وہ خود فریبی کے لمحے گزر چکے ہوں گے
کہ خواب سُوکھ کے اب تک بکھر چکے ہوں گے
تمہارے جسم کی خوشبو میں جو دہکتے تھے
وہ سارے رنگ دھنک کے اُتر چکے ہوں گے
گئے جو روشنیاں لے کے سرد ہاتھوں پر
اُس اَندھے شہر میں اب تک تو مر چکے ہوں گے
وہ اپنی سوچ پہ گہری اداسیاں لکھ کر
کچھ اپنے آپ سے سمجھوتہ کر چکے ہوں گے
سمندروں کی طرح جو ازل سے پیاسے ہیں
خود اپنی پیاس میں جل کر نکھر چکے ہوں گے
غلط ہے سوچ مگر پھر بھی سوچتا ہوں میں
تمہاری یاد کے سب زخم بھر چکے ہوں گے
٭٭٭