عجیب نشہ، عجب سا سُرور خاک میں ہے
کہ خاکساری کا سارا غرور خاک میں ہے
اگرچہ اِن کا تعلق ہے عرش سے لیکن
اساسِ کعبہ و بنیادِ طور خاک میں ہے
عطا زمیں کی ہیں رسمیں ، روایتیں ساری
کسے خبر ہے کہ کتنا شعور خاک میں ہے
اسیرِ خاک نہیں مٹی ہے مِرا عنصر
جبھی تو میرا ظہور و نشور خاک میں ہے
جو پھونک دیں تو قیامت ہی اک اٹھائے گا
چھپا ہوا کوئی ایٹم کا صُور خاک میں ہے
نہیں جو کوئی بھی اس کی گرفت سے باہر
کوئی نہ کوئی تو جادُو ضرور خاک میں ہے
یہ ساری روشنی حیدر ہے ماں کے چہرے کی
کہاں ہے شمس و قمر میں جو نُور خاک میں ہے
٭٭٭