چھنکیں یہ کس کے چمپئی پَیروں کی جھانجھریں
حیرت سے رُک کے رہ گئیں لمحوں کی جھانجھریں
پھر گر رہی ہے سوچتی آنکھوں کی آبشار
پھر مسکرائی ہیں تری یادوں کی جھانجھریں
رُوحوں میں گنگناہٹیں جو محوِ رقص تھیں
لَے تھی وہ دھڑکنوں کی یا سانسوں کی جھانجھریں
حیدر پھر آج آئے گا شاید کسی کا خط
پھر کوئی چھنچھنائے گا خوابوں کی جھانجھریں
٭٭٭