مسافتوں کی لگن تو فقط بہانہ تھا
مسافروں کو بہرحال آگے جانا تھا
رہا نہ دھیان کسی کو دیا بجھانا تھا
جب اُس کو میں نے، مجھے اُس نے آزمانا تھا
یقین کی یہی دولت ہمارے ہاتھ آئی
کہ ہم نے عشق میں پیہم فریب کھانا تھا
خود اپنے آپ سے احوال کہہ کے روتے رہے
کہ شہرِ دل کو جلانا تھا اور بجھانا تھا
جو میری روح میں بس زہر گھولتا ہی رہے
مِرے نصیب میں چینی کا کارخانہ تھا
جب آنکھیں مند گئیں حیدر گھنے اندھیرے میں
تو روشنی کا کوئی خواب ہی جگانا تھا
٭٭٭