شاخِ دل یوں تری یادوں سے ہری رہتی ہے
جیسے میووں سے کوئی ڈال بھری رہتی ہے
میں نئے قصے میں سیٹل تو نہیں ہوں لیکن
آنکھ کی جھیل میں وہ بَن کے پری رہتی ہے
میں نہ رانجھا نہ تعلق مِرا وارث سے کوئی
پر مِرے دل میں بھی اک بھاگ بھری رہتی ہے
اُس کو پا لینے کی خواہش بھی ہے کیسی خواہش
اُس کے کھونے کے تصور سے ڈری رہتی ہے
اُس کی خفگی بھی نہیں ہوتی بناوٹ والی
مسکراہٹ بھی سدا اُس کی کھری رہتی ہے
استعارے تو کجا سامنے اُس کے حیدر
شاعری ایک طرف اپنی دَھری رہتی ہے
٭٭٭