی ۔ اسکے باوجود سفر طویل ہوتا جا رہا تھا ۔
صمد آغا نے خیال ظاہر کیا کہ کہیں ہم راستہ نا بھٹک گئے ہوں ۔ کیوں کہ دونوں لمبے عرصے تک یہاں نہیں آ سکے تھے ۔ڈرائیو کے دوران بار بار انکی نظروں سے ایک ہی بورڈ گزر رہا تھا ۔ پیٹرول کی سوئی بھی آخر تک پہنچنے کا اشارہ دے رھی تھی ۔بات سمجھ سے باہر ہوتی جا رھی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا تھا ۔
کافی دور ایک نیا بورڈ نظر آیا صمد آغا نے کہا کہ گاڑی روکیں میں اسپر پڑھنا چاهتا ہوں کہ یہ سڑک کہاں جا رھی ھے ۔
بورڈ کے قریب انے پر صمد آغا نیچے اترے اور جیسے ہی بورڈ پر سے کچھ پڑھا بھاگتے گرتے پڑتے گاڑی میں بیٹھ گئے اور اپنی اکھڑی سانسیں بحال کرنے لگے اور بولے ۔
لگتا ہم کسی مصیبت میں پھنس گئے ہیں ۔سبکے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بورڈ پر یہی لکھا تھا ۔
کہا تھا نا صدقہ دیتے جاؤ۔
اب سب آیت الکرسی کا ورد کرنے لگے۔ اگر پیٹرول ختم ہوا تو اگے جانا انتہائی دشوار ہو جاتا ۔ سرمد آغا نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی ۔ کچھ گز دور انہیں فارم ہاؤس نظر ا گیا ۔ اسوقت ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل رہا تھا ۔ سب نے دیکھا فارم ہاؤس پر بتیاں قمقمے جل رھے تھے ۔ پورا فارم ہاؤس دلہن کی طرح سجا ہوا تھا ۔ روشنیوں کا یہ عالِم تھا کہ آس پاس کے درخت بھی دکھائی دے رہے تھے ۔فارم ہاؤس کی خوبصورتی ایسے تھی جیسے بالکل نیا نیا تعمیر کیا گیا ہو ۔
چاروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ۔