اِس طرح شہرِ اَنا پر میں تباہی مانگوں
اپنے ’’ہونے‘‘ سے ’’نہ ہونے‘‘ کی گواہی مانگوں
اُس کے ہونٹوں پہ میں پھر مہکوں تمنا بن کر
پھر وہ چاہت جو کبھی اُس نے تھی چاہی مانگوں
یہ تو ہو گا کہ میں بھڑکوں گا یا بجھ جاؤں گا
یوں سلگنے سے تو بہتر ہے ہوا ہی مانگوں
اُس کو پانے کی تمنا پہ یقیں کب ہے، مگر
ہاتھ جب اُٹھ ہی گئے ہیں تو دعا ہی مانگوں
اپنی کچھ نیکیاں لکھنے کے لئے بھی حیدر
اپنے نا کردہ گناہوں سے سیاہی مانگوں
٭٭٭