خلاف دنیا کی کیا کیا گواہیاں نہ گئیں
گناہِ عشق کی پر بے گناہیاں نہ گئیں
فقیر بن گئے تیری محبتوں کے اسیر
مگر مزاج کی وہ بادشاہیاں نہ گئیں
دُکھوں کے داغوں کے کتنے چراغ روشن ہیں
مِرے نصیب کی لیکن سیاہیاں نہ گئیں
بہاریں لاکھ سجاتی رہیں ، مگر دل سے
تمہارے پیار کی ڈھائی تباہیاں نہ گئیں
مِرے ہی خواب کنوارے نہیں رہے اب تو
کہ آرزوئیں تری بھی بیاہیاں نہ گئیں
تمہیں نے تھوڑا سا خود کو جھکا لیا ہوتا
چلو ہماری اگر کج کلاہیاں نہ گئیں
کسی پہ اب کوئی الزام کیا دھریں حیدر
محبتیں تو ہمیں سے نباہیاں نہ گئیں
٭٭٭