خموش آنکھوں سے کرتا رہا سوال مجھے
وہ آ کے کہہ نہ سکا اپنے دل کا حال مجھے
کبھی تو خود کو بھی پہچاننے کی کوشش کر
حصارِ ذات سے آ کر کبھی نکال مجھے
یہ بے یقینی کا گہرا سکوت تو ٹوٹے
فریب دے کوئی خوش فہمیوں میں ڈال مجھے
وہ نام لکھوں تو لفظوں سے خوشبوئیں اٹھیں
وہ دے گیا جو مہکتے ہوئے خیال مجھے
گئے زمانے لئے پھر وہ آگیا حیدر
بکھر نہ جاؤں کہیں پھر ذرا سنبھال مجھے
٭٭٭