طلوعِ صبح سے پہلے شگافِ نیل ہونا ہے
یہ منظر سامنے کا جلد ہی تبدیل ہونا ہے
گزرتی سرد اور لمبی اندھیری شب کے سینے میں
ابھی کچھ اور شمعوں کا لہو تحلیل ہونا ہے
پھر اہلِ جور کے حق میں فقیہِ شہر کے صدقے
حدیثِ جبر کی کوئی نئی تاویل ہونا ہے
ہماری ایڑیوں سے اب کوئی چشمہ نہ ابلے گا
نہ قسمت میں ہماری کوئی بیتِ اِیل ہونا ہے
تمہارے دل کی بنجر سر زمیں سیراب کرنے کو
ہماری خشک آنکھوں ہی کو آخر جھیل ہونا ہے
کبھی دریا کی لہروں پر، کبھی صحرا کے سینے میں
محبت کا نیا قصہ سدا تشکیل ہونا ہے
ہمارا خواب تو بے شک ادھورا رہ گیا حیدر
مگر تعبیر کی تو لازماً تکمیل ہونا ہے
٭٭٭