اُداسیوں سے بھرے دل بھی مسکرائیں گے
نئی رُتوں کے وہ دن بھی ضرور آئیں گے
بُجھا گئیں جو کئی آفتاب چہروں کو
اُن آندھیوں کے بدن بھی جلائے جائیں گے
اندھیرے دن کی مسافت کا سوچ لو پہلے
اُجاڑ لمحوں کے آسیب بھی ڈرائیں گے
سمٹ سکے گا کہاں اور چھپ سکے گا کہاں
ترے خیال میں آ کر تجھے چُرائیں گے
عجیب لوگ ہیں بے چہرہ شہر کے حیدر
یہ تیری بات کا مطلب سمجھ نہ پائیں گے
٭٭٭