یوں کسی کے ساتھ اپنا واسطہ رہ جائے گا
وہ چلا جائے گا لیکن خواب سا رہ جائے گا
دُور تک گو دُوریوں کا سلسلہ رہ جائے گا
خط اگر لکھتے رہو گے رابطہ رہ جائے گا
فاصلوں کا اِس طرح نازل ہوا ہم پر عذاب
مل بھی جائیں گے تو کوئی فاصلہ رہ جائے گا
پاس آ کر پڑھ نہ پائے گا کتابِ دل کبھی
وہ تو بس شیلفوں سے مجھ کو جھانکتا رہ جائے گا
ق
میں تو اُس کو دیکھ کر رہ جاؤں گا حیرت زدہ
وہ بھی مجھ کو دیکھ کر کچھ سوچتا رہ جائے گا
گفتگو ہر چند ہو گی لمحۂ موجود کی
دل نہ جانے کن زمانوں میں گھرا رہ جائے گا
رُت بدل جائے گی اُس کے جگمگاتے جسم کی
میری رگ رگ میں مگر اک ذائقہ رہ جائے گا
٭٭٭