روگ سمجھا ہے کوئی کب کسی دیوانے کے
آدھے ہم تیرے ہیں ، آدھے کسی بے گانے کے
دل نے کچھ اپنے ہی معیار بنائے رکھے
زخم دینے کے قرینے ہوں کہ سہہ جانے کے
ہم کہاں کے کوئی سقراط تھے پر ہم پر بھی
آئے الزام نئی نسل کو بہکانے کے
وہ کہ نازاں رہے جن باتوں پہ، اب دیکھ بھی لیں
آ گئے وقت انھیں باتوں پہ پچھتانے کے
ہم بھی اُٹھے ہیں نیا حوصلہ لے کر حیدر
نئے انداز ہیں اُس کے بھی ستم ڈھانے کے
٭٭٭