چھوڑ گئے سب تجھ کو تیری غزلوں والے لوگ
میرے شاعر سب کے دکھ اب تنہا بیٹھا بھوگ
عشق اور نوکری مل کے دونوں چُوس گئے ہیں تجھ کو
تُو تو بس اب ایسے ہے جیسے گنے کا پھوک
اُس سے شکوہ کرنے کا تو حق ہی نہیں بنتا ہے
پتھر کو معلوم ہو کیسے آئینے کا روگ
اپنے ارمانوں کو خود ہی کفناؤ دفناؤ
خود ہی من کو قتل کرو اور خود ہی مناؤ سوگ
میں کوئی رام نہ گوتم، حیدر اک شاعر آوارہ
پھر یہ کیسی خواہش ہے جنگل میں لے لوں جوگ
٭٭٭